صنابحی، سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں ان کے پاس گیا اور وہ اس وقت قریب المرگ تھے۔ میں رونے لگا تو انہوں نے کہا کہ ٹھہرو، روتے کیوں ہو؟ اللہ کی قسم اگر میں گواہ بنایا جاؤں گا تو تیرے لئے (ایمان کی) گواہی دوں گا اور اگر میری سفارش کام آئے گی تو تیری سفارش کروں گا اور اگر مجھے طاقت ہو گی تو تجھ کو فائدہ دوں گا۔ پھر کہا اللہ کی قسم نہیں کوئی ایسی حدیث جو کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی اور اس میں تمہاری بھلائی تھی مگر یہ کہ میں نے اسے تم سے بیان کر دیا البتہ ایک حدیث میں نے اب تک بیان نہیں کی، وہ آج بیان کرتا ہوں اس لئے کہ میری جان جانے کو ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جو شخص گواہی دے (یعنی دل سے یقین کرے اور زبان سے اقرار) کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور بیشک محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں تو اللہ تعالیٰ اس پر جہنم کو حرام کر دے گا۔ (یعنی ہمیشہ جہنم میں رہنے کو یا جہنم کے اس طبقہ کو جس میں ہمیشہ رہنے والے کافر ڈالے جائیں گے)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد بیٹھے تھے اور ہمارے ساتھ اور آدمیوں میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے (اور باہر تشریف لے گئے) پھر آپ نے ہمارے پاس آنے میں دیر لگائی تو ہم کو ڈر ہوا کہ کہیں دشمن آپ کو اکیلا پا کر مار نہ ڈالیں۔ ہم گھبرا گئے اور اٹھ کھڑے ہوئے۔ سب سے پہلے میں گھبرایا تو میں آپ کو ڈھونڈنے کیلئے نکلا اور بنی نجار کے باغ کے پاس پہنچا۔ (بنی نجار انصار کے قبیلوں میں سے ایک قبیلہ تھا) اس کے چاروں طرف دروازہ کو دیکھتا ہوا پھرا کہ دروازہ پاؤں تو اندر جاؤں (کیونکہ گمان ہوا کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے اندر تشریف لے گئے ہوں) دروازہ ملا ہی نہیں۔ (شاید اس باغ میں دروازہ ہی نہ ہو گا یا اگر ہو گا تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو گھبراہٹ میں نظر نہ آیا ہو گا) دیکھا کہ باہر کنوئیں میں سے ایک نالی باغ کے اندر جاتی ہے، میں لومڑی کی طرح سمٹ کر اس نالی کے اندر گھسا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا ابوہریرہ ہے؟ میں نے عرض کیا جی یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ ہم لوگوں میں تشریف رکھتے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر چلے آئے اور واپس آنے میں دیر لگائی تو ہمیں ڈر ہوا کہ کہیں دشمن آپ کو ہم سے جدا دیکھ کر نہ ستائیں، ہم گھبرا گئے اور سب سے پہلے میں گھبرا کر اٹھا اور اس باغ کے پاس آیا (دروازہ نہ ملا) تو اس طرح سمٹ کر گھس آیا جیسے لومڑی اپنے بدن کو سمیٹ کر گھس جاتی ہے اور سب لوگ میرے پیچھے آئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابوہریرہ! اور مجھے اپنے جوتے (نشانی کیلئے) دئیے (تاکہ لوگ میری بات کو سچ سمجھیں) اور فرمایا کہ میری یہ دونوں جوتیاں لے جا اور جو کوئی تجھے اس باغ کے پیچھے ملے اور وہ اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور اس بات پر دل سے یقین رکھتا ہو تو اس کو یہ سنا کر خوش کر دے کہ اس کیلئے جنت ہے۔ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں جوتیاں لے کر چلا) تو سب سے پہلے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملا۔ انہوں نے پوچھا کہ اے ابوہریرہ یہ جوتیاں کیسی ہیں؟ میں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتیاں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دے کر مجھے بھیجا ہے کہ میں جس سے ملوں اور وہ لا الٰہ الا اللہ کی گواہی دیتا ہو، دل سے یقین کر کے، تو اس کو جنت کی خوشخبری دوں۔ یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک ہاتھ میری چھاتی کے بیچ میں مارا تو میں سرین کے بل گرا۔ پھر کہا کہ اے ابوہریرہ! لوٹ جا۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوٹ کر چلا گیا اور رونے والا ہی تھا کہ میرے ساتھ پیچھے سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی آ پہنچے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابوہریرہ! تجھے کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ میں عمر رضی اللہ عنہ سے ملا اور جو پیغام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دے کر بھیجا تھا پہنچایا تو انہوں نے میری چھاتی کے بیچ میں ایسا مارا کہ میں سرین کے بل گر پڑا اور کہا کہ لوٹ جا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تو نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔ ابوہریرہ کو آپ نے اپنی جوتیاں دے کر بھیجا تھا کہ جو شخص ملے اور وہ گواہی دیتا ہو لا الٰہ الا اللہ کی دل سے یقین رکھ کر تو اسے جنت کی خوشخبری دو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ (آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں) ایسا نہ کیجئے کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ لوگ اس پر تکیہ کر بیٹھیں گے، ان کو عمل کرنے دیجئیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا ان کو عمل کرنے دو۔
