(مرفوع) حدثنا يحيى بن بكير، اخبرنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن سالم، عن ابن عمر رضي الله عنهما، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كان ينفل بعض من يبعث من السرايا لانفسهم خاصة سوى قسم عامة الجيش".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَانَ يُنَفِّلُ بَعْضَ مَنْ يَبْعَثُ مِنَ السَّرَايَا لِأَنْفُسِهِمْ خَاصَّةً سِوَى قِسْمِ عَامَّةِ الْجَيْشِ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم کو لیث نے خبر دی ‘ انہیں عقیل نے ‘ انہیں ابن شہاب نے ‘ انہیں سالم نے اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعض مہموں کے موقع پر اس میں شریک ہونے والوں کو غنیمت کے عام حصوں کے علاوہ (خمس وغیرہ میں سے) اپنے طور پر بھی دیا کرتے تھے۔
Narrated Ibn `Umar: Allah's Apostle used to give extra share to some of the members of the Sariya he used to send, in addition to the shares they shared with the army in general.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 53, Number 363
(مرفوع) حدثنا محمد بن العلاء، حدثنا ابو اسامة، حدثنا بريد بن عبد الله، عن ابي بردة، عن ابي موسى رضي الله عنه، قال: بلغنا مخرج النبي صلى الله عليه وسلم ونحن باليمن فخرجنا مهاجرين إليه انا واخوان لي انا اصغرهم احدهما ابو بردة والآخر ابو رهم إما قال: في بضع وإما، قال: في ثلاثة وخمسين او اثنين وخمسين رجلا من قومي فركبنا سفينة فالقتنا سفينتنا إلى النجاشي بالحبشة، ووافقنا جعفر بن ابي طالب واصحابه عنده، فقال جعفر: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم:" بعثنا هاهنا وامرنا بالإقامة فاقيموا معنا فاقمنا معه حتى قدمنا جميعا فوافقنا النبي صلى الله عليه وسلم حين افتتح خيبر فاسهم لنا او، قال: فاعطانا منها وما قسم لاحد غاب عن فتح خيبر منها شيئا إلا لمن شهد معه إلا اصحاب سفينتنا مع جعفر واصحابه قسم لهم معهم".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا بُرَيْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَلَغَنَا مَخْرَجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ بِالْيَمَنِ فَخَرَجْنَا مُهَاجِرِينَ إِلَيْهِ أَنَا وَأَخَوَانِ لِي أَنَا أَصْغَرُهُمْ أَحَدُهُمَا أَبُو بُرْدَةَ وَالْآخَرُ أَبُو رُهْمٍ إِمَّا قَالَ: فِي بِضْعٍ وَإِمَّا، قَالَ: فِي ثَلَاثَةٍ وَخَمْسِينَ أَوِ اثْنَيْنِ وَخَمْسِينَ رَجُلًا مِنْ قَوْمِي فَرَكِبْنَا سَفِينَةً فَأَلْقَتْنَا سَفِينَتُنَا إِلَى النَّجَاشِيِّ بِالْحَبَشَةِ، وَوَافَقْنَا جَعْفَرَ بْنَ أَبِي طَالِبٍ وَأَصْحَابَهُ عِنْدَهُ، فَقَالَ جَعْفَرٌ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بَعَثَنَا هَاهُنَا وَأَمَرَنَا بِالْإِقَامَةِ فَأَقِيمُوا مَعَنَا فَأَقَمْنَا مَعَهُ حَتَّى قَدِمْنَا جَمِيعًا فَوَافَقْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ افْتَتَحَ خَيْبَرَ فَأَسْهَمَ لَنَا أَوْ، قَالَ: فَأَعْطَانَا مِنْهَا وَمَا قَسَمَ لِأَحَدٍ غَابَ عَنْ فَتْحِ خَيْبَرَ مِنْهَا شَيْئًا إِلَّا لِمَنْ شَهِدَ مَعَهُ إِلَّا أَصْحَابَ سَفِينَتِنَا مَعَ جَعْفَرٍ وَأَصْحَابِهِ قَسَمَ لَهُمْ مَعَهُمْ".
