ابوسلمہ نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ان دو رکعتوں کے بارے میں پوچھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کے بعد پڑھتے تھے، تو انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عصر سے پہلے پڑھا کرتے تھے، پھر ایک بار آپ کو کوئی کام ہو گیا یا بھول گئے تو عصر کے بعد پڑھیں پھر ہمیشہ پڑھتے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جب کوئی نماز پڑھتے تو ہمیشہ پڑھا کرتے تھے اسمعیل بن جعفر نے کہا کہ ان کی مراد یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ہمیشگی کی۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جنگ خندق کے دن آئے اور کفار قریش کو برا بھلا کہنے لگے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! قسم ہے اللہ کی میں عصر کی نماز نہیں پڑھ سکا ہوں، یہاں تک کہ آفتاب غروب کے قریب ہو گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قسم ہے اللہ کی میں نے بھی نہیں پڑھی۔ پھر ہم ایک کنکریلی زمین کی طرف گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور ہم سب نے وضو کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غروب آفتاب کے بعد عصر کی نماز پڑھی، پھر اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھی۔
مختار بن فلفل کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے عصر کے بعد نفل پڑھنے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ عصر کے بعد نماز پڑھنے والوں کے ہاتھوں پر مارتے تھے اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب سے پہلے دو رکعت پڑھتے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے؟ انہوں نے کہا کہ ہم کو پڑھتے ہوئے دیکھا کرتے تھے اور نہ اس کا حکم کرتے (یعنی بطریق وجوب کے)، اور نہ اس سے منع فرماتے تھے۔
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ مغرب کی نماز اس وقت پڑھا کرتے تھے جب آفتاب ڈوب جاتا اور پردہ میں چھپ جاتا تھا۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عشاء میں دیر کی، یہاں تک کہ رات کا بڑا حصہ گزر گیا اور مسجد میں جو لوگ تھے سو گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے، نماز پڑھی اور فرمایا کہ اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ میں اپنی امت پر مشقت ڈال دوں گا، اس کا وقت یہی ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دیہاتی لوگ تم پر عشاء کی نماز کے نام پر غالب نہ آ جائیں، اس لئے کہ وہ اللہ کی کتاب میں عشاء ہے۔ اس لئے کہ وہ اونٹنیوں کے دوہنے میں دیر کرتے ہیں۔ (اس لئے وہ نماز عشاء کو عقمہ کہتے ہیں)۔
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ تم کیا کرو گے جب تمہارے اوپر ایسے امیر ہوں گے تو نماز آخر وقت ادا کریں گے یا فرمایا کہ نماز کو اس کے وقت سے مار ڈالیں گے؟ میں نے عرض کیا کہ آپ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنے وقت پر ادا کر لینا، پھر ان کے ساتھ بھی اتفاق ہو تو پڑھ لینا کہ وہ تمہارے لئے نفل ہو جائے گی۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا کام افضل ہے؟ (یعنی ثواب میں سب سے بڑھ کر ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز اپنے وقت پر پڑھنا۔ میں نے کہا کہ پھر کون سا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ماں باپ سے نیکی کرنا (یعنی ان کو خوش اور راضی رکھنا اور ان کے ساتھ احسان کرنا اور ان کے دوستوں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنا) میں نے کہا کہ پھر کون سا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رعایت کر کے زیادہ پوچھنا چھوڑ دیا (تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بار نہ گزرے)۔
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطاب کرتے ہوئے فرمایا: تم آج زوال کے بعد اور اپنی ساری رات چلو اگر اللہ نے چاہا تو کل صبح پانی پر پہنچو گے۔ پس لوگ اس طرح چلے کہ کوئی کسی کی طرف متوجہ نہ ہوتا تھا۔ سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے جاتے تھے، یہاں تک کہ آدھی رات ہو گئی اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو کی طرف تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونگھنے لگے اور اپنی سواری پر سے جھکے (یعنی نیند کے غلبہ سے) اور میں نے آ کر آپ کو ٹیکہ دیا (تاکہ گر نہ پڑیں) بغیر اس کے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جگاؤں، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔ پھر چلے یہاں تک کہ جب بہت رات گزر گئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جھکے اور میں نے پھر ٹیکہ دیا بغیر اس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جگاؤں، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔ پھر چلے یہاں تک کہ آخر سحر کا وقت ہو گیا، پھر ایک بار بہت جھکے کہ اگلے دو بار سے بھی زیادہ، قریب تھا کہ گر پڑیں۔ پھر میں آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روک دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا اور فرمایا یہ کون ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ابوقتادہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کب سے میرے ساتھ اس طرح چل رہے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ میں رات سے آپ کے ساتھ اسی طرح چل رہا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت کرے جیسے تم نے اس کے نبی کی حفاظت کی ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ تم ہمیں دیکھتے ہو کہ ہم لوگوں کی نظروں میں پوشیدہ ہیں؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کسی کو دیکھتے ہو؟ میں نے کہا کہ یہ ایک سوار ہے، پھر میں نے کہا کہ یہ ایک اور سوار ہے، یہاں تک کہ ہم سات سوار جمع ہو گئے۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم راہ سے ایک طرف الگ ہوئے اور اپنا سرزمین پر رکھا (یعنی سونے کو) اور فرمایا کہ تم لوگ ہماری نماز کا خیال رکھنا (یعنی نماز کے وقت جگا دینا)۔ پھر پہلے جو جاگے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے اور دھوپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ پر آ گئی تھی پھر ہم لوگ گھبرا کر اٹھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سوار ہو جاؤ تو ہم سوار ہوئے پھر چلے یہاں تک کہ جب دھوپ چڑھ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اترے اپنا وضو کا لوٹا منگوایا جو میرے پاس تھا اور اس میں تھوڑا سا پانی تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے وضو کیا (جو عام وضو سے کم تھا یعنی بہت قلیل پانی سے بہت جلد) اور اس میں تھوڑا سا پانی باقی رہ گیا۔ پھر ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ہمارے لوٹے کو رکھ چھوڑو کہ اس کی ایک عجیب کیفیت ہو گی۔ پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے نماز کیلئے اذان کہی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر صبح کی فرض نماز ادا کی اور ویسے ہی ادا کی جیسے ہر روز ادا کرتے تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوار ہوئے، پھر ہم میں سے بعض دوسرے سے چپکے چپکے کہتا تھا کہ آج ہمارے اس قصور کا کیا کفارہ ہو گا جو ہم نے نماز میں قصور کیا تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں تم لوگوں کے لئے اسوہ نہیں ہوں؟ پھر فرمایا کہ سونے میں کیا قصور ہے؟ قصور تو یہ ہے کہ ایک آدمی نماز نہ پڑھے، یہاں تک کہ دوسری نماز کا وقت آ جائے (یعنی جاگنے میں قضاء کرے) پھر جو ایسا کرے (یعنی اس کی قضاء ہو جائے تو) لازم ہے کہ جب ہوشیار ہو، ادا کرے۔ اور جب دوسرا دن آئے تو اپنی نماز اوقات متعینہ پر ادا کرے (یعنی یہ نہیں کہ ایک بار قضاء ہو جانے سے نماز کا وقت ہی بدل جائے)۔ پھر فرمایا کہ تم کیا خیال کرتے ہو کہ لوگوں نے کیا کیا ہو گا؟ پھر فرمایا کہ لوگوں نے جب صبح کی تو اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پایا۔ تب ابوبکر اور عمر (رضی اللہ عنہما) نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پیچھے ہوں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے نہیں کہ تمہیں پیچھے چھوڑ جائیں اور دوسرے لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم سے آگے ہیں۔ پھر وہ لوگ اگر ابوبکر اور عمر (رضی اللہ عنہما) کی بات مانتے تو سیدھی راہ پاتے (یہ خبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معجزہ کے طور پر دی)۔ راوی نے کہا کہ پھر ہم لوگوں تک پہنچے، یہاں تک کہ دن کافی چڑھ آیا تھا اور ہر چیز گرم ہو گئی تھی اور لوگ کہنے لگے کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم تو مر گئے اور پیاسے ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں تم نہیں مرے۔ پھر فرمایا کہ ہمارا چھوٹا پیالہ لاؤ اور وہ لوٹا منگوایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانی ڈالنے لگے اور سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ لوگوں کو پانی پلانے لگے۔ پھر جب لوگوں نے دیکھا کہ پانی ایک لوٹا بھر ہی ہے تو لوگ اس پر گرنے لگے (یعنی ہر شخص ڈرنے لگا کہ پانی تھوڑا ہے کہیں محروم نہ رہ جاؤں) تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھی طرح آہستگی سے لیتے رہو، تم سب سیراب ہو جاؤ گے۔ غرض کہ پھر لوگ اطمینان سے لینے لگے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانی ڈالتے تھے اور میں پلاتا تھا یہاں تک کہ میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی باقی نہ رہا (راوی نے) کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ڈالا اور مجھ سے فرمایا کہ پیو! میں نے عرض کیا کہ میں نہ پیوں گا جب تک اللہ کے رسول آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ پئیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قوم کا پلانے والا سب کے آخر میں پیتا ہے۔ پھر میں نے پیا (راوی نے) کہا کہ پھر لوگ پانی پر خوش خوش اور آسودہ پہنچے (راوی نے) کہا کہ عبداللہ بن رباح نے کہا کہ میں جامع مسجد میں لوگوں سے یہی حدیث بیان کرتا تھا کہ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے جوان غور کرو کہ تم کیا کہتے ہو، اس لئے کہ میں اس رات کا ایک سوار تھا۔ کہتے ہیں کہ میں نے کہا پھر تو آپ اس حدیث سے خوب واقف ہوں گے انہوں نے کہا کہ تم کس قوم سے ہو؟ میں نے کہا میں انصار میں سے ہوں۔ انہوں نے کہا بیان کرو کہ تم تو اپنی حدیثوں کو خوب جانتے ہو۔ پھر میں نے لوگوں سے پوری روایت بیان کی۔ تب سیدنا عمران رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں بھی اس رات حاضر تھا مگر میں نہیں جانتا کہ جیسا تم نے یاد رکھا ایسا اور کسی نے یاد رکھا ہو۔