فاتح ایران سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے مؤذن کی اذان سن کر یہ کہا کہ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی دوسرا معبود نہیں ہے، اللہ تعالیٰ یکتا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں، میں اللہ کی ربوبیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سے مسرور اور خوش ہوں اور میں نے مذہب اسلام کو قبول کر لیا ہے تو ایسے شخص کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ پوچھنے کی ممانعت کر دی گئی تھی تو ہمیں اچھا معلوم ہوتا کہ دیہات میں رہنے والوں میں سے کوئی عقلمند شخص آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھے اور ہم سنیں، تو دیہات میں رہنے والوں میں سے ایک شخص آیا اور کہنے گا کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ کا ایلچی ہمارے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ کہتے ہیں کہ آپ کو اللہ نے بھیجا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس ایلچی نے سچ کہا۔ وہ شخص بولا تو آسمان کس نے پیدا کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے، اس نے کہا کہ زمین کس نے پیدا کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے، پھر اس نے کہا کہ پہاڑوں کو کس نے کھڑا کیا اور ان میں جو چیزیں ہیں وہ کس نے پیدا کیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ نے، تب اس شخص نے کہا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آسمان کو پیدا کیا اور زمین بنائی اور پہاڑوں کو کھڑا کیا، کیا سچ مچ اللہ تعالیٰ نے ہی آپ کو بھیجا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ پھر وہ شخص بولا کہ آپ کے ایلچی نے کہا کہ ہم پر ہر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں، آپ نے فرمایا کہ اس نے سچ کہا وہ شخص بولا کہ قسم ہے اس کی جس نے آپ کو بھیجا ہے کیا اللہ نے آپ کو ان نمازوں کا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں پھر وہ شخص بولا کہ آپ کے ایلچی نے کہا کہ ہم پر ہمارے مالوں کی زکوٰۃ ہے، آپ نے فرمایا کہ اس نے سچ کہا۔ وہ شخص بولا کہ قسم اس کی جس نے آپ کو بھیجا ہے، کیا اللہ نے آپ کو زکوٰۃ کا حکم کیا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ پھر وہ شخص بولا کہ آپ کے ایلچی نے کہا کہ ہم پر سال میں رمضان کے روزے فرض ہیں، آپ نے فرمایا کہ اس نے سچ کہا۔ وہ شخص بولا کہ قسم اس کی جس نے آپ کو بھیجا ہے کیا اللہ نے آپ کو ان روزوں کا حکم کیا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ پھر وہ شخص بولا کہ آپ کے ایلچی نے کہا کہ ہم میں سے جو کوئی راہ چلنے کی طاقت رکھے (یعنی خرچ راہ اور سواری ہو اور راستہ میں امن ہو اس وقت) اس پر بیت اللہ کا حج فرض ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس نے سچ کہا۔ یہ سن کر وہ شخص پیٹھ موڑ کر چلا اور کہنے لگا کہ قسم ہے اس کی جس نے آپ کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا ہے، میں ان باتوں سے زیادہ کروں گا اور نہ ہی کم۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ سچا ہے تو جنت میں جائے گا۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نماز حضر میں بھی اور سفر میں بھی دو دو رکعت فرض کی گئی تھی، پھر سفر کی نماز تو ویسی ہی رہی اور حضر کی نماز بڑھا دی گئی۔ زہری (راوی) نے کہا کہ میں نے عروہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سفر میں پوری نماز کیوں پڑھتی تھیں؟ (یعنی ان کے نزدیک تو دو ہی رکعت فرض تھیں) تب انہوں نے کہا کہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے وہی تاویل کی جو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کی تھی (یعنی سفر میں قصر کرنا رخصت ہے اور پوری پڑھنا جائز ہے)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانچوں نمازیں اور جمعہ، جمعہ تک بیچ کے گناہوں کا کفارہ ہیں جب تک کبیرہ گناہ نہ کرے اور ایک روایت میں ہے کہ رمضان، رمضان تک کفارہ ہے ان گناہوں کا جو اس کے بیچ میں ہوں، جب تک کبیرہ گناہ نہ کرے۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ (مومن) آدمی اور کفر و شرک کے درمیان، نماز چھوڑنے کا فرق ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ظہر کا وقت سورج ڈھلنے سے شروع ہوتا ہے اور آدمی کا سایہ اس کی لمبائی کے برابر ہونے تک، جب تک کہ عصر کا وقت نہ آئے رہتا ہے۔ اور عصر کا وقت تب تک رہتا ہے کہ آفتاب زرد نہ ہو اور وقت مغرب جب تک رہتا ہے کہ شفق غائب نہ ہو اور وقت عشاء کا جب تک رہتا ہے کہ بیچ کی آدھی رات نہ ہو اور وقت نماز فجر کا طلوع فجر سے جب تک ہے کہ آفتاب نہ نکلے۔ پھر جب آفتاب نکل آئے تو نماز سے رکا رہے، اس لئے کہ وہ شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان سے نکلتا ہے۔
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک سائل حاضر ہوا اور نماز کے اوقات پوچھنے لگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کچھ جواب نہ دیا (اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کر کے بتانا منظور تھا) پھر (فجر کے وقت) بلال کو (اقامت کا) حکم دیا اور فجر طلوع ہونے کے ساتھ ہی نماز فجر ادا کی اور لوگ ایک دوسرے کو پہچانتے نہ تھے (یعنی اندھیرے کے سبب سے) پھر حکم کیا اور ظہر ادا کی جب آفتاب ڈھل گیا اور کہنے والا کہتا تھا کہ دن کا آدھا حصہ گزر گیا ہے (یعنی ابھی تو دوپہر ہے) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بہتر جانتے تھے۔ پھر ان کو حکم کیا اور عصر کی نماز ادا کی اور سورج بلند تھا۔ پھر ان کو حکم کیا اور مغرب ادا کی جب سورج ڈوب گیا۔ پھر ان کو حکم کیا اور عشاء ادا کی جب شفق ڈوب گئی۔ پھر دوسرے دن فجر کا حکم کیا اور جب اس سے فارغ ہوئے تو کہنے والا کہتا تھا کہ سورج نکل آیا، یا نکلنے کو ہے۔ پھر ظہر میں تاخیر کی یہاں تک کہ کل کے عصر کے پڑھنے کا وقت قریب ہو گیا۔ پھر عصر میں تاخیر کی یہاں تک کہ جب فارغ ہوئے تو کہنے والا کہتا تھا کہ آفتاب سرخ ہو گیا۔ پھر مغرب میں تاخیر کی یہاں تک کہ شفق ڈوبنے کے قریب ہو گئی۔ پھر عشاء میں تاخیر کی یہاں تک کہ اول تہائی رات ہو گئی پھر صبح ہوئی اور سائل کو بلایا اور فرمایا کہ نماز کے وقت ان دونوں وقتوں کے بیچ میں ہیں۔
محمد بن عمرو کہتے ہیں کہ جب حجاج مدینہ میں آیا تو ہم نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے (اوقات نماز کے متعلق) پوچھا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز دوپہر کے وقت اور نہایت گرمی میں (یعنی بعد زوال کے) پڑھا کرتے تھے اور عصر ایسے وقت میں پڑھا کرتے تھے کہ آفتاب صاف ہوتا اور مغرب جب آفتاب ڈوب جاتا، پھر پڑھتے اور عشاء میں کبھی تاخیر کرتے اور کبھی اول وقت پڑھتے۔ جب دیکھتے کہ لوگ جمع ہو گئے ہیں تو اول وقت پڑھتے اور جب دیکھتے کہ لوگوں نے آنے میں دیر کی ہے، تو دیر کرتے اور صبح کی نماز اندھیرے میں ادا کرتے تھے۔
ابوبکر بن عمارہ بن رؤیبہ اپنے والد سیدنا عمارہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ وہ شخص کبھی دوزخ میں داخل نہ ہو گا جس نے طلوع آفتاب سے پہلے اور غروب آفتاب سے پہلے کی نماز ادا کی یعنی فجر اور عصر کی۔ بصرہ والوں میں سے ایک شخص نے کہا کہ تم نے اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں۔ اس نے کہا کہ میں بھی گواہی دیتا ہوں کہ میں نے بھی اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ اس (بات) کو میرے کانوں نے سنا اور میرے دل نے یاد رکھا ہے۔ (ظاہر ہے کہ جو یہ مشکل نمازیں پڑھتا ہے تو باقی نمازوں کو بھی ضرور پڑھے گا)۔
سیدنا ابوبکر بن ابوموسیٰ اشعری اپنے والد سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص دو ٹھنڈی نمازیں پڑھ لے گا، وہ جنت میں داخل ہو گا۔