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ‘ ان سے برید بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کی خبر ہمیں ملی ‘ تو ہم یمن میں تھے۔ اس لیے ہم بھی آپ کی خدمت میں مہاجر کی حیثیت سے حاضر ہونے کے لیے روانہ ہوئے۔ میں تھا ‘ میرے بھائی تھے۔ (میری عمران دونوں سے کم تھی ‘ دونوں بھائیوں میں) ایک ابوبردہ رضی اللہ عنہ تھے اور دوسرے ابورہم۔ یا انہوں نے یہ کہا کہ اپنی قوم کے چند افراد کے ساتھ یا یہ کہا تریپن یا باون آدمیوں کے ساتھ (یہ لوگ روانہ ہوئے تھے) ہم کشتی میں سوار ہوئے تو ہماری کشتی نجاشی کے ملک حبشہ پہنچ گئی اور وہاں ہمیں جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ ملے۔ جعفر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہاں بھیجا تھا اور حکم دیا تھا کہ ہم یہیں رہیں۔ چنانچہ ہم بھی وہیں ٹھہر گئے۔ اور پھر سب ایک ساتھ (مدینہ) حاضر ہوئے ‘ جب ہم خدمت نبوی میں پہنچے ‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر فتح کر چکے تھے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دوسرے مجاہدوں کے ساتھ) ہمارا بھی حصہ مال غنیمت میں لگایا۔ یا انہوں نے یہ کہا کہ آپ نے غنیمت میں سے ہمیں بھی عطا فرمایا ‘ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایسے شخص کا غنیمت میں حصہ نہیں لگایا جو لڑائی میں شریک نہ رہا ہو۔ صرف انہی لوگوں کو حصہ ملا تھا ‘ جو لڑائی میں شریک تھے۔ البتہ ہمارے کشتی کے ساتھیوں اور جعفر اور ان کے ساتھیوں کو بھی آپ نے غنیمت میں شریک کیا تھا (حالانکہ ہم لوگ لڑائی میں شریک نہیں ہوئے تھے)۔
Narrated Abu Musa: We got the news of the migration of the Prophet while we were in Yemen, so we set out migrating to him. We were, I and my two brothers, I being the youngest, and one of my brothers was Abu Burda and the other was Abu Ruhm. We were over fifty (or fifty-three or fifty two) men from our people. We got on board a ship which took us to An-Najashi in Ethiopia, and there we found Ja`far bin Abu Talib and his companions with An-Najaishi. Ja`far said (to us), "Allah's Apostle has sent us here and ordered us to stay here, so you too, stay with us." We stayed with him till we all left (Ethiopia) and met the Prophet at the time when he had conquered Khaibar. He gave us a share from its booty (or gave us from its booty). He gave only to those who had taken part in the Ghazwa with him. but he did not give any share to any person who had not participated in Khaibar's conquest except the people of our ship, besides Ja`far and his companions, whom he gave a share as he did them (i.e. the people of the ship).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 53, Number 364
(مرفوع) حدثنا علي، حدثنا سفيان، حدثنا محمد بن المنكدر، سمع جابرا رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لو قد جاءني مال البحرين لقد اعطيتك هكذا وهكذا وهكذا، فلم يجئ حتى قبض النبي صلى الله عليه وسلم فلما جاء مال البحرين امر ابو بكر مناديا فنادى من كان له عند رسول الله صلى الله عليه وسلم دين او عدة فلياتنا فاتيته، فقلت: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال لي: كذا وكذا فحثا لي ثلاثا وجعل سفيان يحثو بكفيه جميعا، ثم قال: لنا هكذا، قال: لنا ابن المنكدر، وقال: مرة فاتيت ابا بكر فسالت فلم يعطني، ثم اتيته فلم يعطني، ثم اتيته الثالثة، فقلت: سالتك فلم تعطني، ثم سالتك فلم تعطني، ثم سالتك فلم تعطني، فإما ان تعطيني، وإما ان تبخل عني، قال: قلت: تبخل عني ما منعتك من مرة إلا، وانا اريد ان اعطيك"، قال: سفيان، وحدثنا عمرو، عن محمد بن علي، عن جابر فحثا لي حثية، وقال: عدها فوجدتها خمس مائة، قال: فخذ مثلها مرتين، وقال: يعني ابن المنكدر واي داء ادوا من البخل".