صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
5. بَابُ قَوْلِهِ: {سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ}:
5. باب: آیت کی تفسیر ”کافروں کی عنقریب ساری جماعت شکست کھائے گی اور یہ سب پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے“۔
(5) Chapter. The Statement of Allah: “Their multitude will be put to flight." (V.54:45)
حدیث نمبر: 4875
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الله بن حوشب، حدثنا عبد الوهاب، حدثنا خالد، عن عكرمة، عن ابن عباس. ح وحدثني محمد، حدثنا عفان بن مسلم، عن وهيب، حدثنا خالد، عن عكرمة، عن ابن عباس رضي الله عنهما، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال وهو في قبة يوم بدر:"اللهم إني انشدك عهدك ووعدك، اللهم إن تشا لا تعبد بعد اليوم"، فاخذ ابو بكر بيده، فقال: حسبك يا رسول الله، الححت على ربك وهو يثب في الدرع، فخرج وهو يقول:" سيهزم الجمع ويولون الدبر سورة القمر آية 45".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَوْشَبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ. ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ وُهَيْبٍ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَهُوَ فِي قُبَّةٍ يَوْمَ بَدْرٍ:"اللَّهُمَّ إِنِّي أَنْشُدُكَ عَهْدَكَ وَوَعْدَكَ، اللَّهُمَّ إِنْ تَشَأْ لَا تُعْبَدْ بَعْدَ الْيَوْمِ"، فَأَخَذَ أَبُو بَكْرٍ بِيَدِهِ، فَقَالَ: حَسْبُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلْحَحْتَ عَلَى رَبِّكَ وَهُوَ يَثِبُ فِي الدِّرْعِ، فَخَرَجَ وَهُوَ يَقُولُ:" سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ سورة القمر آية 45".
ہم سے محمد بن عبداللہ بن حوشب نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد حذاء نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے (دوسری سند) اور مجھ سے محمد بن یحییٰ ذہلی نے بیان کیا، کہا ہم سے عفان بن مسلم نے بیان کیا، ان سے وہیب نے کہا ہم سے خالد حذاء نے ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جبکہ آپ بدر کی لڑائی کے دن ایک خیمے میں تھے اور یہ دعا کر رہے تھے کہ اے اللہ! میں تجھے تیرا عہد اور وعدہ نصرت یاد دلاتا ہوں۔ اے اللہ! تیری مرضی ہے اگر تو چاہے (ان تھوڑے سے مسلمانوں کو بھی ہلاک کر دے) پھر آج کے بعد تیری عبادت باقی نہیں رہے گی۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ لیا اور عرض کیا: بس یا رسول اللہ! آپ نے اپنے رب سے بہت ہی الحاح و زاری سے دعا کر لی ہے۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زرہ پہنے ہوئے چل پھر رہے تھے اور آپ خیمہ سے نکلے تو زبان مبارک پر یہ آیت تھی «سيهزم الجمع ويولون الدبر‏» سو عنقریب (کافروں کی) جماعت شکست کھائے گی اور یہ سب پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Abbas: Allah's Messenger while in a tent on the day of the Battle of Badr, said, "O Allah! I request you (to fulfill) Your promise and contract! O Allah! If You wish that you will not be worshipped henceforth.." On that Abu Bakr held the Prophet by the hand and said, "That is enough, O Allah's Messenger You have appealed to your Lord too pressingly," while the Prophet was putting on his armor. So Allah's Messenger went out, reciting Their multitude will be put to flight, and they will show their backs.' (54.45)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 398


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
6. بَابُ قَوْلِهِ: {بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ}:
6. باب: آیت کی تفسیر ”بلکہ ان کا اصل وعدہ تو قیامت کے دن کا ہے اور قیامت بڑی سخت اور تلخ ترین چیز ہے“۔
(6) Chapter. The Statement of Allah: “Nay, but the Hour is their appointed time (for their full recompense), and the Hour will be more grievous and more bitter.” (V.54:46)
حدیث نمبر: Q4876
Save to word اعراب English
يعني من المرارة.يَعْنِي مِنَ الْمَرَارَةِ.
‏‏‏‏ «أمر‏»، «مرارة» سے ہے۔ جس کے معنی تلخی کے ہیں یعنی قیامت کا دن بہت تلخ ہو گا۔
حدیث نمبر: 4876
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن موسى، حدثنا هشام بن يوسف، ان ابن جريج، اخبرهم، قال: اخبرني يوسف بن ماهك، قال: إني عند عائشة ام المؤمنين، قالت:" لقد انزل على محمد صلى الله عليه وسلم بمكة، وإني لجارية العب بل الساعة موعدهم والساعة ادهى وامر سورة القمر آية 46".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَهُمْ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُوسُفُ بْنُ مَاهَكٍ، قَالَ: إِنِّي عِنْدَ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَتْ:" لَقَدْ أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ، وَإِنِّي لَجَارِيَةٌ أَلْعَبُ بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ سورة القمر آية 46".
