(مرفوع) حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب. ح وحدثني عبد الله بن محمد، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، قال الزهري: فاخبرني ابو سلمة بن عبد الرحمن، عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم وهو يحدث عن فترة الوحي، فقال في حديثه:" فبينا انا امشي إذ سمعت صوتا من السماء، فرفعت راسي فإذا الملك الذي جاءني بحراء جالس على كرسي بين السماء والارض، فجئثت منه رعبا، فرجعت، فقلت: زملوني زملوني فدثروني، فانزل الله تعالى يايها المدثر إلى والرجز فاهجر سورة المدثر آية 1 - 5 قبل ان تفرض الصلاة وهي الاوثان".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ. ح وحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَأَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُحَدِّثُ عَنْ فَتْرَةِ الْوَحْيِ، فَقَالَ فِي حَدِيثِهِ:" فَبَيْنَا أَنَا أَمْشِي إِذْ سَمِعْتُ صَوْتًا مِنَ السَّمَاءِ، فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَإِذَا الْمَلَكُ الَّذِي جَاءَنِي بِحِرَاءٍ جَالِسٌ عَلَى كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، فَجَئِثْتُ مِنْهُ رُعْبًا، فَرَجَعْتُ، فَقُلْتُ: زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي فَدَثَّرُونِي، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ إِلَى وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ سورة المدثر آية 1 - 5 قَبْلَ أَنْ تُفْرَضَ الصَّلَاةُ وَهِيَ الْأَوْثَانُ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے (دوسری سند) اور مجھ سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے خبر دی، کہا مجھ کو ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم درمیان میں وحی کا سلسلہ رک جانے کا حال بیان فرما رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں رو رہا تھا کہ میں نے آسمان کی طرف سے آواز سنی۔ میں نے اپنا سر اوپر اٹھایا تو وہی فرشتہ نظر آیا جو میرے پاس غار حرا میں آیا تھا۔ وہ آسمان و زمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ میں اس کے ڈر سے گھبرا گیا پھر میں گھر واپس آیا اور خدیجہ سے کہا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو، مجھے کپڑا اوڑھا دو۔ انہوں نے مجھے کپڑا اوڑھا دیا پھر اللہ تعالیٰ نے آیت «يا أيها المدثر» سے «والرجز فاهجر» تک نازل کی۔ یہ سورت نماز فرض کئے جانے سے پہلے نازل ہوئی تھی «الرجز» سے مراد بت ہے۔
Narrated Jabir bin `Abdullah: I heard the Prophet describing the period of pause of the Divine Inspiration. He said in his talk, "While I was walking, I heard voices from the sky. I looked up, and behold ! I saw the same Angel who came to me in the cave of Hira' sitting on a chair between the sky and the earth. I was too much afraid of him (so I returned to my house) and said, 'Fold me up in garments!' They wrapped me up. Then Allah revealed: 'O you wrapped...and desert the idols before the prayer became compulsory.' Rujz means idols.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 447
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، حدثنا الليث، عن عقيل، قال ابن شهاب: سمعت ابا سلمة، قال: اخبرني جابر بن عبد الله، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يحدث عن فترة الوحي:" فبينا انا امشي سمعت صوتا من السماء، فرفعت بصري قبل السماء، فإذا الملك الذي جاءني بحراء قاعد على كرسي بين السماء والارض، فجئثت منه حتى هويت إلى الارض، فجئت اهلي، فقلت: زملوني زملوني، فزملوني، فانزل الله تعالى يايها المدثر قم فانذر إلى قوله فاهجر سورة المدثر آية 1 - 5، قال ابو سلمة: والرجز: الاوثان، ثم حمي الوحي وتتابع.