سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کو اس بات کا خوف ہو کہ آخر شب میں نہ اٹھ سکے گا تو اول شب میں (عشاء کے بعد) وتر پڑھ لے۔ اور جس کو امید ہو کہ آخر شب میں اٹھے گا تو چاہئے کہ وتر آخر شب میں پڑھے، اس لئے کہ شب کی نماز ایسی ہے کہ اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور یہ افضل ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ جب وہ اپنے گھر کی طرف لوٹے تو اس میں تین موٹی حاملہ اونٹنیاں پائے؟ ہم نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم میں سے کسی کا نماز میں تین آیات کا پڑھنا تین موٹی تازی حاملہ اونٹنیوں سے بہتر ہے“۔
سیدنا ابووائل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک دن فجر کی نماز پڑھ کر صبح صبح عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کے گھر گئے۔ پس ہم نے دروازے پر کھڑے ہو کر سلام کہا تو ہمیں اجازت دیدی گئی۔ ابووائل کہتے ہیں کہ ہم تھوڑی دیر دروازے پر ٹھہرے رہے تو ایک بچی نکلی۔ کہنے لگی کہ آپ اندر داخل کیوں نہیں ہوتے؟ چنانچہ ہم اندر داخل ہو گئے تو دیکھا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما بیٹھے تسبیح پڑھ رہے تھے، فرمانے لگے کہ جب تمہیں اجازت دیدی گئی تھی تو تمہیں اندر داخل ہونے سے کس چیز نے روکا؟ ہم نے کہا اور کچھ نہیں ہم نے خیال کیا کہ آپ کے بعض گھر والے سوئے ہوں گے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما فرمانے لگے کہ تم نے ابن ام عبد کے اہل خانہ کو غافل خیال کیا ہے؟ پھر وہ تسبیح میں مشغول ہو گئے یہاں تک کہ انہوں نے گمان کیا کہ سورج نکل آیا ہے۔ آپ نے بچی سے کہا دیکھو سورج نکل آیا ہے؟ ابووائل کہتے ہیں پس اس نے دیکھ کر کہا کہ نہیں ابھی سورج طلوع نہیں ہوا۔ وہ پھر تسبیح میں مشغول ہو گئے یہاں تک کہ انہوں نے گمان کیا کہ سورج نکل آیا ہے۔ آپ نے پھر بچی سے کہا، دیکھو سورج نکل آیا ہے؟ تو اس نے دیکھ کر کہا، جی ہاں سورج طلوع ہو چکا ہے تو فرمانے لگے کہ تمام تعریف اللہ رب العالمین کیلئے ہے جس نے معاف کر دیا ہم کو ہمارے اس دن میں۔ مہدی کہتے ہیں، میرا خیال ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے کہا ”اور ہمیں ہمارے گناہوں کے سبب ہلاک نہیں کیا“۔ تو لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا کہ میں نے آج کی رات ساری کی ساری مفصل سورتیں پڑھی ہیں۔ تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے کہا ھذا کھذ الشعر تم نے ایسے پڑھا جیسا کوئی شعر پڑھتا ہے۔ ہم نے البتہ قرائن کو سنا ہے اور مجھے وہ قرائن یاد ہیں جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے۔ وہ اٹھارہ سورتیں مفصل کی اور دو سورتیں آل حم سے ہیں۔ (قرائن سے وہ سورتیں مراد ہیں جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو دو سورتیں ملا کر ایک رکعت میں پڑھا کرتے تھے)
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (تقریباً) آدھی رات کو نکلے اور مسجد میں نماز پڑھی اور چند لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھر صبح لوگ اس کا ذکر کرنے لگے اور دوسرے دن اس سے زیادہ لوگ جمع ہوئے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی نکلے، پھر لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی اور صبح کو لوگ اس کا ذکر کرنے لگے۔ پھر تیسری رات میں مسجد میں زیادہ لوگ جمع ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لوگوں نے نماز ادا کی۔ پھر جب چوتھی رات ہوئی اور لوگ اس قدر جمع ہوئے کہ مسجد تنگ پڑ گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ نکلے تو لوگ ”نماز، نماز“ پکارنے لگے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ نکلے یہاں تک کہ صبح کی نماز کو آئے پھر جب نماز پڑھ چکے تو لوگوں کی طرف منہ کیا اور شہادتین پڑھا اور حمد و صلوٰۃ کے بعد فرمایا کہ معلوم ہو کہ تمہارا آج کی رات کا حال مجھ پر کچھ پوشیدہ نہ تھا مگر میں نے خوف کیا کہ تم پر رات کی نماز (تراویح) فرض نہ ہو جائے اور تم اس کی ادائیگی سے عاجز ہو جاؤ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ یہ رمضان کا واقعہ تھا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں تراویح پڑھنے کی ترغیب دیتے تھے تاکیداً حکم نہیں دیتے تھے اور فرماتے: جو رمضان میں ایمان کے ساتھ اور ثواب حاصل کرنے کے لئے نماز پڑھے تو اس کے اگلے گناہ بخشے جائیں گے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال فرمایا اور معاملہ اسی طرح تھا پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں بھی یہی طریقہ رہا۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی شروع خلافت میں بھی یہی طریقہ رہا (یعنی جس کا دل چاہتا رات کو نماز پڑھتا)۔