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، انہیں ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے یوسف بن ماہک نے خبر دی، انہوں نے بیان کیا کہ میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر تھا۔ آپ نے فرمایا کہ جس وقت آیت «بل الساعة موعدهم والساعة أدهى وأمر‏» لیکن ان کا اصل وعدہ تو قیامت کے دن کا ہے اور قیامت بڑی سخت اور تلخ چیز ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر مکہ میں نازل ہوئی تو میں بچی تھی اور کھیلا کرتی تھی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Yusuf bin Mahik: I was in the house of `Aisha, the mother of the Believers. She said, "This revelation: "Nay, but the Hour is their appointed time (for their full recompense); and the Hour will be more previous and most bitter." (54.46) was revealed to Muhammad at Mecca while I was a playfull little girl."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 399


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 4877
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني إسحاق، حدثنا خالد، عن خالد، عن عكرمة، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال وهو في قبة له يوم بدر:"انشدك عهدك ووعدك، اللهم إن شئت لم تعبد بعد اليوم ابدا"، فاخذ ابو بكر بيده، وقال: حسبك يا رسول الله، فقد الححت على ربك وهو في الدرع، فخرج وهو يقول:" سيهزم الجمع ويولون الدبر {45} بل الساعة موعدهم والساعة ادهى وامر {46} سورة القمر آية 45-46".(مرفوع) حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَهُوَ فِي قُبَّةٍ لَهُ يَوْمَ بَدْرٍ:"أَنْشُدُكَ عَهْدَكَ وَوَعْدَكَ، اللَّهُمَّ إِنْ شِئْتَ لَمْ تُعْبَدْ بَعْدَ الْيَوْمِ أَبَدًا"، فَأَخَذَ أَبُو بَكْرٍ بِيَدِهِ، وَقَالَ: حَسْبُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَدْ أَلْحَحْتَ عَلَى رَبِّكَ وَهُوَ فِي الدِّرْعِ، فَخَرَجَ وَهُوَ يَقُولُ:" سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ {45} بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ {46} سورة القمر آية 45-46".
مجھ سے اسحاق بن شاہین واسطی نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن عبداللہ طحان نے، کہا ان سے خالد بن مہران حذاء نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جبکہ آپ بدر کی لڑائی کے موقع پر میدان میں ایک خیمے میں یہ دعا کر رہے تھے کہ اے اللہ! میں تجھے تیرا عہد اور وعدہ نصرت یاد دلاتا ہوں۔ اے اللہ! اگر تو چاہے کہ (مسلمانوں کو فنا کر دے) تو آج کے بعد پھر کبھی تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔ اور اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر عرض کیا: بس یا رسول اللہ! آپ اپنے رب سے خوب الحاح و زاری کے ساتھ دعا کر چکے ہیں۔ نبی کریم اس وقت زرہ پہنے ہوئے تھے۔ آپ باہر تشریف لائے تو آپ کی زبان مبارک پر یہ آیت تھی «سيهزم الجمع ويولون الدبر * بل الساعة موعدهم والساعة أدهى وأمر‏» یعنی عنقریب کافروں کی یہ جماعت ہار جائے گی اور یہ سب پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔ لیکن ان کا اصل وعدہ تو قیامت کے دن کا ہے اور قیامت بڑی سخت اور بہت ہی کڑوی چیز ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn `Abbas: While in his tent on the day the Battle of Badr, the Prophet said, "O Allah! I request You (to fulfill) Your promise and contract. O Allah! It You wish that the Believers be destroyed). You will never be worshipped henceforth." On that, Abu Bakr held the Prophet by the hand and said, "That is enough, O Allah's Messenger ! You have appealed to your Lord too pressingly" The Prophet was wearing his armor and then went out reciting: 'Their multitude will be put to flight and they will show their backs. Nay, but the Hour is their appointed time (for their full recompense), and the Hour will be more previous and most bitter.' (54.45-46)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 400


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
