سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک لڑائی میں گیا اور میرے اونٹ نے دیر لگائی اور تھک گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے پہلے آئے اور میں دوسرے دن مسجد میں پہنچا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد کے دروازے پر پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ابھی آئے ہو؟ میں نے کہا کہ جی ہاں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اونٹ کو چھوڑ کر مسجد میں جاؤ اور دو رکعت ادا کرو۔ پھر میں گیا اور دو رکعت پڑھ کر آیا۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں بنی جہینہ کی ایک قوم کے ساتھ جہاد کیا انھوں نے ہمارے ساتھ بہت سخت لڑائی کی۔ پھر جب ہم ظہر پڑھ چکے تو مشرکوں نے کہا کہ کاش ہم ان پر یک بارگی حملہ کرتے تو ان کو کاٹ ڈالتے۔ جبرائیل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے ذکر کیا۔ اور فرمایا کہ مشرکوں نے (یہ بھی) کہا کہ ان کی ایک اور نماز آ رہی ہے کہ وہ ان کو اولاد سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ پھر جب عصر کا وقت آیا تو ہم نے (آگے پیچھے) دو صفیں باندھ لیں اور مشرک قبلہ کی طرف تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر تحریمہ کہی اور ہم سب نے بھی کہی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا تو ہم نے بھی رکوع کیا (یعنی دونوں صفیں رکوع تک شریک رہیں) اور سجدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور پہلی صف کے لوگوں نے کیا پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور پہلی صف کھڑی ہو گئی تو دوسری صف نے سجدہ کیا اور اگلی صف پیچھے اور پچھلی آگے ہو گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اکبر کہا اور ہم نے بھی کہا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا تو ہم نے بھی رکوع کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صف اول کے لوگوں نے سجدہ کیا اور دوسری صف کے لوگ ویسے ہی کھڑے رہے۔ پھر جب دوسرے بھی سجدہ کر چکے تو سب بیٹھ گئے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سب نے سلام پھیرا۔ ابوالزبیر نے کہا کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے ایک اور بات بھی کہی کہ جیسے آج کل یہ تمہارے حاکم نماز پڑھتے ہیں۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں سورج گرہن ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں کھڑے ہوئے اور بہت دیر تک قیام کیا۔ پھر رکوع کیا اور بہت لمبا رکوع کیا۔ پھر سر اٹھایا اور دیر تک کھڑے رہے اور بہت قیام کیا مگر پہلے قیام سے کم، پھر رکوع کیا اور لمبا رکوع کیا مگر پہلے رکوع سے کم، پھر سجدہ کیا (یہ ایک رکعت میں دو رکوع ہوئے اور امام شافعی رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے) پھر کھڑے ہوئے اور دیر تک قیام کیا مگر پہلے قیام سے کم، پھر رکوع کیا اور لمبا رکوع کیا مگر پہلے رکوع سے کم، پھر سر اٹھایا اور دیر تک کھڑے رہے مگر پہلے قیام سے کم، پھر رکوع کیا اور لمبا رکوع کیا مگر پہلے رکوع سے کم (یہ بھی دو رکوع ہوئے) پھر سجدہ کیا اور فارغ ہوئے اور آفتاب اتنے میں کھل گیا تھا۔ پھر لوگوں پر خطبہ پڑھا اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی اور فرمایا کہ سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں اور انہیں گرہن کسی کی موت اور زندگی کی وجہ سے نہیں لگتا۔ پھر جب تم گرہن دیکھو تو اللہ کی بڑائی بیان کرو اور اس سے دعا کرو اور نماز پڑھو اور خیرات کرو۔ اے امت محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! اللہ سے بڑھ کر کوئی غیرت والا نہیں اس بات میں کہ اس کا غلام یا باندی زنا کرے۔ اے امت محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! اللہ کی قسم! جو میں جانتا ہوں اگر تم جانتے ہوتے تو بہت روتے اور تھوڑا ہنستے۔ سن لو! کیا میں نے اللہ کا حکم پہنچا نہیں دیا؟
سیدنا عبداللہ بن زید انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدگاہ کی طرف نکلے اور پانی کے لئے دعا مانگی۔ اور جب ارادہ کیا کہ دعا کریں تو قبلہ کی طرف ہوئے اور اپنی چادر کو الٹا۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ پس (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) لوگوں کی طرف پیٹھ کی اور اللہ سے دعا کرنے لگے اور قبلہ کی طرف منہ کیا اور چادر الٹی پھر دو رکعت نماز پڑھی۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ ہم پر بارش ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا کپڑا اتار دیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بارش کا پانی پہنچا۔ ہم نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس لئے کہ یہ ابھی ابھی اپنے پروردگار کے پاس سے آئی ہے۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب تیز آندھی آتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھتے ”اے اللہ میں اس ہوا کی بہتری اور جو اس کے اندر ہے، اس کی بہتری اور جو اس میں بھیجا گیا ہے اس کی بہتری مانگتا ہوں۔ اور اس کی برائی سے اور جو اس کے اندر ہے، اس کی برائی سے اور جو برائی اس کے ساتھ بھیجی گئی ہے، برائی سے پناہ مانگتا ہوں“۔ اور ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب آسمان پر بادل اور بجلی کڑکتی تو (خوف سے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ بدل جاتا اور کبھی باہر نکلتے اور کبھی اندر آتے اور کبھی آگے آتے اور کبھی پیچھے جاتے۔ پھر اگر بارش برسنے لگتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گھبراہٹ جاتی رہتی۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے اس بات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک سے پہنچان لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! میں ڈرتا ہوں کہ کہیں ایسا نہ ہو جیسے عاد کی قوم نے دیکھا کہ ”ایک بادل کا ٹکرا ہے جو ان کے آگے آیا ہے کہنے لگے کہ یہ بادل ہم پر برسنے والا ہے“(اور وہ ان پر آنے والا عذاب تھا)۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے (اللہ کے حکم سے) بادصبا (مشرق کی طرف کی ہوا) سے مدد دی گئی اور (قوم) عاد دبور (یعنی مغرب کی طرف کی ہوا) سے ہلاک کی گئی تھی۔