ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ایک لشکر کا سردار بنا کر روانہ کیا۔ وہ شخص جب نماز پڑھاتے تو ((قل ھو اﷲ احد)) پر قرآت مکمل کرتے۔ جب یہ لوگ واپس ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے انھوں نے اس کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان سے پوچھو کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟“ لوگوں نے ان سے پوچھا تو انھوں نے کہا (کہ میں اس لیے اس کو زیادہ پڑھتا ہوں کہ) یہ رحمن (یعنی اللہ تعالیٰ) کی صفت ہے اور میں اس کے پڑھنے کو محبوب رکھتا ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس سے کہہ دو کہ اللہ اس کو محبوب رکھتا ہے۔“
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اذیت کی بات کو سن کر صبر کرنے والا اللہ سے زیادہ کوئی نہیں ہے، لوگ اس کے لیے بیٹا بناتے ہیں اور وہ پھر ان کو عافیت سے رکھتا ہے اور رزق دیتا ہے۔
3. اللہ تعالیٰ کے فرامین ”اور وہ غلبہ اور حکمت والا ہے“ (سورۃ ابراہیم: 4)۔ ”پاک ہے آپ کا رب جو بہت بڑی عزت والا ہے، ہر اس چیز سے (جو مشرک) بیان کرتے ہیں“ (سورۃ الصافات: 180) ”سنو! عزت تو صرف اللہ کے لیے ہے اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے ہے“ (سورۃ المنافقون: 8)۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”اے پروردگار! میں تیری عزت کی پناہ مانگتا ہوں جس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ہے۔ پروردگار تجھ ہی کو موت نہیں ہے، باقی جنات اور آدمی، سب کو موت ہے۔“
4. اللہ تعالیٰ کے فرامین ”اللہ تعالیٰ تم کو اپنے آپ سے ڈراتا ہے۔“ (سورۃ آل عمران: 3) اور ”عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے دن کہیں گے کہ (اے اللہ!) جو میرے دل میں ہے وہ تو جانتا ہے لیکن جو تیرے دل میں ہے وہ میں نہیں جانتا۔“ (سورۃ المائدہ: 116)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے جب مخلوق کو پیدا کیا تو اپنی کتاب میں لکھا ہے یعنی اپنی نسبت اور وہ نوشتہ اس کے پاس عرش پر رکھا ہوا ہے کہ میری رحمت میرے غصے پر غالب ہے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ) میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں جو وہ میری بابت رکھے اور جب وہ مجھ کو یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں، اگر اس نے اپنے دل میں مجھ کو یاد کیا ہے تو میں بھی اس کو اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور اگر اس نے مجھ کو لوگوں کے سامنے یاد کیا ہے تو میں بھی اس کو لوگوں (یعنی فرشتوں) کے سامنے یاد کرتا ہوں اور اگر وہ میری طرف ایک بالشت آتا ہے تو میں اس کی طرف ایک گز جاتا ہوں اور اگر وہ میری طرف ایک گز آتا ہے تو میں اس کی طرف دو گز جاتا ہوں اور جو میری طرف چل کر آہستہ آہستہ آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر جاتا ہوں۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میرا بندہ برائی کرنے کا ارادہ کر لے تو (اے فرشتو!) تم اس کو مت لکھو جب تک کہ وہ اس کو کرے نہیں۔ پھر اگر کرے تو ایک برائی لکھ لو اور اگر میرے خوف سے اس کو ترک کر دے (یعنی اس برائی کو نہ کرے) تو اس کو بھی ایک نیکی لکھ لو اور جب وہ کسی نیکی کے کرنے کا ارادہ کرے اور اس کو کرے نہیں تو اس کو بھی ایک نیکی لکھ لو اور پھر اگر اس کو کرے تو اس کو دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک لکھو۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا ہے: ”جب بندہ گناہ کو پہنچتا ہے اور بعض دفعہ فرمایا: ”جب گناہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اے پروردگار! میں نے گناہ کیا ہے اور بعض دفعہ فرمایا (کہتا ہے کہ) میں گناہ کو پہنچا ہوں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا بندہ جانتا ہے کہ (کوئی) اس کا رب ہے جو اس کے گناہ معاف کرتا ہے اور اس سے مؤاخذہ کرتا ہے (جس کے خوف سے وہ پناہ مانگ رہا ہے) میں نے اپنے بندے کو معاف کر دیا پھر (تھوڑے دن) ٹھہر کر بندہ اور گناہ کو پہنچتا ہے یا گناہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اے پروردگار! میں نے گناہ کیا ہے یا میں گناہ کو پہنچا ہوں تو اس کو معاف فرما دے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا پروردگار ہے جو گناہ کو معاف کرتا ہے اور اس کا مؤاخذہ بھی کرتا ہے، میں نے اپنے بندے کو معاف کر دیا۔ پھر (تھوڑے دن) ٹھہر کر وہ پھر گناہ کرتا ہے یا فرمایا: ”گناہ کو پہنچتا ہے اور کہتا ہے کہ اے پروردگار! میں گناہ کو پہنچا ہوں یا میں نے گناہ کیا ہے پس تو اس کو معاف فرما دے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا بندہ جانتا ہے کہ یقیناً اس کا رب ہے جو گناہ کو معاف کرتا ہے اور مؤاخذہ کرتا ہے، میں نے اپنے بندے کو معاف فرما دیا پس وہ جو چاہے کرے۔“(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) تین مرتبہ فرمایا۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، فرماتے تھے کہ جب قیامت کا دن ہو گا تو میں شفاعت کروں گا (کہ اللہ، لوگوں کو میدان حشر کی ہولناکیوں سے نجات دے اور حساب شروع کرے) اور کہوں گا کہ اے رب! ان لوگوں کو جنت میں داخل کر جن کے دل میں رائی کے برابر ایمان ہے چنانچہ وہ لوگ داخل کیے جائیں گے۔ پھر میں کہوں گا کہ (اے اللہ!) ان کو بھی جنت میں داخل کر جن کے دل میں (انگلی سے اشارہ کر کے فرمایا) ذرہ بھر ایمان ہو۔“ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، گویا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی مبارک کو دیکھ رہا ہوں (جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا تھا)۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ ہی نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی شفاعت کے بارے میں طویل حدیث جو پہلے گزر چکی ہے اس میں اتنا زیادہ کیا ہے:”چنانچہ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس (شفاعت کے لیے) جائیں گے۔ وہ کہیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں لیکن تم ”محمد صلی اللہ علیہ وسلم “ کے پاس جاؤ۔ چنانچہ لوگ میرے پاس آئیں گے اور میں کہوں گا کہ ہاں میں اس لائق ہوں اور پھر میں اپنے پروردگار کے حضور میں حاضر ہونے کی اجازت چاہوں گا۔ مجھ کو اجازت ملے گی اور وہ مجھ کو اپنی تعریفیں اور محامد الہام فرمائے گا جن کے ساتھ میں اس کی ستائش کروں گا اور وہ (تعریفیں) مجھ کو اب یاد نہیں ہیں اور میں اس کے حضور میں سجدہ میں گر پڑوں گا۔ حکم ہو گا کہ اے محمد! سر اٹھاؤ اور کہو تمہاری بات سنی جائے گی اور مانگو، دیا جائے گا اور شفاعت کرو قبول ہو گی۔ میں کہوں گا کہ اے میرے پروردگار! میری امت میری امت۔ حکم ہو گا کہ دوزخ میں سے، جس کے دل میں ”جو“ کے برابر ایمان ہو ان کو نکال لو چنانچہ میں جاؤں گا اور ان کو نکالوں گا اور پھر واپس آؤں گا اور وہی تعریفیں اور محامد بجا لاؤں گا اور سجدے میں گر پڑوں گا۔ حکم ہو گا کہ اے محمد! سر اٹھاؤ اور کہو (جو کہو گے) سنا جائے گا اور جو مانگو گے، دیا جائے گا اور (جو) شفاعت کرو گے قبول ہو گی۔ میں عرض کروں گا کہ اے میرے پروردگار میری امت، میری امت۔ حکم ہو گا کہ دوزخ میں سے، جن کے دل میں ذرہ یا رائی کے برابر ایمان ہو ان کو اس میں سے نکال لو چنانچہ میں جاؤں گا اور ان کو نکالوں گا اور پھر لوٹ کر آؤں گا اور وہی محامد اور تعریفیں بجا لاؤں گا اور سجدے میں گر پڑوں گا۔ حکم ہو گا کہ اے محمد! اپنا سر اٹھاؤ اور کہو، سنا جائے گا اور مانگو دیا جائے گا اور شفاعت کرو، قبول ہو گی میں عرض کروں گا کہ اے پروردگار! میری امت، میری امت۔ حکم ہو گا کہ جاؤ اور جن کے دل میں رائی کے دانہ سے بھی کم بہت ہی کم، ایمان ہو ان کو بھی دوزخ سے نکال لو چنانچہ میں جاؤں گا اور ان کو بھی نکالوں گا۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ ہی سے دوسری ایک روایت میں مروی ہے(کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:)”پھر میں چوتھی مرتبہ آؤں گا اور وہی محامد اور تعریفیں بجا لاؤں گا اور پھر سجدہ میں گر پڑوں گا۔ حکم ہو گا کہ اے محمد! سر اٹھاؤ اور کہو (جو کہو گے) سنا جائے گا اور مانگو (جو مانگو) دیا جائے گا اور شفاعت کرو قبول ہو گی۔ میں کہوں گا کہ اے پروردگار! تو مجھ کو ان لوگوں کے لیے حکم دے جنہوں نے لا الہٰ الا اللہ (اللہ کے سوا کسی کی بندگی و اطاعت نہیں کروں گا) کہا ہے۔ اللہ فرمائے گا کہ قسم ہے مجھ کو اپنی عزت و جلال اور کبریائی و عظمت کی میں ان لوگوں کو دوزخ سے نکالوں گا جنہوں نے لا الہٰ الا اللہ کہا ہے۔