55. سورة {الرَّحْمَنِ}:
55. باب: سورۃ الرحمن کی تفسیر۔
(55) SURAT AR-RAHMAN (The Most Gracious)
حدیث نمبر: Q4878
Save to word اعراب English
وقال مجاهد: بحسبان كحسبان الرحى، وقال غيره: واقيموا الوزن: يريد لسان الميزان والعصف بقل الزرع إذا قطع منه شيء قبل ان يدرك، فذلك العصف، والريحان: رزقه، والحب: الذي يؤكل منه والريحان في كلام العرب الرزق، وقال بعضهم: والعصف يريد الماكول من الحب والريحان النضيج الذي لم يؤكل، وقال غيره: العصف ورق الحنطة، وقال الضحاك: العصف التبن، وقال ابو مالك: العصف اول ما ينبت تسميه النبط هبورا، وقال مجاهد: العصف ورق الحنطة، والريحان الرزق، والمارج اللهب الاصفر والاخضر الذي يعلو النار إذا اوقدت، وقال بعضهم: عن مجاهد، رب المشرقين: للشمس في الشتاء مشرق ومشرق في الصيف، ورب المغربين: مغربها في الشتاء والصيف، لا يبغيان: لا يختلطان، المنشآت: ما رفع قلعه من السفن فاما ما لم يرفع قلعه فليس بمنشاة، وقال مجاهد: كالفخار: كما يصنع الفخار الشواظ لهب من نار، ونحاس: النحاس الصفر يصب على رءوسهم فيعذبون به، خاف مقام ربه: يهم بالمعصية فيذكر الله عز وجل فيتركها، مدهامتان: سوداوان من الري، صلصال: طين خلط برمل فصلصل كما يصلصل الفخار، ويقال: منتن يريدون به صل، يقال: صلصال كما، يقال: صر الباب عند الإغلاق وصرصر مثل كبكبته يعني كببته، فاكهة ونخل ورمان، وقال بعضهم: ليس الرمان والنخل بالفاكهة، واما العرب فإنها تعدها فاكهة كقوله عز وجل: حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى، فامرهم بالمحافظة على كل الصلوات، ثم اعاد العصر تشديدا لها كما اعيد النخل والرمان ومثلها، الم تر ان الله يسجد له من في السموات ومن في الارض، ثم قال: وكثير من الناس وكثير حق عليه العذاب، وقد ذكرهم الله عز وجل في اول قوله: من في السموات ومن في الارض، وقال غيره: افنان: اغصان، وجنى الجنتين دان: ما يجتنى قريب، وقال الحسن: فباي آلاء: نعمه، وقال قتادة: ربكما تكذبان يعني الجن والإنس، وقال ابو الدرداء: كل يوم هو في شان: يغفر ذنبا ويكشف كربا ويرفع قوما ويضع آخرين، وقال ابن عباس: برزخ: حاجز الانام الخلق، نضاختان: فياضتان، ذو الجلال: ذو العظمة، وقال غيره: مارج خالص من النار، يقال: مرج الامير رعيته إذا خلاهم يعدو بعضهم على بعض، ويقال: مرج امر الناس، مريج: ملتبس، مرج البحرين: اختلط البحران من مرجت دابتك تركتها، سنفرغ لكم: سنحاسبكم لا يشغله شيء عن شيء وهو معروف في كلام العرب، يقال: لاتفرغن لك وما به شغل، يقول: لآخذنك على غرتك.وَقَالَ مُجَاهِدٌ: بِحُسْبَانٍ كَحُسْبَانِ الرَّحَى، وَقَالَ غَيْرُهُ: وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ: يُرِيدُ لِسَانَ الْمِيزَانِ وَالْعَصْفُ بَقْلُ الزَّرْعِ إِذَا قُطِعَ مِنْهُ شَيْءٌ قَبْلَ أَنْ يُدْرِكَ، فَذَلِكَ الْعَصْفُ، وَالرَّيْحَانُ: رِزْقُهُ، وَالْحَبُّ: الَّذِي يُؤْكَلُ مِنْهُ وَالرَّيْحَانُ فِي كَلَامِ الْعَرَبِ الرِّزْقُ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: وَالْعَصْفُ يُرِيدُ الْمَأْكُولَ مِنَ الْحَبِّ وَالرَّيْحَانُ النَّضِيجُ الَّذِي لَمْ يُؤْكَلْ، وَقَالَ غَيْرُهُ: الْعَصْفُ وَرَقُ الْحِنْطَةِ، وَقَالَ الضَّحَّاكُ: الْعَصْفُ التِّبْنُ، وَقَالَ أَبُو مَالِكٍ: الْعَصْفُ أَوَّلُ مَا يَنْبُتُ تُسَمِّيهِ النَّبَطُ هَبُورًا، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: الْعَصْفُ وَرَقُ الْحِنْطَةِ، وَالرَّيْحَانُ الرِّزْقُ، وَالْمَارِجُ اللَّهَبُ الْأَصْفَرُ وَالْأَخْضَرُ الَّذِي يَعْلُو النَّارَ إِذَا أُوقِدَتْ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: عَنْ مُجَاهِدٍ، رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ: لِلشَّمْسِ فِي الشِّتَاءِ مَشْرِقٌ وَمَشْرِقٌ فِي الصَّيْفِ، وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ: مَغْرِبُهَا فِي الشِّتَاءِ وَالصَّيْفِ، لَا يَبْغِيَانِ: لَا يَخْتَلِطَانِ، الْمُنْشَآتُ: مَا رُفِعَ قِلْعُهُ مِنَ السُّفُنِ فَأَمَّا مَا لَمْ يُرْفَعْ قَلْعُهُ فَلَيْسَ بِمُنْشَأَةٍ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: كَالْفَخَّارِ: كَمَا يُصْنَعُ الْفَخَّارُ الشُّوَاظُ لَهَبٌ مِنْ نَارٍ، وَنُحَاسٌ: النُّحَاسُ الصُّفْرُ يُصَبُّ عَلَى رُءُوسِهِمْ فَيُعَذَّبُونَ بِهِ، خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ: يَهُمُّ بِالْمَعْصِيَةِ فَيَذْكُرُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ فَيَتْرُكُهَا، مُدْهَامَّتَانِ: سَوْدَاوَانِ مِنَ الرِّيِّ، صَلْصَالٍ: طِينٌ خُلِطَ بِرَمْلٍ فَصَلْصَلَ كَمَا يُصَلْصِلُ الْفَخَّارُ، وَيُقَالُ: مُنْتِنٌ يُرِيدُونَ بِهِ صَلَّ، يُقَالُ: صَلْصَالٌ كَمَا، يُقَالُ: صَرَّ الْبَابُ عِنْدَ الْإِغْلَاقِ وَصَرْصَرَ مِثْلُ كَبْكَبْتُهُ يَعْنِي كَبَبْتُهُ، فَاكِهَةٌ وَنَخْلٌ وَرُمَّانٌ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَيْسَ الرُّمَّانُ وَالنَّخْلُ بِالْفَاكِهَةِ، وَأَمَّا الْعَرَبُ فَإِنَّهَا تَعُدُّهَا فَاكِهَةً كَقَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى، فَأَمَرَهُمْ بِالْمُحَافَظَةِ عَلَى كُلِّ الصَّلَوَاتِ، ثُمَّ أَعَادَ الْعَصْرَ تَشْدِيدًا لَهَا كَمَا أُعِيدَ النَّخْلُ وَالرُّمَّانُ وَمِثْلُهَا، أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَسْجُدُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ، ثُمَّ قَالَ: وَكَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ وَكَثِيرٌ حَقَّ عَلَيْهِ الْعَذَابُ، وَقَدْ ذَكَرَهُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي أَوَّلِ قَوْلِهِ: مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ، وَقَالَ غَيْرُهُ: أَفْنَانٍ: أَغْصَانٍ، وَجَنَى الْجَنَّتَيْنِ دَانٍ: مَا يُجْتَنَى قَرِيبٌ، وَقَالَ الْحَسَنُ: فَبِأَيِّ آلَاءِ: نِعَمِهِ، وَقَالَ قَتَادَةُ: رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ يَعْنِي الْجِنَّ وَالْإِنْسَ، وَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ: يَغْفِرُ ذَنْبًا وَيَكْشِفُ كَرْبًا وَيَرْفَعُ قَوْمًا وَيَضَعُ آخَرِينَ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: بَرْزَخٌ: حَاجِزٌ الْأَنَامُ الْخَلْقُ، نَضَّاخَتَانِ: فَيَّاضَتَانِ، ذُو الْجَلَالِ: ذُو الْعَظَمَةِ، وَقَالَ غَيْرُهُ: مَارِجٌ خَالِصٌ مِنَ النَّارِ، يُقَالُ: مَرَجَ الْأَمِيرُ رَعِيَّتَهُ إِذَا خَلَّاهُمْ يَعْدُو بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ، وَيُقَالُ: مَرَجَ أَمْرُ النَّاسِ، مَرِيجٍ: مُلْتَبِسٌ، مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ: اخْتَلَطَ الْبَحْرَانِ مِنْ مَرَجْتَ دَابَّتَكَ تَرَكْتَهَا، سَنَفْرُغُ لَكُمْ: سَنُحَاسِبُكُمْ لَا يَشْغَلُهُ شَيْءٌ عَنْ شَيْءٍ وَهُوَ مَعْرُوفٌ فِي كَلَامِ الْعَرَبِ، يُقَالُ: لَأَتَفَرَّغَنَّ لَكَ وَمَا بِهِ شُغْلٌ، يَقُولُ: لَآخُذَنَّكَ عَلَى غِرَّتِكَ.
‏‏‏‏ مجاہد نے کہا «بحسبان» یعنی چکی کی طرح گھوم رہے ہیں۔ اوروں نے کہا «وأقيموا الوزن‏» کا معنی یہ ہے کہ ترازو کی زبان سیدھی رکھو (یعنی برابر تولو)۔ «عصف‏.‏» کہتے ہیں کھیتی کی اس پیداوار (سبزے) کو جس کو پکنے سے پہلے کاٹ لیں یہ تو «عصف‏.‏» کے معنی ہوئے اور یہاں «ريحان‏» سے کھیتی کے پتے اور دانے جن کو کھاتے ہیں مراد ہیں۔ اور «ريحان‏» عربوں کی زبان میں روزی کو کہتے ہیں بعضوں نے کہا خوشبودار سبزے کو بعضوں نے کہا «عصف‏.‏» وہ دانہ جن کو کھاتے ہیں اور «ريحان‏» وہ پکا غلہ جس کو کچا نہیں کھاتے۔ اوروں نے کہا «عصف‏.‏» گیہوں کے پتے ہیں۔ ضحاک نے کہا «عصف‏.‏» بھوسا جو جانور کھاتے ہیں۔ ابو مالک غفاری (تابعی) نے کہا «عصف‏.‏» کھیتی کا وہ سبزہ جو پہلے پہل اگتا ہے کسان لوگ اس کو «هبور» کہتے ہیں۔ مجاہد نے کہا «عصف‏.‏» گیہوں کا پتا اور «ريحان‏» روزی کا۔ «المارج» آگ کی لپٹ (کو) زرد یا سبز جو آگ روشن کرنے پر اوپر چڑھتی ہے بعضوں نے مجاہد سے روایت کیا ہے کہ «رب المشرقين‏ ورب المغربين‏» میں «مشرقين‏» سے جاڑے اور گرمی کی مشرق اور «مغربين‏» سے جاڑے گرمی کی مغرب مراد ہے۔ «لا يبغيان‏» مل نہیں جاتے۔ «المنشآت‏» وہ کشتیاں جن کا بادبان اوپر اٹھایا گیا ہو (وہی دور سے پہاڑ کی طرح معلوم ہوتی ہیں) اور جن کشتیوں کا بادبان نہ چڑھایا جائے ان کو «المنشآت‏» نہیں کہیں گے۔ مجاہد نے کہا «كالفخار» یعنی جیسا ٹھیکرا بنایا جاتا ہے۔ «الشواز» آگ کا شعلہ جس میں دھواں ہو۔ «فنحاس‏» پیتل جو گلا کر دوزخیوں کے سر پر ڈالا جائے گا ان کو اسی سے عذاب دیا جائے گا۔ «خاف مقام ربه‏» کا یہ مطلب ہے کہ کوئی آدمی گناہ کرنے کا قصد کرے پھر اپنے پروردگار کو یاد کر کے اس سے باز آ جائے۔ «مدهامتان‏» بہت شادابی کی وجہ سے کالے یا سبز ہو رہے ہوں گے۔ «صلصال‏» وہ گارا کیچڑ جس میں ریت ملائی جائے وہ ٹھیکری کی طرح کھنکھنانے لگے۔ بعضوں نے کہا کہ «صلصال‏» بدبودار کیچڑ، جیسے کہتے ہیں «صل اللحم» یعنی گوشت بدبودار ہو گیا، سڑ گیا جیسے «صر الباب» دروازے بند کرتے وقت آواز دی اور «صرصر الباب» اور «كببته‏» کو «كبكبته» کہتے ہیں۔ «فاكهة ونخل ورمان‏» یعنی وہاں میوہ ہو گا اور کھجور اور انار اس آیت سے بعضوں نے (امام حنیفہ نے) یہ نکالا ہے کہ کھجور اور انار میوہ نہیں ہیں۔ عرب لوگ تو ان دونوں کو میوؤں میں شمار کرتے ہیں اب رہا «نخل» اور «ورمان‏» کا «عطف فاكهة» پر تو ایسا ہے جیسے دوسری آیت میں فرمایا «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى‏» تو پہلے سب نمازوں کی محافظت کا حکم دیا «صلاة الوسطى‏» بھی ان میں آ گئی پھر «صلاة الوسطى‏» کو عطف کر کے دوبارہ بیان کر دینا اس سے غرض یہ ہے کہ اس کا اور زیادہ خیال رکھ، ایسے ہی یہاں بھی «نخل ورمان‏»، «فاكهة» میں آ گئے تھے مگر ان کی عمدگی کی وجہ سے دوبارہ ان کا ذکر کیا جیسے اس آیت میں فرمایا «ألم تر أن الله يسجد له من في السموات ومن في الأرض‏» پھر اس کے بعد فرمایا «وكثير من الناس وكثير حق عليه العذاب‏» حالانکہ یہ دونوں «من في السموات ومن في الأرض‏» میں آ گئے اوروں نے (مجاہد یا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے سوا) کہا «أفنان‏» کا معنی شاخیں ڈالیاں ہیں۔ «وجنى الجنتين دان» یعنی دونوں باغوں کا میوہ قریب ہو گا اور حسن بصری نے کہا «فبأى آلاء‏» یعنی اس کی کون کون سی نعمتوں کو اور قتادہ نے کہا «ربكما‏» میں جِن اور انسان کی طرف خطاب ہے اور ابودرداء نے کہا «كل يوم هو في شأن‏» کا یہ مطلب ہے کسی کا گناہ بخشتا ہے، کسی کی تکلیف دور کرتا ہے، کسی قوم کو بڑھاتا ہے کسی قوم کو گھٹاتا ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «برزخ‏» سے آڑ مراد ہے۔ «لأنام الخلق نضاختان‏» خیر اور برکت سے یہاں رہتے ہیں۔ «ذو الجلال‏» بزرگی والا اوروں نے کہا۔ «مارج» ‏‏‏‏ خالص انگارا (جس میں دھواں نہ ہو) عرب لوگ کہتے ہیں «مرج الأمير رعيته» یعنی حاکم نے اپنی رعیت کا خیال چھوڑ دیا یا ایک کو دوسرے ستا رہا ہے۔ لفظ «مريج‏» جو سورۃ ق میں ہے۔ اس کا معنی گڈ مڈ ملا ہوا۔ «مرج‏ البحراين» یعنی دونوں دریا مل گئے ہیں یہ «مرجت دابتك» سے نکلا ہے یعنی تو نے اپنا جانور چھوڑ دیا اس طرح رہ کر ہم عنقریب تمہارا خاتمہ کریں گے یہاں فراغت کا معنی نہیں کیونکہ اللہ پاک کو کوئی چیز دوسری چیز کی طرف خیال کرنے سے باز نہیں رکھ سکتی ہے۔ یہ ایک محاورہ ہے جو سب لوگوں میں مشہور ہے کوئی شخص بیکار ہوتا ہے اس کو فرصت ہوتی ہے لیکن ڈرانے کے لیے دوسرے سے کہتا ہے، اچھا میں تیرے لیے فراغت کروں گا یعنی وہ خوف جب ٹل جائے گا تو تجھ کو سزا دوں گا۔
1. بَابُ قَوْلِهِ: {وَمِنْ دُونِهِمَا جَنَّتَانِ}:
1. باب: آیت کی تفسیر ”اور ان باغوں سے کم درجہ میں دو اور باغ بھی ہیں“۔
(1) Chapter. The Statement of Allah: “And besides these two, there are two other gardens (i.e., in Paradise).” (V.55:62)
حدیث نمبر: 4878
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن ابي الاسود، حدثنا عبد العزيز بن عبد الصمد العمي، حدثنا ابو عمران الجوني، عن ابي بكر بن عبد الله بن قيس،عن ابيه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" جنتان من فضة آنيتهما وما فيهما، وجنتان من ذهب آنيتهما وما فيهما، وما بين القوم وبين ان ينظروا إلى ربهم إلا رداء الكبر على وجهه في جنة عدن".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي الْأَسْوَدِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ الْعَمِّيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ،عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" جَنَّتَانِ مِنْ فِضَّةٍ آنِيَتُهُمَا وَمَا فِيهِمَا، وَجَنَّتَانِ مِنْ ذَهَبٍ آنِيَتُهُمَا وَمَا فِيهِمَا، وَمَا بَيْنَ الْقَوْمِ وَبَيْنَ أَنْ يَنْظُرُوا إِلَى رَبِّهِمْ إِلَّا رِدَاءُ الْكِبْرِ عَلَى وَجْهِهِ فِي جَنَّةِ عَدْنٍ".