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ، سَمِعَ جَابِرًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ قَدْ جَاءَنِي مَالُ الْبَحْرَيْنِ لَقَدْ أَعْطَيْتُكَ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا، فَلَمْ يَجِئْ حَتَّى قُبِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا جَاءَ مَالُ الْبَحْرَيْنِ أَمَر أَبُو بَكْرٍ مُنَادِيًا فَنَادَى مَنْ كَانَ لَهُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَيْنٌ أَوْ عِدَةٌ فَلْيَأْتِنَا فَأَتَيْتُهُ، فَقُلْتُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِي: كَذَا وَكَذَا فَحَثَا لِي ثَلَاثًا وَجَعَلَ سُفْيَانُ يَحْثُو بِكَفَّيْهِ جَمِيعًا، ثُمَّ قَالَ: لَنَا هَكَذَا، قَالَ: لَنَا ابْنُ الْمُنْكَدِرِ، وَقَالَ: مَرَّةً فَأَتَيْتُ أَبَا بَكْرٍ فَسَأَلْتُ فَلَمْ يُعْطِنِي، ثُمَّ أَتَيْتُهُ فَلَمْ يُعْطِنِي، ثُمَّ أَتَيْتُهُ الثَّالِثَةَ، فَقُلْتُ: سَأَلْتُكَ فَلَمْ تُعْطِنِي، ثُمَّ سَأَلْتُكَ فَلَمْ تُعْطِنِي، ثُمَّ سَأَلْتُكَ فَلَمْ تُعْطِنِي، فَإِمَّا أَنْ تُعْطِيَنِي، وَإِمَّا أَنْ تَبْخَلَ عَنِّي، قَالَ: قُلْتَ: تَبْخَلُ عَنِّي مَا مَنَعْتُكَ مِنْ مَرَّةٍ إِلَّا، وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُعْطِيَكَ"، قَالَ: سُفْيَانُ، وَحَدَّثَنَا عَمْرٌو، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ جَابِرٍ فَحَثَا لِي حَثْيَةً، وَقَالَ: عُدَّهَا فَوَجَدْتُهَا خَمْسَ مِائَةٍ، قَالَ: فَخُذْ مِثْلَهَا مَرَّتَيْنِ، وَقَالَ: يَعْنِي ابْنَ الْمُنْكَدِرِ وَأَيُّ دَاءٍ أَدْوَأُ مِنَ الْبُخْلِ".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے ‘ کہا ہم سے محمد بن منکدر نے ‘ اور انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ آپ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب بحرین سے وصول ہو کر میرے پاس مال آئے گا تو میں تمہیں اس طرح اس طرح ‘ اس طرح (تین لپ) دوں گا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور بحرین کا مال اس وقت تک نہ آیا۔ پھر جب وہاں سے مال آیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حکم سے منادی نے اعلان کیا کہ جس کا بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی قرض ہو یا آپ کا کوئی وعدہ ہو تو ہمارے پاس آئے۔ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں گیا اور عرض کیا کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا۔ چنانچہ انہوں نے تین لپ بھر کر مجھے دیا۔ سفیان بن عیینہ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اشارہ کر کے (لپ بھرنے کی) کیفیت بتائی پھر ہم سے سفیان نے بیان کیا کہ ابن منکدر نے بھی ہم سے اسی طرح بیان کیا تھا۔ اور ایک مرتبہ سفیان نے (سابقہ سند کے ساتھ) بیان کیا کہ جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے مجھے کچھ نہیں دیا۔ پھر میں حاضر ہوا ‘ اور اس مرتبہ بھی مجھے انہوں نے کچھ نہیں دیا۔ پھر میں تیسری مرتبہ حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں نے ایک مرتبہ آپ سے مانگا اور آپ نے عنایت نہیں فرمایا۔ دوبارہ مانگا ‘ پھر بھی آپ نے عنایت نہیں فرمایا اور پھر مانگا لیکن آپ نے عنایت نہیں فرمایا۔ اب یا آپ مجھے دیجئیے یا پھر میرے بارے میں بخل سے کام لیجئے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم کہتے ہو کہ میرے معاملے میں بخل سے کام لیتا ہے۔ حالانکہ تمہیں دینے سے جب بھی میں نے منہ پھیرا تو میرے دل میں یہ بات ہوتی تھی کہ تمہیں کبھی نہ کبھی دینا ضرور ہے۔، سفیان نے بیان کیا کہ ہم سے عمرو نے بیان کیا ‘ ان سے محمد بن علی نے اور ان سے جابر نے ‘ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے ایک لپ بھر کر دیا اور فرمایا کہ اسے شمار کر میں نے شمار کیا تو پانچ سو کی تعداد تھی ‘ اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اتنا ہی دو مرتبہ اور لے لے۔ اور ابن المنکدر نے بیان کیا (کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا) بخل سے زیادہ بدترین اور کیا بیماری ہو سکتی ہے۔
Narrated Jabir: Allah's Apostle said (to me), "If the property of Bahrain had come to us, I would have given you so much and so much." But the Bahrain property did not come till the Prophet had died. When the Bahrain property came. Abu Bakr ordered somebody to announce, "Any person who has money claim on Allah's Apostle or whom Allah's Apostle had promised something, should come to us." So, I went to him and said, "Allah's Apostle had promised to give me so much an so much." Abu Bakr scooped up money with both hands thrice for me." (The sub-narrator Sufyan illustrated this