سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نماز فطر (عیدالفطر) کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور سیدنا ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہما سب کے ساتھ گیا تو ان سب بزرگوں کا قاعدہ تھا کہ نماز خطبہ سے پہلے پڑھتے تھے اور اس کے بعد خطبہ پڑھتے تھے۔ پھر کہا آج بھی گویا میں وہ منظر دیکھ رہا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے، لوگوں کو اپنے ہاتھ سے بیٹھنے کا اشارہ کیا، پھر ان کی صفیں چیرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ بھی تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی ((یا ایّھا النبیّ اذا جاءک المؤمنات یبایعنک ....))(سورۃ الممتحنہ: 12) یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے فارغ ہوئے۔ پھر فرمایا کہ تم نے ان سب کا اقرار کیا؟ ان میں سے ایک عورت نے کہا کہ ہاں اے اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! راوی نے کہا کہ معلوم نہیں وہ کون تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صدقہ کرو۔ تب سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اپنا کپڑا پھیلایا اور کہا کہ لاؤ میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں۔ اور وہ سب چھلے اور انگوٹھیاں اتار اتار کر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں ڈالنے لگیں۔
عبیداللہ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوواقد لیثی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (عیدالاضحی) اضحی اور (عیدالفطر) فطر میں کیا پڑھتے تھے؟ انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں ((ق ٓ والقرآن المجید)) اور ((اقتربت السّاعۃ وانشقّ القمر)) پڑھا کرتے تھے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدالاضحی یا عیدالفطر میں نکلے اور دو رکعت پڑھی کہ نہ اس سے پہلے نماز پڑھی اور نہ بعد میں پھر عورتوں کے پاس گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ تھے پھر عورتوں کو صدقہ کا حکم کیا پھر کوئی تو اپنے چھلے نکالنے لگی اور کوئی لونگوں کے ہار جو ان کے گلوں میں تھے۔
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم کیا کہ ہم عیدالفطر اور عیدالاضحی میں اپنی کنواری، جوان لڑکیوں، حیض والیوں اور پردہ والیوں کو لے جائیں۔ پس حیض والیاں نماز کی جگہ سے الگ رہیں اور اس کار نیک اور مسلمانوں کی دعا میں شامل ہوں میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم میں سے کسی کے پاس چادر نہیں ہوتی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی بہن اسے اپنی چادر اڑھا دے۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے تشریف فرما ہوئے اور میرے پاس دو (نابالغ) لڑکیاں بعاث کی لڑائی کے گیت گا رہی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچھونے پر لیٹ گئے اور اپنا منہ ان کی طرف سے پھیر لیا۔ پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور مجھے جھڑکا کہ شیطان کی تان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ ان کو چھوڑ دو (یعنی گانے دو) پھر جب وہ غافل ہو گئے تو میں نے ان دونوں کو اشارہ کیا تو وہ نکل گئیں۔ وہ عید کا دن تھا اور سودانی (حبشی) ڈھالوں اور نیزوں سے کھیلتے تھے، سو مجھے یاد نہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خواہش کی تھی یا انہوں نے خود فرمایا کہ کیا تم اسے دیکھنا چاہتی ہو؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا اور میرا رخسار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار پر تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اے اولاد ارفدہ! تم اپنے کھیل میں مشغول رہو۔ یہاں تک کہ جب میں تھک گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بس؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا جاؤ۔