ہم سے عبداللہ بن ابی الاسود نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن عبدالصمد العمی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعمران الجونی نے بیان کیا، ان سے ابوبکر بن عبداللہ بن قیس نے اور ان سے ان کے والد (عبداللہ بن قیس ابوموسیٰ اشعری) نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (جنت میں) دو باغ ہوں گے جن کے برتن اور تمام دوسری چیزیں چاندی کی ہوں گی اور دو دوسرے باغ ہوں گے جن کے برتن اور تمام دوسری چیزیں سونے کے ہوں گے اور جنت عدن سے جنتیوں کے اپنے رب کے دیدار میں کوئی چیز سوائے کبریائی کی چادر کے جو اس کے منہ پر ہو گی، حائل نہ ہو گی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Abdullah bin Qais: Allah's Messenger said, "Two gardens, the utensils and the contents of which are of silver, and two other gardens, the utensils and contents of which are of gold. And nothing will prevent the people who will be in the Garden of Eden from seeing their Lord except the curtain of Majesty over His Face."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 401


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
2. بَابُ: {حُورٌ مَقْصُورَاتٌ فِي الْخِيَامِ}:
2. باب: آیت «حور مقصورات في الخيام» کی تفسیر۔
(2) Chapter. “Hur (beautiful fair females) guarded in pavilions." (V.55:72)
حدیث نمبر: Q4879
Save to word اعراب English
وقال ابن عباس: الحور: السود الحدق، وقال مجاهد: مقصورات: محبوسات قصر طرفهن وانفسهن على ازواجهن قاصرات لا يبغين غير ازواجهن.وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: الْحُورُ: السُّودُ الْحَدَقِ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: مَقْصُورَاتٌ: مَحْبُوسَاتٌ قُصِرَ طَرْفُهُنَّ وَأَنْفُسُهُنَّ عَلَى أَزْوَاجِهِنَّ قَاصِرَاتٌ لَا يَبْغِينَ غَيْرَ أَزْوَاجِهِنَّ.
‏‏‏‏ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «حور‏» کے معنی کالی آنکھوں والی اور مجاہد نے کہا «مقصورات‏» کے معنی ان کی نگاہ اور جان اپنے شوہروں پر رکی ہوئی ہو گی (وہ اپنے خاوندوں کے سوا اور کسی پر آنکھ نہیں ڈالیں گی)۔ «قاصرات» ‏‏‏‏ کے معنی اپنے خاوند کے سوا اور کسی کی خواہشمند نہ ہو گی۔ «فى الخيام» کے معنی خیموں میں محفوظ ہوں گی۔
حدیث نمبر: 4879
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى، قال: حدثني عبد العزيز بن عبد الصمد، حدثنا ابو عمران الجوني، عن ابي بكر بن عبد الله بن قيس، عن ابيه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" إن في الجنة خيمة من لؤلؤة مجوفة عرضها ستون ميلا، في كل زاوية منها اهل ما يرون الآخرين يطوف عليهم المؤمنون.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ، حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّ فِي الْجَنَّةِ خَيْمَةً مِنْ لُؤْلُؤَةٍ مُجَوَّفَةٍ عَرْضُهَا سِتُّونَ مِيلًا، فِي كُلِّ زَاوِيَةٍ مِنْهَا أَهْلٌ مَا يَرَوْنَ الْآخَرِينَ يَطُوفُ عَلَيْهِمُ الْمُؤْمِنُونَ.
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبدالعزیز بن عبدالصمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعمران جونی نے بیان کیا، ان سے ابوبکر بن عبداللہ بن قیس نے اور ان سے ان کے والد نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں کھوکھلے موتی کا خیمہ ہو گا، اس کی چوڑائی ساٹھ میل ہو گی اور اس کے ہر کنارے پر مسلمان کی ایک بیوی ہو گی ایک کنارے والی دوسرے کنارے والی کو نہ دیکھ سکے گی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Abdullah bin Qais: Allah's Messenger said, "In Paradise there is a pavilion made of a single hollow pearl sixty miles wide, in each corner of which there are wives who will not see those in the other corners; and the believers will visit and enjoy them. And there are two gardens, the utensils and contents of which are made of silver; and two other gardens, the utensils and contents of which are made of so-and-so (i.e. gold) and nothing will prevent the people staying in the Garden of Eden from seeing their Lord except the curtain of Majesty over His Face."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 402


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 4880
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) وجنتان من فضة آنيتهما وما فيهما، وجنتان من كذا آنيتهما وما فيهما، وما بين القوم وبين ان ينظروا إلى ربهم إلا رداء الكبر على وجهه في جنة عدن".(مرفوع) وَجَنَّتَانِ مِنْ فِضَّةٍ آنِيَتُهُمَا وَمَا فِيهِمَا، وَجَنَّتَانِ مِنْ كَذَا آنِيَتُهُمَا وَمَا فِيهِمَا، وَمَا بَيْنَ الْقَوْمِ وَبَيْنَ أَنْ يَنْظُرُوا إِلَى رَبِّهِمْ إِلَّا رِدَاءُ الْكِبْرِ عَلَى وَجْهِهِ فِي جَنَّةِ عَدْنٍ".