action by scooping up with both hands and said, "Ibn Munkadir, another sub-narrator, used to illustrate it in this way.") Narrated Jabir: Once I went to Abu Bakr and asked for the money but he did not give me, and I went to him again, but he did not give me, so I went to him for the third time and said, "I asked you, but you did not give me; then I asked you (for the second time) and you did not give me; then I asked you (for the third time) but you did not give me. You should either give me or allow yourself to be considered a miser regarding my case." Abu Bakr said, "You tell me that I am a miser with regard to you. But really, whenever I rejected your request, I had the inclination to give you." (In another narration Jabir added:) So, Abu Bakr scooped up money with both hands for me and asked me to count it. I found out that It was five hundred. Abu Bakr told me to take twice that amount.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 53, Number 365
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے قرۃ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقام جعرانہ میں غنیمت تقسیم کر رہے تھے کہ ایک شخص ذوالخویصرہ نے آپ سے کہا، انصاف سے کام لیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اگر میں بھی انصاف سے کام نہ لوں تو بدبخت ہوا۔“
Narrated Jabir bin `Abdullah: While Allah's Apostle was distributing the booty at Al-Ja'rana, somebody said to him "Be just (in your distribution)." The Prophet replied, "Verily I would be miserable if I did not act justly."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 53, Number 366
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن منصور، اخبرنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن الزهري، عن محمد بن جبير، عن ابيه رضي الله عنه، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال في اسارى بدر:" لو كان المطعم بن عدي حيا، ثم كلمني في هؤلاء النتنى لتركتهم له".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ فِي أُسَارَى بَدْرٍ:" لَوْ كَانَ الْمُطْعِمُ بْنُ عَدِيٍّ حَيًّا، ثُمَّ كَلَّمَنِي فِي هَؤُلَاءِ النَّتْنَى لَتَرَكْتُهُمْ لَهُ".
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالرزاق نے خبر دی، انہیں معمر نے، انہیں زہری نے، انہیں محمد بن جبیر نے اور انہیں ان کے والد رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے قیدیوں کے بارے میں فرمایا تھا کہ اگر مطعم بن عدی (جو کفر کی حالت میں مر گئے تھے) زندہ ہوتے اور ان نجس، ناپاک لوگوں کی سفارش کرتے تو میں ان کی سفارش سے انہیں (فدیہ لیے بغیر) چھوڑ دیتا۔
Narrated Jubair bin Mut`im: The Prophet talked about war prisoners of Badr saying, "Had Al-Mut`im bin Adi been alive and interceded with me for these mean people, I would have freed them for his sake."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 53, Number 367
17. باب: اس کی دلیل کہ خمس میں امام کو اختیار ہے وہ اسے اپنے بعض (مستحق) رشتہ داروں کو بھی دے سکتا ہے اور جس کو چاہے نہ دے، دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے خمس میں سے بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب کو دیا (اور دوسرے قریش کو نہ دیا)۔
(17) Chapter. The proof of the fact that Khumus is for the lmam (i.e., ruler), and taht he has the right to give thereof to some of his relatives to exclusion of others. Whatr the Prophet (p.b.u.h) distributed to Bani Al-Muttalib and Bani Hashim from the Khumus of the Khaibar booty.
قال عمر بن عبد العزيز:" لم يعمهم بذلك ولم يخص قريبا دون من هو احوج إليه، وإن كان الذي اعطى لما يشكو إليه من الحاجة، ولما مستهم في جنبه من قومهم وحلفائهم".قَالَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ:" لَمْ يَعُمَّهُمْ بِذَلِكَ وَلَمْ يَخُصَّ قَرِيبًا دُونَ مَنْ هُوَ أَحْوَجُ إِلَيْهِ، وَإِنْ كَانَ الَّذِي أَعْطَى لِمَا يَشْكُو إِلَيْهِ مِنَ الْحَاجَةِ، وَلِمَا مَسَّتْهُمْ فِي جَنْبِهِ مِنْ قَوْمِهِمْ وَحُلَفَائِهِمْ".
عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام رشتہ داروں کو نہیں دیا اور اس کی بھی رعایت نہیں کی کہ جو قریبی رشتہ دار ہو اسی کو دیں۔ بلکہ جو زیادہ محتاج ہوتا، آپ اسے عنایت فرماتے، خواہ رشتہ میں وہ دور ہی کیوں نہ ہو۔ اگرچہ آپ نے جن لوگوں کو دیا وہ یہی دیکھ کر وہ محتاجی کا آپ سے شکوہ کرتے تھے اور یہ بھی دیکھ کر کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانبداری اور طرفداری میں ان کو جو نقصان اپنی قوم والوں اور ان کے ہم قسموں سے پہنچا (وہ بہت تھا)۔
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن ابن المسيب، عن جبير بن مطعم، قال: مشيت انا وعثمان بن عفان إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلنا: يا رسول الله، اعطيت بني المطلب وتركتنا ونحن وهم منك بمنزلة واحدة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنما بنو المطلب وبنو هاشم شيء واحد، قال الليث: حدثني يونس وزاد، قال جبير: ولم يقسم النبي صلى الله عليه وسلم لبني عبد شمس ولا لبني نوفل، وقال ابن إسحاق: عبد شمس وهاشم والمطلب إخوة لام وامهم عاتكة بنت مرة وكان نوفل اخاهم لابيهم".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، قَالَ: مَشَيْتُ أَنَا وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَعْطَيْتَ بَنِي الْمُطَّلِبِ وَتَرَكْتَنَا وَنَحْنُ وَهُمْ مِنْكَ بِمَنْزِلَةٍ وَاحِدَةٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا بَنُو الْمُطَّلِبِ وَبَنُو هَاشِمٍ شَيْءٌ وَاحِدٌ، قَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي يُونُسُ وَزَادَ، قَالَ جُبَيْرٌ: وَلَمْ يَقْسِمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِبَنِي عَبْدِ شَمْسٍ وَلَا لِبَنِي نَوْفَلٍ، وَقَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: عَبْدُ شَمْسٍ وَهَاشِمٌ وَالْمُطَّلِبُ إِخْوَةٌ لِأُمٍّ وَأُمُّهُمْ عَاتِكَةُ بِنْتُ مُرَّةَ وَكَانَ نَوْفَلٌ أَخَاهُمْ لِأَبِيهِمْ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے ابن مسیب نے بیان کیا اور ان سے جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا، یا رسول اللہ! آپ نے بنو مطلب کو تو عنایت فرمایا لیکن ہم کو چھوڑ دیا، حالانکہ ہم کو آپ سے وہی رشتہ ہے جو بنو مطلب کو آپ سے ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنو مطلب اور بنو ہاشم ایک ہی ہے۔ لیث نے بیان کیا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا اور (اس روایت میں) یہ زیادتی کی کہ جبیر رضی اللہ عنہ نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عبدشمس اور بنو نوفل کو نہیں دیا تھا، اور ابن اسحاق (صاحب مغازی) نے کہا ہے کہ عبدشمس، ہاشم اور مطلب ایک ماں سے تھے اور ان کی ماں کا نام عاتکہ بن مرہ تھا اور نوفل باپ کی طرف سے ان کے بھائی تھے (ان کی ماں دوسری تھیں)۔
Narrated Jubair bin Mut`im: I and `Uthman bin `Affan went to Allah's Apostle and said, "O Allah's Apostle! You have given to Bani Al-Muttalib and left us although they and we are of the same kinship to you." Allah's Apostle said, "Bani Muttalib and Bani Hashim are one and the same." The Prophet did not give a share to Bani `Abd Shams and Bani Naufai. (Ibn 'Is-haq said, "Abd Shams and Hashim and Al-Muttalib were maternal brothers and their mother was 'Atika bint Murra and Naufal was their paternal brother.)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 53, Number 368
(مرفوع) ومن قتل قتيلا فله سلبه من غير ان يخمس، وحكم الإمام فيه.(مرفوع) وَمَنْ قَتَلَ قَتِيلاً فَلَهُ سَلَبُهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُخَمِّسَ، وَحُكْمِ الإِمَامِ فِيهِ.
