سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا، فرماتے تھے: ”قیامت کے دن سفید گیہوں کی روٹی جیسی صاف اور سفید زمین پر لوگوں کا حشر ہو گا سہل رضی اللہ عنہ یا کوئی دوسرے راوی کہتے ہیں کہ اس (زمین) میں کسی قسم کا کوئی نشان نہ ہو گا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ تین طریق سے لوگوں کا حشر کیا جائے گا۔ ایک (گروہ میں) تو امید رکھنے والے اور ڈرنے والے ہوں گے اور (دوسرا گروہ) ان لوگوں کا ہو گا جو دو دو اور تین تین اور چار چار اور دس دس ایک ایک اونٹ پر (سوار) ہوں گے اور باقی لوگوں کو آگ اکٹھا کرے گی، جہاں وہ آرام لیں گے وہیں وہ بھی آرام لے گی اور جہاں سے وہ رات گزاریں گے وہیں وہ بھی رات گزارے گی اور جہاں وہ صبح کریں گے وہیں وہ بھی صبح کرے گی اور جہاں وہ شام کریں گے وہیں وہ بھی شام کرے گی۔“(یعنی ان کو میدان حشر میں پہنچا دے گی)۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ننگے پاؤں، ننگے بدن، بغیر ختنہ کیے ہوئے اٹھائے جاؤ گے۔“ تو میں نے عرض کی یا رسول اللہ! مرد اور عورتیں ایک دوسرے (کے ستر) کو دیکھیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ وقت ایسا سخت ہو گا کہ اس چیز کا خیال بھی کوئی نہ کرے گا۔“
25. اللہ تعالیٰ کا فرمان: ”کیا انھیں اپنے مرنے کے بعد جی اٹھنے کا خیال نہیں، اس عظیم دن کے لیے جس دن سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے“ (سورۃ المطففین: 4 ... 6)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن لوگوں کو اس قدر پسینہ آئے گا کہ زمین پر پھیلے گا اور اس میں ستر گز تک نیچے چلا جائے گا (اتنی دور تک زمین اندر سے تر ہو جائے گیا) اور لوگ منہ تک اس پسینے میں غرق ہوں گے بلکہ آدھے آدھے کانوں تک۔“
سیدنا عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے پہلے جس چیز کا لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا وہ خون خرابے کا فیصلہ ہے۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب جنتی جنت میں چلے جائیں اور دوزخی دوزخ میں چلے جائیں گے تو موت کو لایا جائے گا یہاں تک کہ وہ جنت اور دوزخ کے درمیان میں لائی جائے گی پھر اس کو ذبح کر دیا جائے گا۔ پھر ایک منادی کرنے والا آواز لگائے گا کہ اے اہل جنت! (تم کو آج کے بعد) موت نہ آئے گی اور اے اہل جہنم! (تم کو بھی آج کے بعد) موت نہیں آئے گی (اس آواز سے) اہل جنت کو خوشی پر خوشی ہو گی اور اہل دوزخ کو رنج پر رنج ہو گا۔“
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اہل جنت سے فرمائے گا کہ اے اہل جنت! وہ کہیں گے۔ اے ہمارے رب! ہم حاضر ہیں، ہر کام کے لیے تیار ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تم راضی ہو؟ وہ عرض کریں گے کہ کیا اب بھی ہم خوش نہ ہوں گے حالانکہ تو نے ہمیں وہ وہ نعمتیں عنایت کی ہیں جو اپنی مخلوق میں سے کسی کو عنایت نہیں کیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں اس سے بھی بڑھ کر تم کو ایک چیز سے سرفراز فرماتا ہوں۔ جنتی عرض کریں گے کہ اے پروردگار! وہ کیا چیز ہے جو اس سے بھی بہتر ہے؟ اللہ جل شانہ فرمائے گا کہ میں اپنی رضامندی تمہیں عطا کرتا ہوں، اب میں کبھی تم سے ناراض نہیں ہوں گا۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(قیامت کے دن دوزخ میں) کافر کے دونوں شانوں (کندھوں) کے درمیان کی چوڑائی، تیز رفتار سوار کی تین دن کی مسافت کے برابر ہو گی۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چند لوگ (اپنے اپنے برے اعمال کے سبب) دوزخ میں سے عذاب پانے کے بعد نکل کر جنت میں داخل ہوں گے پس اہل جنت انھیں جہنمی کہہ کر پکاریں گے۔“
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، فرماتے تھے: ”قیامت کے دن سب سے ہلکے عذاب والا آدمی وہ ہو گا جس کے دونوں پاؤں کے نیچے انگارے رکھے جائیں گے اور ان سے اس کا دماغ اس طرح جوش کھائے گا جس طرح ہنڈیا جوش کھاتی ہے۔“