سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ انصاری صحابی آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور پھر واپس جانے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اے انصاری بھائی! میرا بھائی سعد کیسا ہے؟ اس نے عرض کیا کہ اچھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کون ان کی عیادت کرتا ہے؟ (یہ کہہ کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور ہم سے زیادہ آدمی تھے، نہ ہمارے پاس جوتے تھے اور نہ موزے اور نہ ٹوپیاں اور نہ کرتے (یہ کمال زہد تھا صحابہ کا اور دنیا سے بیزاری تھی) اور ہم اس کنکریلی زمین میں چلے جاتے تھے یہاں تک کہ ان تک پہنچے۔ اور جو لوگ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے پاس تھے وہ ہٹ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور وہ لوگ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آئے تھے ان کے پاس گئے۔
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم بیمار یا میت کے پاس آؤ تو اچھی بات کہو۔ اس لئے کہ فرشتے اس بات پر آمین کہتے ہیں جو تم کہتے ہو۔ کہتی ہیں کہ جب ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ابوسلمہ کا انتقال ہو گیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یوں دعا کرو کہ ”اے اللہ! مجھے اور اس کو بخش دے اور مجھے ان سے نعم البدل عطا فرما“ کہتی ہیں کہ میں نے یہ دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے نعم البدل عطا کیا یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اپنے بیماروں کو) جو مرنے کے قریب ہوں، ”لا الٰہ الا اللہ“ کی تلقین کرو (ترغیب دلاؤ)۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملنا چاہتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنا چاہتا ہے اور جو اللہ سے ملنا نہیں چاہتا اللہ بھی اس سے ملنا نہیں چاہتا۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! موت کو تو ہم میں سے سب ناپسند کرتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا یہ مطلب نہیں، بلکہ جب مومن (کا آخری وقت ہوتا ہے تو اس) کو اللہ کی رحمت اور رضامندی اور جنت کی خوشخبری دی جاتی ہے تو وہ اللہ سے ملنا چاہتا ہے۔ (اور بیماری اور دنیا کے مکروہات سے جلد خلاصی پانا چاہتا ہے) اور اللہ بھی اس سے ملنا چاہتا ہے۔ اور جب کافر (کا آخری وقت ہوتا ہے تو اس) کو اللہ کے عذاب اور اس کے غصہ کی خبر دی جاتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ سے ملنا پسند نہیں کرتا اور اللہ عزوجل بھی اس سے ملنا پسند نہیں کرتا۔ ایک دوسری روایت میں شریح بن ہانی سے روایت ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی اللہ سے ملنا چاہتا ہے اللہ بھی اس سے ملنا چاہتا ہے اور جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ملنا ناپسند کرتا ہے اللہ بھی اس سے ملنا ناپسند کرتا ہے۔ میں یہ حدیث سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سن کر ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور کہا کہ اے ام المؤمنین! ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث بیان کی کہ اگر وہ حدیث ٹھیک ہو تو ہم سب تباہ ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے سے جو ہلاک ہوا وہی حقیقت میں ہلاک ہوا، کہو تو وہ (حدیث) کیا ہے؟ میں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو اللہ تعالیٰ سے ملنا چاہتا ہے اللہ بھی اس سے ملنا چاہتا ہے اور جو اللہ سے ملنا نہیں چاہتا اللہ بھی اس سے ملنا نہیں چاہتا، اور ہم میں سے تو کوئی ایسا نہیں ہے جو مرنے کو برا نہ سمجھے۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے جو تو سمجھتا ہے۔ بلکہ جب آنکھیں پھر جائیں اور دم سینہ میں رک جائے اور روئیں (یعنی بال) بدن پر کھڑے ہو جائیں اور انگلیاں تشنج زدہ ہو جائیں (یعنی نزع کی حالت میں، تو) اس وقت جو اللہ سے ملنا پسند کرے اللہ بھی اس سے ملنا پسند کرتا ہے اور جو اللہ سے ملنا ناپسند کرے اللہ بھی اس سے ملنا ناپسند کرتا ہے۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی وفات سے روز قبل یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تم میں سے کوئی آدمی نہ مرے مگر اللہ کے ساتھ نیک گمان رکھ کر (یعنی خاتمہ کے وقت اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو بلکہ اپنے مالک کے فضل و کرم کی امید رکھے اور اپنی نجات اور مغفرت کا گمان رکھے)۔
