سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ تم میں سے کوئی اپنی ذات میں سے شیطان کو حصہ نہ دے، یہ نہ سمجھے کہ نماز کے بعد داہنی ہی طرف پھرنا مجھ پر واجب ہے۔ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بائیں طرف بھی پھرتے تھے۔
سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قوم کی امامت وہ شخص کرے جو قرآن زیادہ جانتا ہو۔ اگر قرآن میں برابر ہوں تو جو سنت زیادہ جانتا ہو اگر سنت میں سب برابر ہوں تو جس نے پہلے ہجرت کی ہو۔ اگر ہجرت میں بھی سب برابر ہوں تو جو اسلام پہلے لایا ہو اور کسی کی حکومت کی جگہ میں جا کر اس کی امامت نہ کرے (یعنی مقرر شدہ امام کے ہوتے ہوئے اس کی اجازت کے بغیر امامت نہ کرائے) اور نہ اس کے گھر میں اس کی مسند پر بیٹھے مگر اس کی اجازت سے۔
سیدنا براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کرتے تو (صحابہ) بھی رکوع کرتے تھے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے سر اٹھاتے تو ((سمع اللہ لمن حمدہ)) کہتے اور ہم کھڑے رہتے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زمین پر پیشانی رکھتے دیکھتے اس وقت ہم بھی سجدہ میں جاتے۔
سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا کہ میں فلاں شخص کی وجہ سے صبح کی جماعت میں نہیں آتا کیونکہ وہ قرآت لمبی کرتا ہے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیحت کرنے میں کبھی اتنے غصے میں نہیں دیکھا جتنا اس دن دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے لوگو! تم میں سے بعض لوگ ایسے ہیں جو دین سے متنفر کریں۔ جو کوئی تم میں سے امامت کرے تو مختصر نماز پڑھے اس لئے کہ اس کے پیچھے بوڑھا اور کمزور اور کام والا ہوتا ہے۔
عبیداللہ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے واقعات بتائیے۔ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو پوچھا کہ کیا لوگ نماز پڑھ چکے؟ ہم نے کہا کہ نہیں، بلکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منتظر ہیں۔ ارشاد فرمایا کہ ہمارے لئے برتن میں پانی رکھو۔ ہم نے پانی رکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل فرمایا، اس کے بعد چلنا چاہا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غش آ گیا۔ اور جب افاقہ ہوا تو پھر پوچھا کہ کیا لوگ نماز پڑھ چکے؟ ہم نے کہا کہ نہیں یا رسول اللہ! بلکہ وہ آپ کے منتظر ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارے لئے طشت (تھال) میں پانی رکھو۔ چنانچہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کیا پھر آپ چلنے کے لئے تیار ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ غش آ گیا۔ اور پھر ہوش میں آنے کے بعد پوچھا کہ کیا لوگ نماز پڑھ چکے؟ ہم نے عرض کیا کہ نہیں یا رسول اللہ! وہ سب لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ اور ادھر لوگوں کی حالت یہ تھی کہ وہ سب نماز عشاء کے لئے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے مسجد میں منتظر تھے۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے ہاتھ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو کہلا بھیجا کہ آپ نماز پڑھائیں۔ چنانچہ اس آدمی نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نہایت نرم دل تھے (وہ جلد رونے لگتے تھے) اس لئے انہوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اے عمر! تم نماز پڑھا دو۔ جس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نہیں، آپ ہی امامت کے زیادہ مستحق ہیں اور آپ ہی کو نماز پڑھانے کے لئے حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کئی دن تک نماز پڑھائی۔ اسی دوران ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت ذرا ہلکی ہوئی تو آپ دو آدمیوں کا سہارا لے کر نماز ظہر کے لئے مسجد میں تشریف لے گئے۔ ان دو آدمیوں میں سے ایک سیدنا عباس رضی اللہ عنہ تھے (جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے) غرضیکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں اس وقت پہنچے جب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بحیثیت امام نماز پڑھا رہے تھے۔ انہوں نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو پیچھے ہٹنا چاہا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے فرمایا کہ پیچھے نہ ہٹو اور اپنے ساتھ والوں سے کہا کہ مجھے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے برابر میں بٹھا دو۔ چنانچہ ان دونوں نے آپ کو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے برابر بٹھا دیا۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے بیٹھے نماز پڑھنے لگے اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ویسے ہی کھڑے کھڑے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز میں پیروی کرنے لگے گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امام تھے اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مقتدی اور تمام صحابہ کرام حسب سابق اس فرض نماز ظہر میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پیروی کر رہے تھے۔ عبیداللہ بن عبداللہ کا بیان ہے کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس جا کر کہا کہ میں آپ کو وہ حدیث سناتا ہوں جو ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے مجھے سنائی ہے اور ان کی طلب پہ میں نے پوری حدیث ان سے کہہ سنائی جسے سننے کے بعد انہوں نے کہا کہ یہ پوری حدیث بالکل صحیح ہے۔ پھر پوچھا کہ دوسرے شخص جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کیا ان کا نام ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نہیں بتایا؟ میں نے جواب دیا کہ جی نہیں تو انہوں نے کہا کہ دوسرے آدمی سیدنا علی رضی اللہ عنہ تھے۔
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ تبوک میں شرکت کی۔ ایک صبح قبل نماز فجر اسی مقام تبوک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم رفع حاجت کے لئے روانہ ہوئے اور میں پانی کا لوٹا لئے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ رفع حاجت کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں پر پانی ڈالا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے تین مرتبہ ہاتھ دھوئے پھر منہ دھویا، جبہ کو بازوؤں پر چڑھانا چاہا لیکن اس کی آستینیں تنگ تھیں اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبہ کے نیچے سے اپنے دونوں ہاتھ نکال کر کہنیوں تک دھوئے اور اس کے بعد موزوں پر مسح کیا۔ پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوا، جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نماز پڑھا رہے ہیں۔ چنانچہ ان کے پیچھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت پڑھی۔ سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے دونوں رکعتیں پڑھنے کے بعد سلام پھیر کے دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پوری کرنے کی خاطر دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہو گئے تھے۔ مسلمان یہ دیکھ کر گھبرا گئے اور انہوں نے بکثرت تسبیح پڑھی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد فراغت نماز فرمایا کہ تم لوگوں نے اچھا کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر خوشی کا اظہار کیا کہ لوگوں نے وقت پر نماز ادا کی۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک نابینا شخص آیا اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے کوئی پکڑ کر مسجد تک لانے والا نہیں اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گھر میں نماز پڑھنے کے لئے رخصت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دیدی۔ پھر جب لوٹ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا کر پوچھا کہ کیا تم اذان سنتے ہو؟ اس نے عرض کیا کہ ہاں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم مسجد میں آیا کرو۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم خیال کرتے تھے کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں) نماز باجماعت سے وہی منافق پیچھے رہتا تھا جس کا نفاق ظاہر ہو یا پھر بیمار آدمی۔ اور بیمار آدمی بھی دو آدمیوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر (آ سکتا) تو آتا اور نماز میں ملتا تھا۔ اور انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دین اور ہدایت کی باتیں سکھائیں اور انہی ہدایت کی باتوں میں سے ہے کہ ایسی مسجد میں نماز پڑھنا جس میں اذان ہوتی ہو۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: باجماعت نماز پڑھنا، گھر اور بازار میں نماز پڑھنے کی نسبت بیس سے زیادہ درجہ فضیلت رکھتا ہے کیونکہ جب تم میں سے کوئی شخص صرف نماز پڑھنے کے لئے اچھی طرح وضو کر کے مسجد میں جاتا ہے تو مسجد میں پہنچنے تک اس کے ہر قدم کے بدلہ میں ایک درجہ بلند کیا جاتا ہے اور ایک گناہ مٹا دیا جاتا ہے۔ مسجد میں داخل ہونے کے بعد وہ جتنی دیر نماز کے انتظار میں بیٹھا رہتا ہے اس کو نماز میں شمار کیا جاتا ہے اور فرشتے تمہارے لئے اس وقت تک دعا کرتے رہتے ہیں جب تک تم میں سے کوئی شخص نماز کی جگہ بیٹھا رہتا ہے، جب تک وہ شخص (وضو توڑ کر) فرشتوں کو ایذا نہ دے، فرشتے کہتے رہتے ہیں یا اللہ! اس پر رحم فرما، یا اللہ! اس کو بخش دے، یا اللہ! اس کی توبہ قبول فرما۔