‏‏‏‏ اور مومن ان کے پاس باری باری جائیں گے اور دو باغ ہوں گے جن کے برتن اور تمام دوسری چیزیں چاندی کی ہوں گی اور ایسے بھی دو باغ ہوں گے جب کے برتن اور تمام دوسری چیزیں سونے کی ہوں گی۔ جنت عدن والوں کو اللہ پاک کے دیدار میں صرف ایک جلال کی چادر حائل ہو گی جو اس کے (مبارک) منہ پر پڑی ہو گی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
56. سورة {الْوَاقِعَةِ}:
56. باب: سورۃ الواقعہ کی تفسیر۔
(56) SURAT AL-WAQIAH (The Event)
حدیث نمبر: Q4881
Save to word اعراب English
وقال مجاهد: رجت: زلزلت، بست: فتت لتت كما يلت السويق المخضود الموقر حملا، ويقال ايضا: لا شوك له، منضود: الموز والعرب المحببات إلى ازواجهن، ثلة: امة، يحموم: دخان اسود، يصرون: يديمون الهيم الإبل الظماء، لمغرمون: لملومون مدينين محاسبين، روح: جنة ورخاء، وريحان: الريحان الرزق، وننشئكم: فيما لا تعلمون في اي خلق نشاء، وقال غيره: تفكهون: تعجبون، عربا: مثقلة واحدها عروب مثل صبور وصبر يسميها اهل مكة العربة، واهل المدينة الغنجة، واهل العراق الشكلة، وقال: في خافضة لقوم إلى النار، ورافعة: إلى الجنة، موضونة: منسوجة ومنه وضين الناقة والكوب لا آذان له ولا عروة، والاباريق ذوات الآذان، والعرى، مسكوب: جار، وفرش مرفوعة: بعضها فوق بعض، مترفين: ممتعين، ما تمنون: من النطف يعني هي النطفة في ارحام النساء، للمقوين: للمسافرين والقي القفر، بمواقع النجوم: بمحكم القرآن، ويقال: بمسقط النجوم إذا سقطن ومواقع وموقع واحد، مدهنون: مكذبون مثل، لو تدهن فيدهنون فسلام لك: اي مسلم لك إنك من اصحاب اليمين، والغيت إن وهو معناها كما، تقول: انت مصدق مسافر، عن قليل إذا كان قد، قال: إني مسافر، عن قليل وقد يكون كالدعاء له كقولك فسقيا من الرجال إن رفعت السلام، فهو من الدعاء، تورون: تستخرجون اوريت اوقدت، لغوا: باطلا تاثيما: كذبا.وَقَالَ مُجَاهِدٌ: رُجَّتْ: زُلْزِلَتْ، بُسَّتْ: فُتَّتْ لُتَّتْ كَمَا يُلَتُّ السَّوِيقُ الْمَخْضُودُ الْمُوقَرُ حَمْلًا، وَيُقَالُ أَيْضًا: لَا شَوْكَ لَهُ، مَنْضُودٍ: الْمَوْزُ وَالْعُرُبُ الْمُحَبَّبَاتُ إِلَى أَزْوَاجِهِنَّ، ثُلَّةٌ: أُمَّةٌ، يَحْمُوم: دُخَانٌ أَسْوَدُ، يُصِرُّونَ: يُدِيمُونَ الْهِيمُ الْإِبِلُ الظِّمَاءُ، لَمُغْرَمُونَ: لَمَلُومُونَ مَدِينِينَ مُحَاسَبِينَ، رَوْحٌ: جَنَّةٌ وَرَخَاءٌ، وَرَيْحَانٌ: الرَّيْحَانُ الرِّزْقُ، وَنُنْشِئَكُمْ: فِيمَا لَا تَعْلَمُونَ فِي أَيِّ خَلْقٍ نَشَاءُ، وَقَالَ غَيْرُهُ: تَفَكَّهُونَ: تَعْجَبُونَ، عُرُبًا: مُثَقَّلَةً وَاحِدُهَا عَرُوبٌ مِثْلُ صَبُورٍ وَصُبُرٍ يُسَمِّيهَا أَهْلُ مَكَّةَ الْعَرِبَةَ، وَأَهْلُ الْمَدِينَةِ الْغَنِجَةَ، وَأَهْلُ الْعِرَاقِ الشَّكِلَةَ، وَقَالَ: فِي خَافِضَةٌ لِقَوْمٍ إِلَى النَّارِ، وَرَافِعَةٌ: إِلَى الْجَنَّةِ، مَوْضُونَةٍ: مَنْسُوجَةٍ وَمِنْهُ وَضِينُ النَّاقَةِ وَالْكُوبُ لَا آذَانَ لَهُ وَلَا عُرْوَةَ، وَالْأَبَارِيقُ ذَوَاتُ الْآذَانِ، وَالْعُرَى، مَسْكُوبٍ: جَارٍ، وَفُرُشٍ مَرْفُوعَةٍ: بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ، مُتْرَفِينَ: مُمَتَّعِينَ، مَا تُمْنُونَ: مِنَ النُّطَفِ يَعْنِي هِيَ النُّطْفَةُ فِي أَرْحَامِ النِّسَاءِ، لِلْمُقْوِينَ: لِلْمُسَافِرِينَ وَالْقِيُّ الْقَفْرُ، بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ: بِمُحْكَمِ الْقُرْآنِ، وَيُقَالُ: بِمَسْقِطِ النُّجُومِ إِذَا سَقَطْنَ وَمَوَاقِعُ وَمَوْقِعٌ وَاحِدٌ، مُدْهِنُونَ: مُكَذِّبُونَ مِثْلُ، لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ فَسَلَامٌ لَكَ: أَيْ مُسَلَّمٌ لَكَ إِنَّكَ مِنْ أَصْحَابِ الْيَمِينِ، وَأُلْغِيَتْ إِنَّ وَهُوَ مَعْنَاهَا كَمَا، تَقُولُ: أَنْتَ مُصَدَّقٌ مُسَافِرٌ، عَنْ قَلِيلٍ إِذَا كَانَ قَدْ، قَالَ: إِنِّي مُسَافِرٌ، عَنْ قَلِيلٍ وَقَدْ يَكُونُ كَالدُّعَاءِ لَهُ كَقَوْلِكَ فَسَقْيًا مِنَ الرِّجَالِ إِنْ رَفَعْتَ السَّلَامَ، فَهُوَ مِنَ الدُّعَاءِ، تُورُونَ: تَسْتَخْرِجُونَ أَوْرَيْتُ أَوْقَدْتُ، لَغْوًا: بَاطِلًا تَأْثِيمًا: كَذِبًا.