مقتول کے جسم پر جو سامان ہو (کپڑے، ہتھیار وغیرہ) وہ سامان تقسیم میں شریک ہو گا نہ اس میں سے خمس لیا جائے گا بلکہ وہ سارا قاتل کو ملے گا اور امام کا ایسا حکم۔
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يوسف بن الماجشون، عن صالح بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف، عن ابيه، عن جده، قال: بينا انا واقف في الصف يوم بدر فنظرت عن يميني وعن شمالي، فإذا انا بغلامين من الانصار حديثة اسنانهما تمنيت ان اكون بين اضلع منهما فغمزني احدهما، فقال: يا عم هل تعرف ابا جهل؟ قلت: نعم ما حاجتك إليه يا ابن اخي، قال: اخبرت انه يسب رسول الله صلى الله عليه وسلم والذي نفسي بيده لئن رايته لا يفارق سوادي سواده حتى يموت الاعجل منا فتعجبت لذلك فغمزني الآخر، فقال لي: مثلها فلم انشب ان نظرت إلى ابي جهل يجول في الناس، قلت: الا إن هذا صاحبكما الذي سالتماني فابتدراه بسيفيهما فضرباه حتى قتلاه، ثم انصرفا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبراه، فقال:" ايكما قتله، قال: كل واحد منهما انا قتلته، فقال: هل مسحتما سيفيكما، قالا: لا فنظر في السيفين، فقال: كلاكما قتله سلبه معاذ بن عمرو بن الجموح وكانا معاذ بن عفراء ومعاذ بن عمرو بن الجموح".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ الْمَاجِشُونِ، عَنْ صَالِحِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: بَيْنَا أَنَا وَاقِفٌ فِي الصَّفِّ يَوْمَ بَدْرٍ فَنَظَرْتُ عَنْ يَمِينِي وَعَنْ شِمَالِي، فَإِذَا أَنَا بِغُلَامَيْنِ مِنْ الْأَنْصَارِ حَدِيثَةٍ أَسْنَانُهُمَا تَمَنَّيْتُ أَنْ أَكُونَ بَيْنَ أَضْلَعَ مِنْهُمَا فَغَمَزَنِي أَحَدُهُمَا، فَقَالَ: يَا عَمِّ هَلْ تَعْرِفُ أَبَا جَهْلٍ؟ قُلْتُ: نَعَمْ مَا حَاجَتُكَ إِلَيْهِ يَا ابْنَ أَخِي، قَالَ: أُخْبِرْتُ أَنَّهُ يَسُبُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَئِنْ رَأَيْتُهُ لَا يُفَارِقُ سَوَادِي سَوَادَهُ حَتَّى يَمُوتَ الْأَعْجَلُ مِنَّا فَتَعَجَّبْتُ لِذَلِكَ فَغَمَزَنِي الْآخَرُ، فَقَالَ لِي: مِثْلَهَا فَلَمْ أَنْشَبْ أَنْ نَظَرْتُ إِلَى أَبِي جَهْلٍ يَجُولُ فِي النَّاسِ، قُلْتُ: أَلَا إِنَّ هَذَا صَاحِبُكُمَا الَّذِي سَأَلْتُمَانِي فَابْتَدَرَاهُ بِسَيْفَيْهِمَا فَضَرَبَاهُ حَتَّى قَتَلَاهُ، ثُمَّ انْصَرَفَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَاهُ، فَقَالَ:" أَيُّكُمَا قَتَلَهُ، قَالَ: كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا أَنَا قَتَلْتُهُ، فَقَالَ: هَلْ مَسَحْتُمَا سَيْفَيْكُمَا، قَالَا: لَا فَنَظَرَ فِي السَّيْفَيْنِ، فَقَالَ: كِلَاكُمَا قَتَلَهُ سَلَبُهُ مُعَاذِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ وَكَانَا مُعَاذَ بْنَ عَفْرَاءَ ومُعَاذَ بْنَ عَمْرِو بْنِ الجَمُوحِ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یوسف بن ماجشون نے، ان سے صالح بن ابراہیم بن عبدالرحمٰن بن عوف نے، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے صالح کے دادا (عبدالرحمٰن بن عوفص) نے بیان کے کہ بدر کی لڑائی میں، میں صف کے ساتھ کھڑا ہوا تھا۔ میں نے جو دائیں بائیں جانب دیکھا، تو میرے دونوں طرف قبیلہ انصار کے دو نوعمر لڑکے تھے۔ میں نے آرزو کی کاش! میں ان سے زبردست زیادہ عمر والوں کے بیچ میں ہوتا۔ ایک نے میری طرف اشارہ کیا، اور پوچھا چچا! آپ ابوجہل کو بھی پہچانتے ہیں؟ میں نے کہا کہ ہاں! لیکن بیٹے تم لوگوں کو اس سے کیا کام ہے؟ لڑکے نے جواب دیا مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا ہے، اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر مجھے وہ مل گیا تو اس وقت تک میں اس سے جدا نہ ہوں گا جب تک ہم میں سے کوئی جس کی قسمت میں پہلے مرنا ہو گا، مر نہ جائے، مجھے اس پر بڑی حیرت ہوئی۔ پھر دوسرے نے اشارہ کیا اور وہی باتیں اس نے بھی کہیں۔ ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ مجھے ابوجہل دکھائی دیا جو لوگوں میں (کفار کے لشکر میں) گھومتا پھر رہا تھا۔ میں نے ان لڑکوں سے کہا کہ جس کے متعلق تم لوگ مجھ سے پوچھ رہے تھے، وہ سامنے (پھرتا ہوا نظر آ رہا) ہے۔ دونوں نے اپنی تلواریں سنبھالیں اور اس پر جھپٹ پڑے اور حملہ کر کے اسے قتل کر ڈالا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کو خبر دی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم دونوں میں سے کس نے اسے مارا ہے؟ دونوں نوجوانوں نے کہا کہ میں نے قتل کیا ہے۔ اس لیے آپ نے ان سے پوچھا کہ کیا اپنی تلواریں تم نے صاف کر لی ہیں؟ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں تلواروں کو دیکھا اور فرمایا کہ تم دونوں ہی نے اسے مارا ہے۔ اور اس کا سامان معاذ بن عمرو بن جموح کو ملے گا۔ وہ دونوں نوجوان معاذ بن عفراء اور معاذ بن عمرو بن جموع تھے۔ محمد نے کہا یوسف نے صالح سے سنا اور ابراہیم نے اپنے باپ سے سنا۔
Narrated `Abdur-Rahman bin `Auf: While I was standing in the row on the day (of the battle) of Badr, I looked to my right and my left and saw two young Ansari boys, and I wished I had been stronger than they. One of them called my attention saying, "O Uncle! Do you know Abu Jahl?" I said, "Yes, What do you want from him, O my nephew?" He said, "I have been informed that he abuses Allah's Apostle. By Him in Whose Hands my life is, if I should see him, then my body will not leave his body till either of us meet his fate." I was astonished at that talk. Then the other boy called my attention saying the same as the other had said. After a while I saw Abu Jahl walking amongst the people. I said (to the boys), "Look! This is the man you asked me about." So, both of them attacked him with their swords and struck him to death and returned to Allah'S Apostle to inform him of that. Allah's Apostle asked, "Which of you has killed him?" Each of them said, "I Have killed him." Allah's Apostle asked, "Have you cleaned your swords?" They said, "No. " He then looked at their swords and said, "No doubt, you both have killed him and the spoils of the deceased will be given to Mu`adh bin `Amr bin Al-Jamuh." The two boys were Mu`adh bin 'Afra and Mu`adh bin `Amr bin Al-Jamuh.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 53, Number 369
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن يحيى بن سعيد، عن ابن افلح، عن ابي محمد مولى ابي قتادة، عن ابي قتادة رضي الله عنه، قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام حنين فلما التقينا كانت للمسلمين جولة، فرايت رجلا من المشركين علا رجلا من المسلمين فاستدرت حتى اتيته من ورائه حتى ضربته بالسيف على حبل عاتقه، فاقبل علي فضمني ضمة وجدت منها ريح الموت، ثم ادركه الموت فارسلني فلحقت عمر بن الخطاب، فقلت: ما بال الناس، قال: امر الله ثم إن الناس رجعوا وجلس النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" من قتل قتيلا له عليه بينة فله سلبه فقمت فقلت من يشهد لي ثم جلست، ثم قال: من قتل قتيلا له عليه بينة فله سلبه فقمت، فقلت: من يشهد لي ثم جلست، ثم قال: الثالثة مثله فقمت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما لك يا ابا قتادة فاقتصصت عليه القصة، فقال: رجل صدق يا رسول الله وسلبه عندي فارضه عني، فقال: ابو بكر الصديق رضي الله عنه لاها الله إذا لا يعمد إلى اسد من اسد الله يقاتل عن الله ورسوله صلى الله عليه وسلم يعطيك سلبه، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: صدق فاعطاه فبعت الدرع فابتعت به مخرفا في بني سلمة، فإنه لاول مال تاثلته في الإسلام".