سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب بندہ اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی پیٹھ موڑ کر لوٹتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔ پھر دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ تو اس شخص کے بارے میں کیا کہتا تھا (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام تعظیم سے نہیں لیتے تاکہ وہ سمجھ نہ جائے) مومن کہتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ (ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور سلامتی ہو)۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے کہ تو اپنا ٹھکانہ جہنم میں سے دیکھ لے اس (ٹھکانے) کے بدلے اللہ تعالیٰ نے تجھے جنت میں ٹھکانہ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اپنے دونوں ٹھکانے دیکھتا ہے۔ قتادہ نے کہا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے ہم سے ذکر کیا کہ اس کی قبر ستر ہاتھ چوڑی کر دی جاتی ہے اور سبزہ سے بھر جاتی ہے (یعنی باغیچہ بن جاتا ہے) قیامت تک (یونہی رہے گا)۔
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ آیت ”اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو پکی بات پر قائم رکھتا ہے“ قبر کے عذاب کے بارے میں اتری ہے۔ میت سے پوچھا جاتا ہے، تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ تعالیٰ ہے اور میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول ”اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو دنیا اور آخرت میں پکی بات پر قائم رکھتا ہے“ سے یہی مراد ہے۔
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی نجار کے باغ میں اپنے ایک خچر پر جا رہے تھے اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ اتنے میں وہ خچر بدکا اور قریب تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گرا دے وہاں پر چھ یا پانچ یا چار قبریں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کوئی جانتا ہے کہ یہ قبریں کن کی ہیں؟ ایک شخص بولا کہ میں جانتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ لوگ کب مرے؟ وہ شخص بولا کہ شرک کے زمانہ میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس امت کا امتحان قبروں میں ہوتا ہے۔ پھر اگر تم (اپنے مردوں کو) دفن کرنا نہ چھوڑ دو تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ تم کو قبر کا عذاب سنا دیتا، جو میں سن رہا ہوں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ جہنم کے عذاب سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو۔ لوگوں نے کہا کہ ہم جہنم کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو۔ لوگوں نے کہا کہ ہم قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چھپے اور کھلے فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگو۔ لوگوں نے کہا کہ ہم چھپے اور کھلے فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دجال کے فتنہ سے اللہ کی پناہ مانگو۔ لوگوں نے کہا کہ ہم دجال کے فتنہ سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔
سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آفتاب کے ڈوبنے کے بعد ایک آواز سنی تو فرمایا کہ یہودیوں کو ان کی قبروں میں عذاب ہو رہا ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رو پڑے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اردگرد لوگوں کو بھی رلا دیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب سے اپنی والدہ کیلئے استغفار کرنے کی اجازت مانگی تو مجھے اجازت نہیں دی گئی۔ اور میں نے قبر کی زیارت کی اجازت طلب کی تو مجھے اجازت دیدی گئی۔ لہٰذا تم قبروں کی زیارت کیا کرو، یہ موت یاد دلاتی ہیں۔
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں قبروں کی زیارت کرنے سے منع کرتا تھا، پس اب تم زیارت کیا کرو۔ اور میں تمہیں تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھنے سے منع کرتا تھا، پس اب جب تک چاہو رکھو۔ اور میں تمہیں مشکوں کے سوا اور برتنوں میں نبیذ (پینے) سے منع کرتا تھا، پس اب پینے کے برتنوں میں سے جس میں چاہو پیو مگر نشہ کی چیز نہ پیو۔
