سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھ سے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک شخص نے وضو کیا اور ناخن برابر اپنے پاؤں میں کسی جگہ کو سوکھا چھوڑ دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دیکھا تو فرمایا کہ جا اور اچھی طرح وضو کر کے آ۔ چنانچہ وہ لوٹ گیا، پھر آ کر نماز پڑھی۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مد سے وضو کرتے اور ایک صاع سے لے کر پانچ مد تک غسل کرتے تھے۔ (ایک صاع اڑھائی کلو کا ہوتا ہے اور ”مد“ ایک صاع کا چوتھا حصہ ہے)۔
ہمام سے روایت ہے کہ سیدنا جریر رضی اللہ عنہ نے پیشاب کیا، پھر وضو کیا اور موزوں پر مسح کیا۔ لوگوں نے کہا کہ تم ایسا کرتے ہو؟ انہوں نے کہا ہاں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشاب کیا، پھر وضو کیا اور دونوں موزوں پر مسح کیا۔ اعمش نے کہا کہ ابراہیم نے کہا کہ لوگوں کو یہ حدیث بہت بھلی معلوم ہوتی تھی کیونکہ جریر سورۃ المائدہ (جس میں وضو میں پاؤں دھونے کا بیان ہے) کے اترنے کے بعد مسلمان ہوئے تھے۔
سیدنا ابووائل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ پیشاب کے معاملہ میں نہایت سختی کرتے تھے حتیٰ کہ شیشی میں پیشاب کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ بنی اسرائیل میں جب کسی کے بدن کو پیشاب لگ جاتا تو وہ (قینچیوں سے) کھال کترتا تھا۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ ایسی سختی نہ کرتے تو بہتر تھا (کیونکہ) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قوم کے گھورے (یعنی کوڑے کرکٹ کی جگہ) پر آئے اور دیوار کے پیچھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے جس طرح تم میں سے کوئی کھڑا ہوتا ہے، پھر پیشاب کیا۔ میں دور ہٹا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا کہ میرے پاس آ، یہاں تک کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایڑیوں کے پاس کھڑا رہا، جب تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب سے فارغ نہ ہوئے۔ ایک روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ پھر وضو کیا اور دونوں موزوں پر مسح کیا۔
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے پاس پانی ہے؟ میں نے کہا جی ہاں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر سے اترے اور چلے یہاں تک کہ اندھیری رات میں نظروں سے چھپ گئے۔ پھر لوٹ کر آئے تو میں نے ڈول سے پانی ڈالا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ دھویا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اون کا جبہ پہن رکھا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہاتھ آستینوں سے باہر نکالنا مشکل ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیچے سے ہاتھوں کو باہر نکال کر دھویا اور سر پر مسح کیا۔ پھر میں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے موزے اتارنے کیلئے جھکا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رہنے دو۔ میں نے ان کو طہارت پر پہنا ہے اور ان دونوں پر بھی مسح کیا۔
شریح بن ہانی سے روایت ہے کہ میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس، ان سے موزوں پر مسح کے بارے میں پوچھنے آیا تو انہوں نے کہا کہ تم ابوطالب کے بیٹے (یعنی علی رضی اللہ عنہ) سے پوچھو (اس لئے کہ) وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کیا کرتے تھے۔ ہم نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسافر کیلئے مسح کی مدت تین دن تین رات مقرر فرمائی اور مقیم کیلئے ایک دن رات۔
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں پیچھے رہ گئے اور میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیچھے رہ گیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حاجت سے فارغ ہوئے تو دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے پاس پانی ہے؟ چنانچہ میں پانی کا ایک لوٹا لے آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ دھوئے اور منہ دھویا۔ پھر بازو آستینوں سے نکالنا چاہے تو آستین تنگ ہو گئی (یعنی نہ نکال سکے) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیچے سے ہاتھ کو نکالا اور جبہ کو اپنے مونڈھوں پر ڈال دیا اور دونوں ہاتھ دھوئے اور پیشانی، عمامہ اور موزوں پر مسح کیا۔ پھر سوار ہوئے تو میں بھی سوار ہوا۔ جب اپنے لوگوں میں پہنچے، تو وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ان کو نماز پڑھا رہے تھے اور وہ ایک رکعت پڑھ چکے تھے۔ ان کو جب معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں، تو وہ پیچھے ہٹنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا کہ اپنی جگہ پر رہو۔ پھر انہوں نے نماز پڑھائی۔ جب سلام پھیرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور میں بھی کھڑا ہوا اور ایک رکعت جو ہم سے پہلے ہو چکی تھی پڑھ لی۔
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھیں اور موزوں پر مسح کیا۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ نے آج وہ کام کیا جو کبھی نہیں کیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے قصداً ایسا کیا ہے۔
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگوں کو اونٹ چرانے کا کام تھا، میری باری آئی تو میں اونٹوں کو چرا کر شام کو ان کے رہنے کی جگہ لے کر آیا تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے لوگوں کو وعظ سنا رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو مسلمان اچھی طرح وضو کرے، پھر کھڑا ہو کر دو رکعتیں پڑھے، اپنے دل کو اور منہ کو لگا کر (یعنی ظاہراً اور باطناً متوجہ رہے، نہ دل میں دنیا کا خیال لائے نہ منہ ادھر ادھر پھرائے) اس کے لئے جنت واجب ہو جائے گی۔ میں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا عمدہ بات فرمائی (جس کا ثواب اس قدر بڑا ہے اور محنت بہت کم ہے)۔ اس پر ایک کہنے والا میرے سامنے کہہ رہا تھا کہ پہلی بات اس سے بھی عمدہ تھی۔ میں نے غور سے دیکھا تو وہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں تجھے دیکھ رہا تھا کہ تو ابھی ابھی آیا ہے۔ (لہٰذا یہ بھی سن لے کہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جو کوئی تم میں سے اچھی طرح، پورا وضو کرے، پھر کہے (ترجمہ)”میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی عبادت کے لائق نہیں سوائے اللہ کے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کے بندے اور بھیجے ہوئے ہیں“۔ تو اس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جائیں گے کہ جس دروازے سے چاہے (جنت میں) داخل ہو جائے۔