سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (یمن کی طرف حاکم کر کے) بھیجا تو فرمایا: تم کچھ اہل کتاب لوگوں سے ملو گے تو ان کو اس بات کی گواہی کی طرف بلانا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کا بھیجا ہوا ہوں، اگر وہ اس کو مان لیں تو ان کو یہ بات بتلانا کہ اللہ نے ہر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ اگر وہ اس بات کو مان لیں تو ان کو یہ بات بتلانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکوٰۃ فرض کی ہے، جو ان کے مالداروں سے لے کر پھر انہی کے فقیروں اور محتاجوں کو دی جائے گی۔ اگر وہ اس بات کو مان لیں تو آگاہ رہو کہ ان کے عمدہ مال نہ لینا (یعنی زکوٰۃ میں متوسط جانور لینا، عمدہ دودھ والا اور پر گوشت فربہ چھانٹ کر نہ لینا) اور مظلوم کی بددعا سے بچنا کیونکہ مظلوم کی بددعا اور اللہ کے درمیان کوئی روک نہیں۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غلہ اور کھجور میں زکوٰۃ نہیں جب تک کہ پانچ وسق (بیس من) تک نہ ہو اور نہ پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ ہے اور نہ پانچ اوقیہ (52.50 تولے) سے کم چاندی میں زکوٰۃ ہے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جس (کھیت) میں نہروں اور بارش (کے ذریعے) سے پانی دیا جائے اس میں عشر (یعنی دسواں حصہ) زکوٰۃ ہے اور جو اونٹ لگا کر سینچی جائے اس میں نصف العشیر (یعنی بیسواں حصہ زکوٰۃ) فرض ہے
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو زکوٰۃ وصول کرنے کو بھیجا۔ پھر آپ کو بتایا گیا کہ ابن جمیل، خالد بن ولید اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا) عباس رضی اللہ عنہما، ان لوگوں نے زکوٰۃ نہیں دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابن جمیل تو اس کا بدلہ لیتا ہے کہ وہ محتاج تھا اور اللہ نے اس کو امیر کر دیا اور خالد رضی اللہ عنہ پر تم زیادتی کرتے ہو اس لئے کہ اس نے تو زرہیں اور ہتھیار تک اللہ کی راہ میں دیدئیے ہیں (یعنی پھر زکوٰۃ کیوں نہ دے گا) اور رہے عباس رضی اللہ عنہ تو ان کی زکوٰۃ اور اتنی ہی مقدار اور میرے ذمہ ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عمر رضی اللہ عنہ! کیا تم نہیں جانتے کہ چچا تو باپ کے برابر ہے۔
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے سایہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا تو فرمایا کہ رب کعبہ کی قسم وہی نقصان والے ہیں۔ تب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر بیٹھ گیا اور نہ ٹھہر سکا کہ کھڑا ہو گیا اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں، وہ کون (لوگ) ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ بہت مال والے ہیں۔ مگر جس نے خرچ کیا ادھر اور ادھر اور جدھر مناسب ہوا اور دیا آگے سے اور پیچھے سے اور داہنے اور بائیں سے اور ایسے لوگ تھوڑے ہیں۔ (یعنی جہاں دین کی تائید اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی دیکھی وہاں بلا تکلف خرچ کیا) اور جو اونٹ، گائے اور بکری والا ان کی زکوٰۃ نہیں دیتا تو قیامت کے دن وہ جانور، جیسے دنیا میں تھے اس سے زیادہ موٹے اور چربیلے ہو کر آئیں گے اور اپنے سینگوں سے اس کو ماریں گے، اور اپنے کھروں سے اس کو روندیں گے۔ جب ان جانوروں میں سب سے پچھلا گزر جائے گا تو آگے والا پھر اس پر آ جائے گا۔ اور جب تک بندوں کا فیصلہ نہ ہو جائے، اس کو یہی عذاب ہوتا رہے گا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی چاندی یا سونے کا مالک ایسا نہیں کہ اس کی زکوٰۃ نہ دیتا ہو مگر وہ قیامت کے دن ایسا ہو گا کہ اس کیلئے آگ کی چٹانوں کے پرت بنائے جائیں گے اور وہ جہنم کی آگ میں گرم کئے جائیں گے جس سے اس کی پیشانی، پہلو اور پیٹھ داغی جائے گی۔ جب وہ ٹھنڈے ہو جائیں گے تو پھر گرم کئے جائیں گے۔ اس وقت جبکہ دن پچاس ہزار برس کے برابر ہے، بندوں کا فیصلہ ہونے تک اس کو یہی عذاب ہو گا اور یہاں تک کہ اس کی راہ جنت یا دوزخ کی طرف نکلے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! پھر اونٹ (والوں) کا کیا حال ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو اونٹ والا اپنے اونٹوں کا حق نہیں دیتا اور اس کے حق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دودھ دوھ کر غریبوں کو بھی پلائے جس دن ان کو پانی پلائے (عرب کا معمول تھا کہ تیسرے یا چوتھے دن اونٹوں کو پانی پلانے لے جاتے وہاں مسکین جمع رہتے اونٹوں کے مالک ان کو دودھ دوھ کر پلاتے حالانکہ یہ واجب نہیں ہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹوں کا ایک حق اس کو بھی قرار دیا ہے) جب قیامت کا دن ہو گا تو وہ ایک ہموار زمین پر اوندھا لٹایا جائے گا اور وہ اونٹ نہایت فربہ ہو کر آئیں گے کہ ان میں سے کوئی بچہ بھی باقی نہ رہے گا اور اس کو اپنے کھروں سے روندیں گے اور منہ سے کاٹیں گے۔ پھر جب ان کا پہلا جانور روندتا چلا جائے گا تو پچھلا آ جائے گا۔ یونہی سدا عذاب ہوتا رہے گا سارا دن جو کہ پچاس ہزار برس کا ہو گا یہاں تک کہ بندوں کا فیصلہ ہو جائے اور پھر اس کی جنت یا دوزخ کی طرف کچھ راہ نکلے۔ پھر عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! گائے بکری کا کیا حال ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی گائے بکری والا ایسا نہیں جو اس کی زکوٰۃ نہ دیتا ہو مگر جب قیامت کا دن ہو گا تو وہ ایک ہموار زمین پر اوندھا لٹایا جائے گا اور ان گائے بکریوں میں سے سب آئیں گی، کوئی باقی نہ رہے گی اور ایسی ہوں گی کہ ان میں سینگ مڑی ہوئی نہ ہوں گی نہ بے سینگ اور نہ ٹوٹے ہوئے سینگوں والی اور آ کر اس کو اپنے سینگوں سے ماریں گی اور اپنے کھروں سے روندیں گی۔ جب اگلی اس پر سے گزر جائے گی تو پچھلی پھر آئے گی، یہی عذاب اس کو پچاس ہزار برس کے سارے دن میں ہوتا رہے گا یہاں تک کہ بندوں کا فیصلہ ہو جائے اور پھر جنت یا دوزخ کی طرف اس کی کوئی راہ نکلے۔ پھر عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اور گھوڑے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گھوڑے تین طرح کے ہیں ایک اپنے مالک پر بار (یعنی وبال) ہے، دوسرا اپنے مالک کا عیب ڈھانپنے والا ہے اور تیسرا اپنے مالک کیلئے ثواب کا سامان ہے۔ اب اس وبال والے گھوڑے کا حال سنو جو اس لئے باندھا گیا ہے کہ لوگوں کو دکھائے اور لوگوں میں بڑھکیں مارے اور مسلمانوں سے عداوت کرے، سو یہ اپنے مالک کے حق میں وبال ہے۔ اور وہ جو عیب ڈھانپنے والا ہے وہ گھوڑا ہے کہ اس کو اللہ کی راہ میں باندھا ہے (یعنی جہاد کے لئے) اور اس کی سواری میں اللہ کا حق نہیں بھولتا اور نہ اس کے گھاس چارہ میں کمی کرتا ہے، تو وہ اس کا عیب ڈھانپنے والا ہے۔ اور جو ثواب کا سامان ہے اس کا کیا کہنا کہ وہ گھوڑا ہے جو اللہ کی راہ میں اور اہل اسلام کی مدد اور حمایت کے لئے کسی چراگاہ یا باغ میں باندھا گیا ہے۔ پھر اس نے اس چراگاہ یا باغ سے جو کھایا اس کی گنتی کے موافق نیکیاں اس کے مالک کے لئے لکھی گئیں اور اس کی لید اور پیشاب تک نیکیوں میں لکھا گیا۔ اور جب وہ اپنی لمبی رسی توڑ کر ایک دو ٹیلوں پر چڑھ جاتا ہے تو اس کے قدموں اور اس کی لید کی گنتی کے موافق نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ اور جب اس کا مالک کسی ندی پر سے گزرے اور وہ گھوڑا اس میں سے پانی پی لیتا ہے اگرچہ مالک کا پلانے کا ارادہ بھی نہ تھا، تب بھی اس کے لئے ان قطروں کے موافق نیکیاں لکھی جاتی ہیں جو اس نے پئے ہیں۔ (یہ ثواب تو بے ارادہ پانی پی لینے میں ہے پھر جب پانی پلانے کے ارادہ سے لے جائے تو کیا کچھ ثواب نہ پائے گا) پھر عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! گدھے کا حال بیان فرمائیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گدھوں کے بارے میں میرے اوپر کوئی حکم نہیں اترا سوائے اس آیت کے جو بے مثل اور جمع کرنے والی ہے کہ ”جس نے ذرہ کے برابر نیکی کی وہ اسے (قیامت کے دن) دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی وہ بھی اسے دیکھ لے گا“۔
احنف بن قیس کہتے ہیں کہ میں قریش کے چند لوگوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ آئے اور کہنے لگے کہ بشارت دو خزانہ جمع کرنے والوں کو ایسے داغوں کی جو ان کی پیٹھوں پر لگائے جائیں گے اور ان کی کروٹوں سے نکل جائینگے۔ اور ان کی گدیوں میں لگائے جائیں گے تو ان کی پیشانیوں سے نکل آئیں گے۔ پھر ابوذر رضی اللہ عنہ ایک طرف ہو کر بیٹھ گئے۔ میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ ہیں۔ میں ان کی طرف کھڑا ہوا اور کہا کہ یہ کیا تھا جو میں نے ابھی ابھی سنا کہ آپ کہہ رہے تھے؟ انہوں نے کہا کہ میں وہی کہہ رہا تھا جو میں نے ان کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ پھر میں نے کہا کہ آپ اس عطا کے بارے میں (یعنی جو مال غنیمت سے امراء مسلمانوں کو دیا کرتے ہیں) کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ تم اس کو لیتے رہو کہ اس میں ضرورتیں پوری ہوتی ہیں۔ پھر جب یہ تمہارے دین کی قیمت ہو جائے تب چھوڑ دینا (یعنی دینے والے تم سے مداہنت فی الدین چاہیں تو نہ لینا)۔
سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دیہات کے چند لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ بعض تحصیلدار (زکوٰۃ وصول کرنے والے) ہمارے پاس آتے ہیں اور ہم پر زیادتی کرتے ہیں۔ (یعنی جانور اچھے سے اچھا لیتے ہے حالانکہ متوسط لینا چاہئے) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنے تحصیلداروں کو راضی کر دیا کرو (یعنی اگرچہ وہ تم پر زیادتی بھی کریں) سیدنا جریر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا تب سے کوئی تحصیلدار میرے پاس سے نہیں گیا مگر خوش ہو کر۔
سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب کوئی قوم صدقہ لاتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لئے فرماتے تھے کہ اے اللہ! ان پر رحمت فرما۔ پھر میرے والد ابواوفی رضی اللہ عنہ صدقہ لے کر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! ابواوفی کی آل پر رحمت فرما۔