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَدِّثُ عَنْ فَتْرَةِ الْوَحْيِ:" فَبَيْنَا أَنَا أَمْشِي سَمِعْتُ صَوْتًا مِنَ السَّمَاءِ، فَرَفَعْتُ بَصَرِي قِبَلَ السَّمَاءِ، فَإِذَا الْمَلَكُ الَّذِي جَاءَنِي بِحِرَاءٍ قَاعِدٌ عَلَى كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، فَجَئِثْتُ مِنْهُ حَتَّى هَوَيْتُ إِلَى الْأَرْضِ، فَجِئْتُ أَهْلِي، فَقُلْتُ: زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي، فَزَمَّلُونِي، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ إِلَى قَوْلِهِ فَاهْجُرْ سورة المدثر آية 1 - 5، قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: وَالرِّجْزَ: الْأَوْثَانَ، ثُمَّ حَمِيَ الْوَحْيُ وَتَتَابَعَ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ میں نے ابوسلمہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم درمیان میں وحی کے سلسلے کے رک جانے سے متعلق بیان فرما رہے تھے کہ میں چل رہا تھا کہ میں نے آسمان کی طرف سے آواز سنی۔ اپنی نظر آسمان کی طرف اٹھا کر دیکھا تو وہی فرشتہ نظر آیا جو میرے پاس غار حرا میں آیا تھا۔ وہ کرسی پر آسمان اور زمین کے درمیان میں بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے اسے دیکھ کر اتنا ڈرا کہ زمین پر گر پڑا۔ پھر میں اپنی بیوی کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو، مجھے کپڑا اوڑھا دو! مجھے کپڑا اوڑھا دو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «يا أيها المدثر» سے «والرجز فاهجر» تک ابوسلمہ نے بیان کیا کہ «الرجز» بت کے معنی میں ہے۔ پھر وحی گرم ہو گئی اور سلسلہ نہیں ٹوٹا۔
Narrated Jabir bin `Abdullah: That he heard Allah's Messenger describing the period of pause of the Divine Inspiration, and in his description he said, "While I was walking I heard a voice from the sky. I looked up towards the sky, and behold! I saw the same Angel who came to me in the Cave of Hira', sitting on a chair between the sky and the earth. I was so terrified by him that I fell down on the ground. Then I went to my wife and said, 'Wrap me in garments! Wrap me in garments!' They wrapped me, and then Allah revealed: "O you, (Muhammad) wrapped-up! Arise and warn...and desert the idols." (74.1-5) Abu Salama said....Rujz means idols." After that, the Divine Inspiration started coming more frequently and regularly.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 448
وقال ابن عباس: سدي: هملا، ليفجر امامه: سوف اتوب سوف اعمل، لا وزر: لا حصن سدى هملا.وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: سُدًي: هَمَلًا، لِيَفْجُرَ أَمَامَهُ: سَوْفَ أَتُوبُ سَوْفَ أَعْمَلُ، لَا وَزَرَ: لَا حِصْنَ سُدًى هَمَلًا.
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ «سدى» یعنی بےقید، آزاد جو چاہے وہ کرے۔ «ليفجر أمامه» یعنی انسان ہمیشہ گناہ کرتا رہتا اور یہی کہتا رہتا ہے کہ جلدی توبہ کر لوں گا، جلدی اچھے عمل کروں گا۔ «لا وزر» ای «لا حصن» یعنی پناہ کے لیے کوئی قلعہ نہیں ملے گا۔
(مرفوع) حدثنا الحميدي، حدثنا سفيان، حدثنا موسى بن ابي عائشة، وكان ثقة، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال:" كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا نزل عليه الوحي حرك به لسانه"، ووصف سفيان يريد ان يحفظه، فانزل الله لا تحرك به لسانك لتعجل به سورة القيامة آية 16.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ أَبِي عَائِشَةَ، وَكَانَ ثِقَةً، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا نَزَلَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ حَرَّكَ بِهِ لِسَانَهُ"، وَوَصَفَ سُفْيَانُ يُرِيدُ أَنْ يَحْفَظَهُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ سورة القيامة آية 16.