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں سواری پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ پیچھے بیٹھا ہوا تھا، میرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان سوائے پالان کی پچھلی لکڑی کے کچھ نہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے معاذ بن جبل! میں نے عرض کیا کہ میں حاضر ہوں آپ کی خدمت میں اور آپ کا فرمانبردار ہوں یا رسول اللہ! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر چلے اس کے بعد فرمایا کہ اے معاذ بن جبل! میں نے کہا یا رسول اللہ! فرمانبردار آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر چلے اس کے بعد فرمایا کہ اے معاذ بن جبل! میں نے کہا یا رسول اللہ! فرمانبردار آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو جانتا ہے اللہ کا حق بندوں پر کیا ہے؟ میں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ پھر آپ تھوڑی دیر چلے پھر فرمایا کہ اے معاذ بن جبل! میں نے کہا یا رسول اللہ! میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں اور آپ کا فرمانبردار ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو جانتا ہے کہ جب بندے یہ کام کریں تو ان کا اللہ پر کیا حق ہے؟ جب بندے یہ کام کریں (یعنی اسی کی عبادت کریں، کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ کریں) میں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ حق یہ ہے کہ اللہ ان کو عذاب نہ کرے۔
سیدنا محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ سیدنا عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں مدینہ میں آیا تو عتبان سے ملا اور میں نے کہا کہ ایک حدیث ہے جو مجھے تم سے پہنچی ہے (پس تم اسے بیان کرو) عتبان نے کہا کہ میری نگاہ میں فتور ہو گیا (دوسری روایت میں ہے کہ وہ نابینا ہو گئے اور شاید ضعف بصارت مراد ہو) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کہلا بھیجا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے مکان پر تشریف لا کر کسی جگہ نماز پڑھیں تاکہ میں اس جگہ کو مصلیٰ بنا لوں (یعنی ہمیشہ وہیں نماز پڑھا کروں اور یہ درخواست اس لئے کی کہ آنکھ میں فتور ہو جانے کی وجہ سے مسجدنبوی میں آنا دشوار تھا) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور جن کو اللہ نے چاہا اپنے اصحاب میں سے ساتھ لائے۔ آپ اندر آئے اور نماز پڑھنے لگے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ (منافقوں کا ذکر چھڑ گیا تو ان کا حال بیان کرنے لگے اور ان کی بری باتیں اور بری عادتیں ذکر کرنے لگے) پھر انہوں نے بڑا منافق مالک بن دخشم کو کہا (یا مالک بن دخیشم یا مالک بن دخشن یا دخیشن) اور چاہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کیلئے بددعا کریں اور وہ مر جائے اور اس پر کوئی آفت آئے (تو معلوم ہوا کہ بدکاروں کے تباہ ہونے کی آرزو کرنا برا نہیں) اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے اور فرمایا کہ کیا وہ (یعنی مالک بن دخشم) اس بات کی گواہی نہیں دیتا کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ صحابہ نے عرض کیا وہ تو اس بات کو زبان سے کہتا ہے لیکن دل میں اس کا یقین نہیں رکھتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو سچے دل سے لا الٰہ الا اللہ کی گواہی دے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھر وہ جہنم میں نہ جائے گا یا اس کو انگارے نہ کھائیں گے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ حدیث مجھے بہت اچھی معلوم ہوئی تو میں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اس کو لکھ لے، پس اس نے لکھ لیا۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ لوگ عبدالقیس (قبیلہ عبدالقیس) کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! ہم ربیعہ کی ایک شاخ ہیں، اور ہمارے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیچ میں قبیلہ مضر کے کافر ہیں اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حرام مہینوں کے علاوہ (کسی اور مہینے میں) نہیں آ سکتے تو ہمیں ایسے کام کا حکم کیجئے کہ جسے ہم ان لوگوں کو بتلائیں جو ہمارے پیچھے (رہ گئے) ہیں اور ہم اس کام کی وجہ سے جنت میں جائیں، جب کہ ہم اس پر عمل کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں چار چیزوں کا حکم کرتا ہوں اور چار چیزوں سے منع کرتا ہوں (جن چار چیزوں کا حکم کرتا ہوں وہ یہ ہیں کہ) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور رمضان کے روزے رکھو اور غنیمت کے مالوں میں سے پانچواں حصہ ادا کرو اور میں تمہیں چار چیزوں سے منع کرتا ہوں۔ کدو کے تونبے اور سبز لاکھی برتن اور روغنی برتن اور نقیر سے۔ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ! نقیر آپ نہیں جانتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہیں جانتا، نقیر ایک لکڑی ہے، جسے تم کھود لیتے ہو، پھر اس میں قطیعا (ایک قسم کی چھوٹی کھجور، اس کو شریر بھی کہتے ہیں) بھگوتے ہو۔ سعید نے کہا یا ”تمر“ بھگوتے ہو۔ پھر اس میں پانی ڈالتے ہو۔ جب اس کا جوش تھم جاتا ہے تو اس کو پیتے ہو یہاں تک کہ تم میں سے ایک اپنے چچا کے بیٹے کو تلوار سے مارتا ہے (نشہ میں آ کر جب عقل جاتی رہتی ہے تو دوست دشمن کی شناخت نہیں رہتی، اپنے بھائی کو جس کو سب سے زیادہ چاہتا ہے تلوار سے مارتا ہے۔ شراب کی برائیوں میں سے یہ ایک بڑی برائی ہے، جسے آپ نے بیان کیا) راوی نے کہا کہ ہمارے لوگوں میں اس وقت ایک شخص موجود تھا (جس کا نام جہم تھا) اس کو اسی نشہ کی وجہ سے ایک زخم لگ چکا تھا اس نے کہا لیکن میں اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شرم کے مارے چھپاتا تھا۔ میں نے کہا یا رسول اللہ! پھر کس برتن میں ہم شربت پئیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چمڑے کی مشقوں میں پیو، جن کا منہ (ڈوری یا تسمے سے) باندھا جاتا ہے۔ لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! ہمارے ملک میں چوہے بہت ہیں، وہاں چمڑے کے برتن نہیں رہ سکتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چمڑے کے برتنوں میں پیو اگرچہ چوہے ان کو کاٹ ڈالیں، اگرچہ ان کو چوہے کاٹ ڈالیں، اگرچہ ان کو چوہے کاٹ ڈالیں۔ (یعنی جس طور سے ہو سکے چمڑے ہی کے برتن میں پیو، چوہوں سے حفاظت کرو لیکن ان برتنوں میں پینا درست نہیں کیونکہ وہ شراب کے برتن ہیں) راوی نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالقیس کے اشج سے فرمایا کہ تجھ میں دو خصلتیں ایسی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے، ایک تو عقلمندی اور دوسری سہولت اور اطمینان۔ (یعنی جلدی نہ کرنا)۔
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا عمل افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا۔ میں نے کہا کون سا بندہ آزاد کرنا افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو بندہ اس کے مالک کو عمدہ معلوم ہو اور جس کی قیمت بھاری ہو۔ میں نے کہا کہ اگر میں یہ نہ کر سکوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو کسی صانع کی مدد کر یا کسی بے ہنر شخص کیلئے مزدوری کر (یعنی جو کوئی کام اور پیشہ نہ جانتا ہو اور روٹی کا محتاج ہو) میں نے کہا اگر میں خود ناتواں ہوں؟ (یعنی کام نہ کر سکوں یا کوئی کسب نہ کر سکوں؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو کسی سے برائی نہ کر، یہی تیرا اپنے نفس پر صدقہ ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ تم سے علم کی باتیں پوچھتے رہیں گے یہاں تک کہ یہ کہیں گے اللہ نے تو ہمیں پیدا کیا، پھر اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ راوی نے کہا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس حدیث کو بیان کرتے وقت ایک شخص کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا سچ کہا اللہ اور اس کے رسول نے، مجھ سے دو آدمی یہی پوچھ چکے اور یہ تیسرا ہے یا یوں کہا کہ ایک آدمی پوچھ چکا ہے اور یہ دوسرا ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تھا کہ اے ابوہریرہ! (رضی اللہ عنہ) لوگ تجھ سے (دین کی باتیں) پوچھتے رہیں گے یہاں تک کہ یوں کہیں گے کہ بھلا اللہ تو یہ ہے اب اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ کہتے ہیں کہ ایک بار میں مسجد میں بیٹھا تھا کہ اتنے میں کچھ دیہاتی آئے اور کہنے لگے کہ اے ابوہریرہ! اللہ تو یہ ہے، اب اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ یہ سن کر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ایک مٹھی بھر کنکریاں ان کو ماریں اور کہا کہ اٹھو، اٹھو! سچ کہا تھا میرے دوست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔
سیدنا سفیان بن عبداللہ الثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے کہا یا رسول اللہ! مجھے اسلام میں ایک ایسی بات بتا دیجئیے کہ پھر میں اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد (اور ابواسامہ کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا) کسی سے نہ پوچھوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کہہ میں اللہ پر ایمان لایا پھر اس پر قائم رہ۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر ایک پیغمبر کو وہی معجزے ملے ہیں جو اس سے پہلے دوسرے پیغمبر کو مل چکے تھے پھر ایمان لائے اس پر آدمی لیکن مجھے جو معجزہ ملا وہ قرآن ہے جو اللہ نے میرے پاس بھیجا (ایسا معجزہ کسی پیغمبر کو نہیں ملا) اس لئے میں امید کرتا ہوں کہ میری پیروی کرنے والے قیامت کے دن سب سے زیادہ ہوں گے۔