‏‏‏‏ مجاہد نے کہا «رجت‏» کا معنی ہلائی جائے۔ «بست‏» چور چور کئے جائیں گے اور ستو کی طرح لت پت کر دیئے جائیں گے۔ «المخضود» بوجھ لدے ہوئے یا جن میں کانٹا نہ ہو۔ «منضود‏»، «موز» (کیلا)۔ «عربا» اپنے خاوند کی پیاری بیوی۔ «ثلة‏» امت گروہ۔ «حموم‏» کالا دھواں۔ «يصرون‏» ہٹ دھرمی کرتے، ہمیشہ کرتے تھے۔ «الهيم» پیاسے اونٹ۔ «لمغرمون‏» ٹوٹے میں آ گئے، ڈنڈ ہوا۔ «روح‏» بہشت، آرام، راحت۔ «ريحان‏» رزق، روزی۔ «وننشأكم‏ فيما لا تعلمون» یعنی جس صورت میں ہم چاہیں تم کو پیدا کریں۔ مجاہد کے سوا اوروں نے کہا «تفكهون‏» کا معنی «تعجبون» تعجب کرتے جائیں۔ «عربا‏ مثقلة» ‏‏‏‏ (یعنی ضمہ کے ساتھ) «عروب» کی جمع جیسے «صبور» کی جمع «صبر» آتی ہے ( «عروب» خوبصورت پیاری عورت) مکہ والے ایسی عورت کو «عربة» کہتے ہیں۔ اور مدینہ والے «غنجة» اور عراق والے «الشكلة‏» کہتے ہیں۔ «خافضة‏» ایک قوم کو نیچا دکھانے والی یعنی دوزخ میں لے جانے والی۔ «رافعة‏» ایک قوم کو بلند کرنے والے یعنی بہشت میں لے جانے والی۔ «موضونة‏» سونے سے بنے ہوئے، اسی سے نکلا ہے «وضين الناقة» یعنی اونٹنی کا زیر بند (تنگ)۔ «كوب» آبخورہ جس میں ٹونٹی اور کنڈا نہ ہو۔ ( «اكوب» جمع ہے) «ابريق» وہ کوزہ جس میں ٹونٹی کنڈہ ہو۔ «اباريق» اس کی جمع ہے۔ «مسكوب‏» بہتا ہوا، جاری۔ «وفرش مرفوعة‏» اونچے بچھونے یعنی ایک کے اوپر ایک تلے اوپر بچھائے گئے۔ «مترفين‏» کا معنی آسودہ، آرام پروردہ تھے۔ «ما تمنون‏» نطفہ جو عورتوں کے رحموں میں ڈالتے ہو۔ «للمقوين‏» مسافروں کے فائدے کے لیے یہ «قي» سے نکلا ہے «قي» کہتے ہیں بےآب و گیاہ میدان کو۔ «بمواقع النجوم‏» سے قرآن کی محکم آیتیں مراد ہیں بعضوں نے کہا تارے ڈوبنے کے مقامات۔ «واقع» جمع ہے، اس کا واحد «موقع» دونوں کا (جب «مضاف» ہوں) ایک ہی معنی ہے۔ «مدهنون‏» جھٹلانے والے جیسے اس آیت میں ہے «لو تدهن فيدهنون‏ فسلام لك‏ من أصحاب اليمين» کا یہ معنی ہے۔ «مسلم لك إنك من أصحاب اليمين» یعنی یہ بات مان لی گئی ہے چاہے کہ تو داہنے ہاتھ والوں میں سے ہے تو ان کا لفظ گرا دیا گیا مگر اس کا معنی قائم رکھا گیا اس کی مثال یہ ہے کہ مثلاً کوئی کہے میں اب تھوڑی دیر میں سفر کرنے والا ہوں اور تو اس سے کہے «أنت مصدق مسافر عن قليل» یہاں بھی «أن» محذوف ہے یعنی «أنت مصدق أنك مسافر عن قليل» کبھی سلام کا لفظ بطور دعا کے مستعمل ہوتا ہے اگر مرفوع ہو جیسے «فسقيا» نصب کے ساتھ دعا کے معنوں میں آتا ہے یعنی اللہ تجھ کو سیراب کرے۔ «تورون‏» سلگاتے ہو آگ نکالتے ہو «أوريت» سے یعنی میں نے سلگایا، لغو، باطل، جھوٹ۔ «تأثيما‏» جھوٹ، غلط۔

Previous    52    53    54    55    56    57    58    59    60    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.