سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص اپنے آپ کو کسی اور کا بیٹا کہے اور وہ جانتا ہو کہ وہ اس کا بیٹا نہیں ہے (یعنی جان بوجھ کر اپنے باپ کے سوا کسی اور کو باپ بتلائے) وہ کافر ہو گیا اور جس شخص نے اس چیز کا دعویٰ کیا جو اس کی نہیں ہے تو وہ ہم میں سے نہیں ہے اور وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے اور جو شخص کسی کو کافر کہہ کر بلاوے یا اللہ تعالیٰ کا دشمن کہہ کر، پھر وہ شخص کہ جسے اس نام سے پکارا گیا ہے ایسا (یعنی کافر) نہ ہو تو وہ کفر پکارنے والے پر پلٹ آئے گا۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ! اللہ کے نزدیک بڑا گناہ کون سا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کہ تو کسی کو اللہ تعالیٰ کا شریک کرے حالانکہ تجھے اللہ (ہی) نے پیدا کیا۔ اس نے کہا پھر کون سا (گناہ بڑا ہے)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کہ تو اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کرے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی۔ اس نے کہا پھر کون سا (گناہ بڑا ہے)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کہ تو اپنے ہمسایہ کی عورت سے زنا کرے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس حدیث کی تصدیق میں یہ آیت نازل فرمائی کہ ”اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی ایسے شخص کو جسے قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے منع کر دیا ہو وہ بجز حق کے قتل نہیں کرتے، نہ وہ زنا کے قریب جاتے ہیں اور جو کوئی یہ کام کرے وہ اپنے اوپر سخت وبال لائے گا“(سورۃ: الفرقان: 68)۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! دو واجب کر دینے والی چیزیں کیا کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کو اس حال میں موت آئے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو، وہ جنت میں جائے گا اور جس کو اس حال میں موت آئے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرتا ہو، وہ جہنم میں داخل ہو گا۔
سیدنا ابوالاسود الدیلی سے روایت ہے کہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے ان سے یہ بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفید کپڑے اوڑھے ہوئے سو رہے تھے (میں واپس لوٹ گیا)۔ جب دوبارہ آیا تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہوئے تھے۔ جب تیسری بار آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ چکے تھے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص لا الٰہ الا اللہ کہے (یعنی اللہ کی توحید کا عقیدہ رکھے اور پھر اسی پر) وہ فوت ہو جائے تو جنت میں جائے گا۔ میں نے کہا یا رسول اللہ! اگرچہ اس سے چوری اور زنا بھی ہو جائے، پھر بھی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ہاں اگرچہ اس سے زنا اور چوری بھی ہو جائے“ چنانچہ میں نے تین بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی سوال کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تینوں مرتبہ یہی جواب دیا اور چوتھی مرتبہ فرمایا ”ہاں وہ جنت میں داخل ہو گا اگرچہ ابوذر (رضی اللہ عنہ) کی ناک مٹی میں مل جائے“ پھر سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ یہ کہتے ہوئے نکلے کہ اگرچہ ابوذر کی ناک خاک آلود ہو۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص جنت میں نہ جائے گا جس کے دل میں رتی برابر بھی غرور اور گھمنڈ ہو گا۔ ایک شخص بولا کہ ہر ایک آدمی چاہتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو اور اس کا جوتا (اوروں سے) اچھا ہو، (تو کیا یہ بھی غرور اور گھمنڈ ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی پسند کرتا ہے۔ غرور اور گھمنڈ یہ ہے کہ انسان حق کو ناحق کرے (یعنی اپنی بات کی پچ یا نفسانیت سے ایک بات واجبی اور صحیح ہو تو اس کو رد کرے اور نہ مانے) اور لوگوں کو حقیر سمجھے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں میں دو باتیں موجود ہیں اور وہ دونوں کفر ہیں۔ ایک نسب میں طعن کرنا اور دوسرا میت پر چلا کر رونا (اس کے اوصاف بیان کرنا، جسے نوحہ کرنا کہتے ہیں)۔
سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صبح کی نماز حدیبیہ میں (جو مکہ کے قریب ایک مقام کا نام ہے) پڑھائی اور رات کو بارش ہوئی تھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا؟ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ میرے بندوں میں سے بعضوں کی صبح تو ایمان پر ہوئی اور بعضوں کی کفر پر۔ تو جس نے یہ کہا کہ بارش اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہوئی تو وہ تاروں کے بارش برسانے کا منکر ہوا اور مجھ پر ایمان لایا اور جس نے کہا کہ بارش تاروں کی گردش کی وجہ سے ہوئی تو اس نے میرے ساتھ کفر کیا اور تاروں پر ایمان لایا۔
شعبی سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جو غلام اپنے مالک سے بھاگ جائے تو وہ کافر ہو گیا (یہاں کفر سے مراد ناشکری ہے کیونکہ اس نے مالک کا حق ادا نہ کیا) جب تک لوٹ کر ان کے پاس نہ آئے۔ منصور نے کہا کہ اللہ کی قسم یہ حدیث تو مرفوعاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے لیکن (میں نے یہاں مرفوعاً بیان نہیں کی بلکہ سیدنا جریر کا قول بتایا) مجھے برا معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث مجھ سے اس جگہ بصرہ میں بیان کی جائے۔
سیدنا جریر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب غلام (اپنے مالک کے پاس سے) بھاگ جائے تو اس کی نماز قبول نہ ہو گی۔
سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم چپکے سے نہیں بلکہ پکار کر فرماتے تھے کہ فلاں کی اولاد میری عزیز نہیں بلکہ میرا مالک یعنی دوست اللہ ہے اور میرے عزیز وہ مومن ہیں جو نیک ہوں۔