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کو آئے اور اس وقت ان کی آنکھیں چڑھ گئی تھیں، (یعنی فوت ہو چکے تھے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھیں بند کر دیں اور فرمایا: جب جان نکلتی ہے تو آنکھیں اس کے پیچھے لگی رہتی ہیں۔ ان کے گھر والوں میں سے لوگوں نے رونا شروع کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے لئے اچھی ہی دعا کرو اس لئے کہ فرشتے تمہاری باتوں پر آمین کہتے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ ”اے اللہ! ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کو بخش دے اور ان کا درجہ ہدایت والوں میں بلند کر اور تو ان کے باقی رہنے والے عزیزوں میں خلیفہ ہو جا اور ان کی قبر ان کے لئے کشادہ اور روشن کر دے۔ اے تمام جہانوں کے پالنے والے! ہمیں بھی بخش دے اور ان کو بھی“۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہوئے) کہتے ہیں کہ جب ایماندار کی روح بدن سے نکلتی ہے تو اس کے آگے دو فرشتے آتے ہیں اور اس کو آسمان پر چڑھا لے جاتے ہیں۔ حماد (راوی حدیث) نے کہا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس روح کی خوشبو کا اور مشک کا ذکر بھی کیا اور کہا کہ آسمان والے (فرشتے) کہتے ہیں کہ کوئی پاک روح زمین کی طرف سے آئی ہے، اللہ تجھ پر رحمت کرے اور تیرے بدن پر جس کو تو نے آباد رکھا۔ پھر رب العالمین کے پاس اس کو لے جاتے ہیں۔ پھر رب العالمین فرماتا ہے کہ اس کو لے جاؤ (اپنے مقام میں یعنی علیّین میں جہاں مومنوں کی ارواح رہتی ہیں) قیامت تک (وہیں رکھو) اور کافر کی روح جب نکلتی ہے (راوی حدیث) حماد نے کہا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس کی بدبو اور اس پر لعنت کا ذکر کیا، کہ آسمان والے کہتے ہیں کہ کوئی ناپاک روح زمین کی طرف سے آئی ہے۔ پھر حکم ہوتا ہے کہ اس کو لے جاؤ (اپنے مقام سجین میں جہاں کافروں کی روحیں رہتی ہیں) قیامت ہونے تک۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک باریک کپڑا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اوڑھے ہوئے تھے (جب کافر کی روح کا ذکر کیا اس کی بدبو بیان کرنے کو) اپنی ناک پر ڈال کر دکھاتے ہوئے فرمایا کہ اس طرح سے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک عورت کے پاس سے گزرے جو اپنے (فوت شدہ) بچے پر رو رہی تھی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ سے ڈر اور صبر کر۔ تو وہ عورت کہنے لگی کہ تمہیں میری مصیبت کا کیا اندازہ ہے۔ پس جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے گئے تو عورت سے کہا گیا کہ بیشک وہ (کہنے والے) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ تو اسے موت کے برابر (صدمے) نے آ لیا۔ چنانچہ وہ عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر آئی تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر دربان نہ پائے۔ کہنے لگی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیشک صبر تو صدمے کی ابتداء کے وقت ہوتا ہے۔ (راوی کو شک ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عند اول صدمۃ کا لفظ بولا یا عند اول الصدمۃ کے الفاظ استعمال کئے)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی عورتوں سے فرمایا کہ تم میں سے جس کے تین لڑکے مر جائیں اور وہ (عورت) اللہ کی رضامندی کے واسطے صبر کرے، تو جنت میں جائے گی۔ ایک عورت بولی کہ یا رسول اللہ! اگر دو بچے مریں تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو ہی سہی۔ ایک دوسری سند سے مرفوعاً روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس مسلمان کے تین بچے مر جائیں اس کو جہنم کی آگ نہ لگے گی مگر قسم اتارنے کے لئے (یعنی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو دوزخ پر سے نہ گزرے“ اس وجہ سے اس کا گزر بھی دوزخ پر سے ہو گا لیکن اور کسی طرح عذاب نہ ہو گا)۔