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے موسیٰ بن ابی عائشہ نے بیان کیا اور موسیٰ ثقہ تھے، انہوں نے سعید بن جبیر سے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر اپنی زبان ہلایا کرتے تھے۔ سفیان نے کہا کہ اس ہلانے سے آپ کا مقصد وحی کو یاد کرنا ہوتا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «لا تحرك به لسانك لتعجل به»”آپ جلدی جلدی لینے کے لیے اس پر زبان نہ ہلایا کریں، اس کا جمع کر دینا اور اس کا پڑھوا دینا، یہ ہر دو کام تو ہمارے ذمہ ہیں۔“
Narrated Ibn `Abbas: The Prophet used to move his tongue when the divine Inspiration was being revealed to him. (Sufyan, a subnarrator, demonstrated (how the Prophet used to move his lips) and added. "In order to memorize it." So Allah revealed: "Move not your tongue concerning (the Qur'an) to make haste therewith." (75.16)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 449
(موقوف) حدثنا عبيد الله بن موسى، عن إسرائيل، عن موسى بن ابي عائشة، انه سال سعيد بن جبير، عن قوله تعالى:" لا تحرك به لسانك سورة القيامة آية 16، قال: وقال ابن عباس: كان يحرك شفتيه إذا انزل عليه، فقيل له: لا تحرك به لسانك سورة القيامة آية 16 يخشى ان ينفلت منه إن علينا جمعه وقرءانه سورة القيامة آية 17 ان نجمعه في صدرك وقرآنه ان تقراه فإذا قراناه سورة القيامة آية 18، يقول: انزل عليه فاتبع قرءانه سورة القيامة آية 18 ثم إن علينا بيانه سورة القيامة آية 19 ان نبينه على لسانك".(موقوف) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، أَنَّهُ سَأَلَ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، عَنْ قَوْلِهِ تَعَالَى:" لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ سورة القيامة آية 16، قَالَ: وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: كَانَ يُحَرِّكُ شَفَتَيْهِ إِذَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ، فَقِيلَ لَهُ: لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ سورة القيامة آية 16 يَخْشَى أَنْ يَنْفَلِتَ مِنْهُ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْءَانَهُ سورة القيامة آية 17 أَنْ نَجْمَعَهُ فِي صَدْرِكَ وَقُرْآنَهُ أَنْ تَقْرَأَهُ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ سورة القيامة آية 18، يَقُولُ: أُنْزِلَ عَلَيْهِ فَاتَّبِعْ قُرْءَانَهُ سورة القيامة آية 18 ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ سورة القيامة آية 19 أَنْ نُبَيِّنَهُ عَلَى لِسَانِكَ".
ہم سے عبداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل نے، ان سے موسیٰ بن ابی عائشہ نے کہ انہوں نے سعید بن جبیر سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «لا تحرك به لسانك» الایۃ یعنی ”آپ قرآن کو لینے کے لیے زبان نہ ہلایا کریں“ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہونٹ ہلایا کرتے تھے اس لیے آپ سے کہا گیا «لا تحرك به لسانك» الخ یعنی وحی پر اپنی زبان نہ ہلایا کریں، اس کا تمہارے دل میں جما دینا اور اس کا پڑھا دینا ہمارا کام ہے۔ جب ہم اس کو پڑھ چکیں یعنی جبرائیل تجھ کو سنا چکیں تو جیسا جبرائیل نے پڑھ کر سنایا تو بھی اس طرح پڑھ۔ پھر یہ بھی ہمارا ہی کام ہے کہ ہم تیری زبان سے اس کو پڑھوا دیں گے۔
Narrated Musa bin Abi Aisha: That he asked Sa`id bin Jubair regarding (the statement of Allah). 'Move not your tongue concerning (the Qur'an) to make haste therewith.' He said, "Ibn `Abbas said that the Prophet used to move his lips when the Divine Inspiration was being revealed to him. So the Prophet was ordered not to move his tongue, which he used to do, lest some words should escape his memory. 'It is for Us to collect it' means, We will collect it in your chest;' and its recitation' means, We will make you recite it. 'But when We recite it (i.e. when it is revealed to you), follow its recital; it is for Us to explain it and make it clear,' (i.e. We will explain it through your tongue).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 450
