سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”بنی آدم کا ہر عمل اس کے لئے ہے سوائے روزے کے، کہ وہ خاص میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ اور روزہ (گناہوں سے) سپر (ڈھال) ہے۔ پھر جب کسی کا روزہ ہو تو اس دن گالیاں نہ بکے اور آواز بلند نہ کرے پھر اگر کوئی اسے گالی دے یا لڑنے کو آئے تو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں اور قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے کہ بیشک روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت کے دن مشک کی خوشبو سے زیادہ پسندیدہ ہے اور روزہ دار کو دو خوشیاں ملتی ہیں جن سے وہ خوش ہوتا ہے۔ ایک تو وہ اپنے افطار سے خوش ہوتا ہے اور دوسرا وہ اس وقت خوش ہو گا جب وہ اپنے روزے کے سبب اپنے پروردگار سے ملے گا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین زنجیروں میں کس (کر باندھ) دئیے جاتے ہیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رمضان سے پیشگی ایک یا دو روزے مت رکھو سوائے اس شخص کے جو ہمیشہ ایک (مقررہ) دن میں روزہ رکھا کرتا تھا اور وہی دن آ گیا تو وہ اپنے مقررہ دن میں روزہ رکھ لے۔ (مثلاً جمعرات اور جمعہ کو روزہ رکھتا تھا اور انتیس اور تیس تاریخ میں شعبان کے وہی دن آ گئے تو وہ روزہ رکھ لے)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جب تم چاند دیکھو تو روزہ رکھو۔ اور جب تم اس کو دیکھو تب ہی افطار کرو۔ پھر اگر بادل آ جائیں تو تیس روزے پورے رکھ لو (اس کے بعد عید کرو)۔
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم اٹھائی کہ وہ اپنی بیویوں کے پاس ایک مہینہ تک نہ جائیں گے (لیکن) جب انتیس (29) دن گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح یا شام کے وقت اپنی بیویوں کے پاس گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ اے اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے تو قسم اٹھائی تھی کہ آپ ہم پر ایک مہینہ تک داخل نہ ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مہینہ انتیس دنوں کا بھی ہوتا ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم لوگ امی (ان پڑھ) ہیں، نہ لکھتے ہیں نہ حساب کرتے ہیں۔ مہینہ تو ایسا ہوتا ہے، ایسا ہوتا ہے، ایسا ہوتا ہے۔ اور تیسری بار انگوٹھا بند کر لیا اور مہینہ ایسا ہوتا ہے، ایسا ہوتا ہے، ایسا ہوتا ہے۔ یعنی تیس دن پورے ہوتے ہیں۔
سیدنا ابوالبختری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ہم عمرہ کو نکلے اور جب (مقام) نخلہ کے درمیان میں پہنچے تو سب نے چاند دیکھنا شروع کر دیا اور بعضوں نے دیکھ کر کہا کہ یہ تین رات کا چاند ہے (یعنی بڑا ہونے کی وجہ سے) اور بعضوں نے کہا کہ دو رات کا ہے۔ پھر ہم سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ملے اور ان سے ذکر کیا کہ ہم نے چاند کو دیکھا اور کسی نے کہا کہ تین رات کا ہے اور کسی نے کہا دو رات کا ہے۔ تب ابن عباس رضی اللہ عنہما نے پوچھا کہ تم نے کون سی رات میں دیکھا؟ تو ہم نے کہا کہ فلاں فلاں رات میں۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو دیکھنے کے لئے بڑھا دیا۔ وہ اسی رات کا تھا جس رات تم نے دیکھا۔
کریب کہتے ہیں کہ سیدہ ام فضل بنت حارث رضی اللہ عنہا نے انہیں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس (ملک) شام بھیجا۔ انہوں نے کہا کہ میں شام گیا اور ان کا کام کر دیا اور میں نے جمعہ (یعنی پنجشنبہ کی شام) کی شب کو رمضان کا چاند دیکھا۔ پھر مہینے کے آخر میں مدینہ آیا۔ اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھ سے پوچھا اور چاند کا ذکر کیا کہ تم نے کب دیکھا؟ میں نے کہا کہ جمعہ کی شب کو۔ انہوں نے کہا کہ تم نے خود دیکھا؟ میں نے کہا ہاں اور لوگوں نے بھی دیکھا اور روزہ رکھا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اور لوگوں نے بھی، تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ہم نے تو ہفتہ کی شب کو دیکھا اور ہم پورے تیس روزے رکھیں گے یا چاند دیکھ لیں گے۔ تو میں نے کہا کہ آپ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا (چاند) دیکھنا اور ان کا روزہ رکھنا کافی نہیں جانتے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی حکم کیا ہے۔ اور یحییٰ بن یحییٰ کو شک ہے کہ حدیث میں ”نکتفی“ کا لفظ ہے یا ”تکتفی“ کا۔