سیدہ عمرہ بنت عبدالرحمن رضی اللہ عنہا نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سنا، وہ کہتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر موجودہ دور کی بناؤ سنگھار کرنے والی خواتین کو دیکھتے، تو انہیں مسجد میں آنے سے روک دیتے، جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتیں روک دی گئی تھیں۔ (راوی) یحییٰ بن سعید نے راویہ سیدہ عمرہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ اے عمرہ! کیا بنی اسرائیل کی عورتوں کو مسجد میں آنے سے روک دیا گیا تھا؟ انہوں نے کہا ہاں۔
سیدنا ابوحمید (یا سیدنا ابواسید) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی مسجد میں آئے تو کہے کہ ”اے اللہ میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے“ اور جب نکلے تو کہے ”اے اللہ میں تجھ سے تیرا فضل یعنی رزق اور دنیا کی نعمتیں مانگتا ہوں“۔
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں مسجد میں گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں بیٹھے ہوئے تھے تو میں بھی بیٹھ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں بیٹھنے سے پہلے دو رکعت پڑھنے سے کس نے روکا؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور لوگوں کو بیٹھے دیکھا (تو میں بیٹھ گیا)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے، تو جب تک دو رکعت نہ پڑھ لے نہ بیٹھے۔
ابوشعثاء کہتے ہیں کہ ہم مسجد میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ مؤذن نے اذان دی اور ایک شخص مسجد سے اٹھا اور جانے لگا تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس کو دیکھتے رہے، یہاں تک کہ وہ باہر چلا گیا۔ تب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس شخص نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور اس کا کفارہ یہ ہے کہ (اگر تھوکے تو) مٹی میں دبا دے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی جنگ میں فرمایا کہ جو شخص اس پودے یعنی لہسن کے پودے کو کھائے تو وہ مسجد میں نہ آئے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص پیاز یا لہسن کھائے تو وہ ہم سے جدا رہے یا فرمایا کہ ہماری مسجد سے جدا رہے اور اپنے گھر بیٹھے۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ہنڈیا لائی گئی جس میں ترکاریاں تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں بدبو پائی تو پوچھا کہ اس میں کیا ڈالا ہے؟ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو فلاں صحابی کے پاس لے جاؤ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ اس نے بھی اس کا کھانا برا سمجھا (اس وجہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کھایا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو کھا لے کیونکہ میں تو اس سے سرگوشی کرتا ہوں جس سے تو نہیں کرتا (یعنی فرشتوں سے)۔
معدان بن ابی طلحہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن خطبہ پڑھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا اور کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک مرغ نے مجھے تین ٹھونگیں ماریں، میں سمجھتا ہوں کہ اس کی تعبیر یہ ہے کہ میری موت اب نزدیک ہے۔ بعض لوگ مجھ سے یہ کہتے ہیں کہ تم اپنا جانشین اور خلیفہ کسی کو مقرر کر دو، اور یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے دین کو برباد نہیں کرے گا اور نہ اپنی خلافت کو اور نہ اس چیز کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے کر بھیجا تھا۔ اگر میری موت جلد ہو جائے تو خلافت مشورہ کرنے پر چھ آدمیوں کے اندر رہے گی جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات تک راضی رہے۔ اور میں جانتا ہوں کہ بعض لوگ طعن کرتے ہیں اس کام میں جن کو میں نے خود اپنے اس ہاتھ سے مارا ہے اسلام پر۔ پھر اگر انہوں نے ایسا کیا (یعنی اس طعن کو درست سمجھے) تو وہ دشمن ہیں اللہ کے اور کافر گمراہ ہیں اور میں اپنے بعد کسی چیز کو اتنا مشکل نہیں چھوڑتا جتنا کہ کلالہ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی بات کو اتنی بار نہیں پوچھا جتنی بار کلالہ کے متعلق پوچھا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مجھ پر کسی بات میں اتنی سختی نہیں کی جتنی اس میں کی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی سے میرے سینہ میں ٹھونسا مارا اور فرمایا کہ اے عمر! کیا تجھے وہ آیت کافی نہیں جو گرمی کے موسم میں اتری سورۃ نساء کے آخر میں کہ ”يستفتونک قل اﷲ يفتيکم في الکللۃ ان امر ھلک ليس لہ ولد ولہ اخت فلھا نصف ما ترک ....“(النساء: 176) اور میں اگر زندہ رہا تو کلالہ میں ایسا فیصلہ کروں گا جس کے موافق ہر شخص حکم کرے خواہ قرآن پڑھا ہو۔ یا نہ پڑھا ہو پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے اللہ! میں تجھے گواہ کرتا ہوں ان لوگوں پر جن کو میں نے ملکوں کی حکومت دی ہے (یعنی نائبوں اور صوبہ داروں اور عالموں پر) میں نے ان کو اسی لئے بھیجا کہ وہ انصاف کریں اور لوگوں کو دین کی باتیں بتلائیں اور اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ سکھائیں اور جو مال فئی حاصل ہو لوگوں میں تقسیم کریں اور جس بات میں ان کو مشکل پیش آئے اس کو مجھ سے دریافت کریں۔ پھر اے لوگو! میں دیکھتا ہوں تم دو پودوں کو کھاتے ہو اور میں ان کو مکروہ سمجھتا ہوں وہ پیاز اور لہسن ہیں اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب ان دونوں کی بو کسی شخص میں سے آتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے وہ مسجد سے بقیع کی طرف نکالا جاتا تھا۔ اب اگر کوئی ان کو کھائے تو خوب پکا کر (ان کی بو کو ختم کر لے)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی کو کوئی گمشدہ چیز کے متعلق مسجد میں پکار سنے (یعنی وہ اپنی بلند آواز سے اپنی چیز کے لئے لوگوں کو پکارے) تو کہے کہ اللہ کرے تیری چیز نہ ملے۔ اس لئے کہ مسجدیں اس واسطے نہیں بنائی گئیں۔