قال ابن عباس: قراناه: بيناه، فاتبع: اعمل به.قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: قَرَأْنَاهُ: بَيَّنَّاهُ، فَاتَّبِعْ: اعْمَلْ بِهِ.
یعنی ”پھر جب ہم اسے پڑھنے لگیں تو آپ اس کے تابع ہو جایا کریں۔“ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «قرأناه» کے معنی یہ ہیں ”ہم نے اسے بیان کیا“ اور «فاتبع» کا معنی یہ کہ ”تم اس پر عمل کرو۔“
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا جرير، عن موسى بن ابي عائشة، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، في قوله: لا تحرك به لسانك لتعجل به سورة القيامة آية 16، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا نزل جبريل بالوحي وكان مما يحرك به لسانه وشفتيه، فيشتد عليه وكان يعرف منه، فانزل الله الآية التي في لا اقسم بيوم القيامة سورة القيامة آية 1 لا تحرك به لسانك لتعجل به سورة القيامة آية 16 إن علينا جمعه وقرءانه سورة القيامة آية 17، قال: علينا ان نجمعه في صدرك وقرآنه فإذا قراناه فاتبع قرءانه سورة القيامة آية 18، فإذا انزلناه فاستمع ثم إن علينا بيانه سورة القيامة آية 19 علينا ان نبينه بلسانك، قال: فكان إذا اتاه جبريل اطرق فإذا ذهب قراه كما وعده الله عز وجل اولى لك فاولى توعد".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي قَوْلِهِ: لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ سورة القيامة آية 16، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا نَزَلَ جِبْرِيلُ بِالْوَحْيِ وَكَانَ مِمَّا يُحَرِّكُ بِهِ لِسَانَهُ وَشَفَتَيْهِ، فَيَشْتَدُّ عَلَيْهِ وَكَانَ يُعْرَفُ مِنْهُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ الْآيَةَ الَّتِي فِي لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ سورة القيامة آية 1 لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ سورة القيامة آية 16 إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْءَانَهُ سورة القيامة آية 17، قَالَ: عَلَيْنَا أَنْ نَجْمَعَهُ فِي صَدْرِكَ وَقُرْآنَهُ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْءَانَهُ سورة القيامة آية 18، فَإِذَا أَنْزَلْنَاهُ فَاسْتَمِعْ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ سورة القيامة آية 19 عَلَيْنَا أَنْ نُبَيِّنَهُ بِلِسَانِكَ، قَالَ: فَكَانَ إِذَا أَتَاهُ جِبْرِيلُ أَطْرَقَ فَإِذَا ذَهَبَ قَرَأَهُ كَمَا وَعَدَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَوْلَى لَكَ فَأَوْلَى تَوَعُّدٌ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن ابی عائشہ نے، ان سے سعید بن جبیر نے، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «لا تحرك به لسانك لتعجل به» الایۃ یعنی ”آپ اس کو جلدی جلدی لینے کے لیے اس پر زبان نہ ہلایا کریں“ کے متعلق بتلایا کہ جب جبرائیل آپ پر وحی نازل کرتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زبان اور ہونٹ ہلایا کرتے تھے اور آپ پر یہ بہت سخت گزرتا، یہ آپ کے چہرے سے بھی ظاہر ہوتا تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے وہ آیت نازل کی جو سورۃ «لا أقسم بيوم القيامة» میں ہے یعنی «لا تحرك به لسانك» الایۃ یعنی ”آپ اس کو جلدی جلدی لینے کے لیے اس پر زبان نہ ہلایا کریں۔ یہ تو ہمارے ذمہ ہے اس کا جمع کر دینا اور اس کا پڑھوانا، پھر جب ہم اسے پڑھنے لگیں تو آپ اس کے پیچھے یاد کرتے جایا کریں۔ یعنی جب ہم وحی نازل کریں تو آپ غور سے سنیں۔ پھر اس کا بیان کرا دینا بھی ہمارے ذمہ ہے۔“ یعنی یہ بھی ہمارے ذمہ ہے کہ ہم اسے آپ کی زبانی لوگوں کے سامنے بیان کرا دیں۔ بیان کیا کہ چنانچہ اس کے بعد جب جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر آتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو جاتے اور جب چلے جاتے تو پڑھتے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ کیا تھا۔ آیت «أولى لك فأولى» میں «تهديد» یعنی ڈرانا دھمکانا مراد ہے۔
