سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص جنازہ پر حاضر رہے یہاں تک کہ نماز پڑھی جائے (اور اس میں شریک ہو تو) اس کو ایک قیراط کا ثواب ہے اور جو شخص (نماز جنازہ کے بعد) دفن تک حاضر رہے تو اس کو دو قیراط کا ثواب ہے۔ صحابہ کرام نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! دو قیراط کا کیا مطلب ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو بڑے پہاڑوں کے برابر ثواب۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی مردہ ایسا نہیں کہ اس پر مسلمانوں کا ایک گروہ، جس کی گنتی سو تک پہنچتی ہو، نماز جنازہ پڑھے اور پھر سب اس کی شفاعت کریں، (یعنی اللہ سے اس کی مغفرت کی دعا کریں) مگر یہ کہ ان کی شفاعت قبول ہو گی۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان کا ایک فرزند (مقام) قدید یا عسفان میں فوت ہو گیا تو انہوں نے (اپنے غلام سے) کہا کہ اے کریب! دیکھو کتنے لوگ (نماز جنازہ کے لئے) جمع ہیں؟ کریب نے کہا کہ میں گیا اور دیکھا کہ لوگ جمع ہیں تو انہیں خبر کی تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ تمہارے اندازے میں چالیس ہیں؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ کہا کہ جنازہ نکالو، اس لئے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جس مسلمان کے جنازے میں چالیس آدمی ایسے ہوں، جنہوں نے اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کیا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے حق میں ان کی شفاعت ضرور قبول کرتا ہے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک جنازہ گزرا اور لوگوں نے اسے اچھا کہا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ واجب ہو گئی تین بار (یہی) فرمایا۔ پھر دوسرا جنازہ گزرا تو لوگوں نے اسے برا کہا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ واجب ہو گئی تین بار (یہی) فرمایا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں، ایک جنازہ گزرا اور لوگوں نے اسے اچھا کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا کہ واجب ہو گئی۔ پھر دوسرا گزرا تو لوگوں نے اسے برا کہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا کہ واجب ہو گئی۔ اس کا کیا مطلب ہے (، کیا چیز واجب ہو گئی)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کو تم نے اچھا کہا اس کے لئے جنت واجب ہو گئی اور جس کو برا کہا اس پر دوزخ واجب ہو گئی۔ تم زمین میں اللہ کے گواہ ہو، تم زمین میں اللہ کے گواہ ہو، تم زمین میں اللہ کے گواہ ہو۔
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن دحداح کی نماز جنازہ پڑھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ننگی پیٹھ والا گھوڑا (بغیر زین کے) لایا گیا۔ اس کو ایک شخص نے پکڑا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور وہ کودتا تھا اور ہم سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھے اور دوڑتے تھے۔ سو قوم میں سے ایک شخص نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابن دحداح کے لئے جنت میں کتنے خوشے لٹک رہے ہیں۔
عامر بن سعد سے روایت ہے کہ(فاتح ایران سیدنا) سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اپنی اس بیماری میں، جس میں ان کا انتقال ہوا یہ فرمایا کہ میرے لئے لحد بنانا اور اس پر کچی اینٹیں لگانا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بنائی گئی۔
ابوالھیاج اسدی کہتے ہیں کہ مجھ سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تمہیں اس کام کے لئے بھیجتا ہوں جس کام کے لئے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا کہ ہر تصویر کو مٹا دو اور ہر اونچی قبر کو (زمین کے) برابر کر دو۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کو پختہ کرنے، اس پر بیٹھنے (مجاروری کرنے) اور اس پر عمارت (گنبد وغیرہ) بنانے سے منع فرمایا ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جب کوئی مر جاتا ہے تو صبح و شام اس کے سامنے اس کا ٹھکانہ پیش کیا جاتا ہے۔ اگر جنت والوں میں سے ہے تو جنت والوں میں سے اور جو دوزخ والوں میں سے ہے تو دوزخ والوں میں سے۔ پھر کہا جاتا ہے کہ یہ تیرا ٹھکانہ ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تجھے قیامت کے دن اس (ٹھکانے کی) طرف بھیجے گا۔