محمد بن قیس نے ایک دن کہا کہ کیا میں تمہیں اپنی بات اور اپنی ماں کی بات نہ سناؤں؟ ہم نے یہ خیال کیا کہ شاید ماں سے وہ مراد ہیں جنہوں نے ان کو جنا ہے۔ پھر انہوں نے کہا ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں تم کو اپنی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سناؤں؟ ہم نے کہا کہ ضرور۔ انہوں نے کہا کہ ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کروٹ لی اور اپنی چادر رکھی اور جوتا نکال کر اپنے پاؤں کے آگے رکھا اور چادر کا کنارہ اپنے بچھونے پر بچھایا اور لیٹ گئے۔ تھوڑی دیر اس خیال سے ٹھہرے رہے کہ گمان کر لیا کہ میں سو گئی ہوں۔ پھر آہستہ سے اپنی چادر لی اور آہستہ سے جوتا پہنا اور آہستہ سے دروازہ کھولا، نکلے اور پھر آہستہ سے اس کو بند کر دیا۔ میں نے بھی اپنی چادر لی اور سر پر اوڑھی اور گھونگھٹ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چل پڑی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع پہنچے اور دیر تک کھڑے رہے۔ پھر دونوں ہاتھ تین بار اٹھائے اور پھر لوٹے تو میں بھی لوٹی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جلدی چلے تو میں بھی جلدی چلی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوڑے اور میں بھی دوڑی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر آ گئے اور میں بھی آ گئی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے آئی اور گھر میں آتے ہی لیٹ گئی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں آئے تو فرمایا کہ اے عائشہ! تمہیں کیا ہوا کہ تمہارا سانس پھول رہا ہے اور پیٹ پھولا ہوا ہے؟ میں نے کہا کہ کچھ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بتا دو نہیں تو وہ باریک بین خبردار (یعنی اللہ تعالیٰ) مجھے خبر کر دے گا۔ میں نے عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی (یعنی ساری بات بتا دی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک سایہ سا جو میرے آگے نظر آتا تھا، وہ تم ہی تھیں؟ میں نے کہا جی ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے پر گھونسا مارا (یہ محبت سے تھا) کہ مجھے درد ہوا اور فرمایا کہ تو نے خیال کیا کہ اللہ اور اس کا رسول تیرا حق دبا لے گا؟ (یعنی تمہاری باری میں میں اور کسی بیوی کے پاس چلا جاؤں گا) تب میں نے کہا کہ جب لوگ کوئی چیز چھپاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کو جانتا ہے (یعنی اگر آپ کسی اور بیوی کے پاس جاتے تو بھی اللہ تعالیٰ دیکھتا تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے جب تو نے (مجھے اٹھتے ہوئے) دیکھا۔ انہوں نے مجھے پکارا اور تم سے چھپایا، تو میں نے بھی چاہا کہ تم سے چھپاؤں۔ اور وہ تمہارے پاس نہیں آئے تھے کہ تم نے (سونے کی غرض سے) اپنا زائد کپڑا اتار دیا تھا اور میں سمجھا کہ تم سو گئیں، سو میں نے برا جانا کہ تمہیں جگاؤں اور یہ بھی خوف کیا کہ تم گھبرا جاؤ گئی کہ کہاں چلے گئے۔ پھر جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ تمہارا پروردگار حکم فرماتا ہے کہ تم بقیع کو جاؤ اور اہل بقیع کے لئے مغفرت مانگو۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں کیسے کہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کہو ”اہل اسلام اور ایماندار گھر والوں پر سلام ہے اور اللہ تعالیٰ رحمت کرے ہم سے آگے جانے والوں پر اور پیچھے جانے والوں پر اور اللہ نے چاہا تو ہم بھی (فوت ہو کر) تم سے ملنے والے ہیں“۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی ایک انگارے پر بیٹھے جو اس کے کپڑوں کو جلا دے اور اس کی کھال تک (اس کا اثر) پہنچے، تو بھی قبر پر بیٹھنے (یعنی مجاوری کرنے) سے بہتر ہے۔
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ آپ اس شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جو اچھے اعمال کرتا ہے اور لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بالفعل خوشخبری ہے مومن کو (یعنی آخرت میں جو ثواب اور اجر ہے وہ تو الگ ہے یہ اس کے لئے دنیا ہی میں خوشی ہے کہ لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں)۔