Narrated Ibn `Abbas: (as regards) Allah's Statement: "Move not your tongue concerning (the Qur'an) to make haste therewith." (75.16) When Gabriel revealed the Divine Inspiration in Allah's Messenger , he (Allah's Messenger ) moved his tongue and lips, and that state used to be very hard for him, and that movement indicated that revelation was taking place. So Allah revealed in Surat Al-Qiyama which begins: 'I do swear by the Day of Resurrection...' (75) the Verses:-- 'Move not your tongue concerning (the Qur'an) to make haste therewith. It is for Us to collect it (Qur'an) in your mind, and give you the ability to recite it by heart. (75.16-17) Ibn `Abbas added: It is for Us to collect it (Qur'an) (in your mind), and give you the ability to recite it by heart means, "When We reveal it, listen. Then it is for Us to explain it," means, 'It is for us to explain it through your tongue.' So whenever Gabriel came to Allah's Messenger ' he would keep quiet (and listen), and when the Angel left, the Prophet would recite that revelation as Allah promised him.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 451
يقال: معناه اتى على الإنسان وهل تكون جحدا وتكون خبرا، وهذا من الخبر، يقول: كان شيئا فلم يكن مذكورا، وذلك من حين خلقه من طين إلى ان ينفخ فيه الروح، امشاج: الاخلاط ماء المراة وماء الرجل الدم والعلقة، ويقال: إذا خلط مشيج كقولك خليط وممشوج مثل مخلوط، ويقال: سلاسلا واغلالا: ولم يجر بعضهم، مستطيرا: ممتدا البلاء والقمطرير الشديد يقال يوم قمطرير ويوم قماطر والعبوس والقمطرير والقماطر والعصيب اشد ما يكون من الايام في البلاء، وقال الحسن: النضرة في الوجه والسرور في القلب، وقال ابن عباس: الارائك السرر، وقال البراء: وذللت قطوفها يقطفون كيف شاءوا، وقال معمر: اسرهم: شدة الخلق وكل شيء شددته من قتب وغبيط فهو ماسور.يُقَالُ: مَعْنَاهُ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ وَهَلْ تَكُونُ جَحْدًا وَتَكُونُ خَبَرًا، وَهَذَا مِنَ الْخَبَرِ، يَقُولُ: كَانَ شَيْئًا فَلَمْ يَكُنْ مَذْكُورًا، وَذَلِكَ مِنْ حِينِ خَلَقَهُ مِنْ طِينٍ إِلَى أَنْ يُنْفَخَ فِيهِ الرُّوحُ، أَمْشَاجٍ: الْأَخْلَاطُ مَاءُ الْمَرْأَةِ وَمَاءُ الرَّجُلِ الدَّمُ وَالْعَلَقَةُ، وَيُقَالُ: إِذَا خُلِطَ مَشِيجٌ كَقَوْلِكَ خَلِيطٌ وَمَمْشُوجٌ مِثْلُ مَخْلُوطٍ، وَيُقَالُ: سَلَاسِلًا وَأَغْلَالًا: وَلَمْ يُجْرِ بَعْضُهُمْ، مُسْتَطِيرًا: مُمْتَدًّا الْبَلَاءُ وَالْقَمْطَرِيرُ الشَّدِيدُ يُقَالُ يَوْمٌ قَمْطَرِيرٌ وَيَوْمٌ قُمَاطِرٌ وَالْعَبُوسُ وَالْقَمْطَرِيرُ وَالْقُمَاطِرُ وَالْعَصِيبُ أَشَدُّ مَا يَكُونُ مِنَ الْأَيَّامِ فِي الْبَلَاءِ، وَقَالَ الْحَسَنُ: النُّضْرَةُ فِي الْوَجْهِ وَالسُّرُورُ فِي الْقَلْبِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: الْأَرَائِكِ السُّرُرُ، وَقَالَ الْبَرَاءُ: وَذُلِّلَتْ قُطُوفُهَا يَقْطِفُونَ كَيْفَ شَاءُوا، وَقَالَ مَعْمَرٌ: أَسْرَهُمْ: شِدَّةُ الْخَلْقِ وَكُلُّ شَيْءٍ شَدَدْتَهُ مِنْ قَتَبٍ وَغَبِيطٍ فَهُوَ مَأْسُورٌ.
لفظ «هل أتى» کا معنی آ چکا۔ «هل» کا لفظ کبھی تو انکار کے لیے آتا ہے، کبھی تحقیق کے لیے ( «قد» کے معنی میں) یہاں «قد» ہی کے معنی میں ہے۔ یعنی ایک زمانہ انسان پر ایسا آ چکا ہے کہ وہ ذکر کرنے کے قابل چیز نہ تھا، یہ وہ زمانہ ہے جب مٹی سے اس کا پتلا بنایا گیا تھا۔ اس وقت تک جب روح اس میں پھونکی گئی۔ «أمشاج» ملی ہوئی چیزیں یعنی مرد اور عورت دونوں کی منی اور خون اور پھٹکی اور جب کوئی چیز دوسری چیز سے ملا دی جائے تو کہتے ہیں «مشيج» جیسے «خليط.» یعنی «ممشوج» اور «مخلوط» بعضوں نے یوں پڑھا ہے «سلاسلا وأغلالا»(بعضوں نے «سلاسلا وأغلالا» بغیر تنوین کے پڑھا ہے) انہوں نے «سلاسلا» کی تنوین جائز نہیں رکھی۔ «مستطير» اس کی برائی پھیلی ہوئی۔ «قمطرير» سخت۔ عرب لوگ کہتے ہیں «يوم قمطرير ويوم قماطر» یعنی سخت مصیبت کا دن۔ «عبوس» اور «قمطرير» اور «قماطر» اور «قصيب» ان چاروں کا معنی وہ دن جس پہ سخت مصیبت آئے اور معمر بن عبیدہ نے کہا «شددنا أسرهم» معنی یہ ہے کہ ہم نے ان کی خلقت خوب مضبوط کی ہے۔ عرب لوگ جس کو تو مضبوط باندھے جیسے پالان، ہودج وغیرہ اس کو «مأسور» کہتے ہیں۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز فجر میں) اکثر پہلی رکعت میں سورۃ الم سجدہ اور دوسری رکعت میں سورۃ «هل أتى على الإنسان» کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