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ ابْنِ أَفْلَحَ، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حُنَيْنٍ فَلَمَّا الْتَقَيْنَا كَانَتْ لِلْمُسْلِمِينَ جَوْلَةٌ، فَرَأَيْتُ رَجُلًا مِنَ الْمُشْرِكِينَ عَلَا رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ فَاسْتَدَرْتُ حَتَّى أَتَيْتُهُ مِنْ وَرَائِهِ حَتَّى ضَرَبْتُهُ بِالسَّيْفِ عَلَى حَبْلِ عَاتِقِهِ، فَأَقْبَلَ عَلَيَّ فَضَمَّنِي ضَمَّةً وَجَدْتُ مِنْهَا رِيحَ الْمَوْتِ، ثُمَّ أَدْرَكَهُ الْمَوْتُ فَأَرْسَلَنِي فَلَحِقْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَقُلْتُ: مَا بَالُ النَّاسِ، قَالَ: أَمْرُ اللَّهِ ثُمَّ إِنَّ النَّاسَ رَجَعُوا وَجَلَسَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" مَنْ قَتَلَ قَتِيلًا لَهُ عَلَيْهِ بَيِّنَةٌ فَلَهُ سَلَبُهُ فَقُمْتُ فَقُلْتُ مَنْ يَشْهَدُ لِي ثُمَّ جَلَسْتُ، ثُمَّ قَالَ: مَنْ قَتَلَ قَتِيلًا لَهُ عَلَيْهِ بَيِّنَةٌ فَلَهُ سَلَبُهُ فَقُمْتُ، فَقُلْتُ: مَنْ يَشْهَدُ لِي ثُمَّ جَلَسْتُ، ثُمَّ قَالَ: الثَّالِثَةَ مِثْلَهُ فَقُمْتُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا لَكَ يَا أَبَا قَتَادَةَ فَاقْتَصَصْتُ عَلَيْهِ الْقِصَّةَ، فَقَالَ: رَجُلٌ صَدَقَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَلَبُهُ عِنْدِي فَأَرْضِهِ عَنِّي، فَقَالَ: أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَاهَا اللَّهِ إِذًا لَا يَعْمِدُ إِلَى أَسَدٍ مِنْ أُسْدِ اللَّهِ يُقَاتِلُ عَنِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِيكَ سَلَبَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَدَقَ فَأَعْطَاهُ فَبِعْتُ الدِّرْعَ فَابْتَعْتُ بِهِ مَخْرَفًا فِي بَنِي سَلِمَةَ، فَإِنَّهُ لَأَوَّلُ مَالٍ تَأَثَّلْتُهُ فِي الْإِسْلَامِ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے، ان سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے ابن افلح نے، ان سے ابوقتادہ کے غلام ابومحمد نے اور ان سے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ غزوہ حنین کے سال ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے۔ پھر جب ہمارا دشمن سے سامنا ہوا تو (ابتداء میں) اسلامی لشکر ہارنے لگا۔ اتنے میں میں نے دیکھا کہ مشرکین کے لشکر کا ایک شخص ایک مسلمان کے اوپر چڑھا ہوا ہے۔ اس لیے میں فوراً ہی گھوم پڑا اور اس کے پیچھے سے آ کر تلوار اس کی گردن پر ماری۔ اب وہ شخص مجھ پر ٹوٹ پڑا، اور مجھے اتنی زور سے اس نے بھینچا کہ میری روح جیسے قبض ہونے کو تھی۔ آخر جب اس کو موت نے آ ڈبوچا، تب کہیں جا کر اس نے مجھے چھوڑا۔ اس کے بعد مجھے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ملے، تو میں نے ان سے پوچھا کہ مسلمان اب کس حالت میں ہیں؟ انہوں نے کہا کہ جو اللہ کا حکم تھا وہی ہوا۔ لیکن مسلمان ہارنے کے بعد پھر مقابلہ پر سنبھل گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور فرمایا کہ جس نے بھی کسی کافر کو قتل کیا ہو اور اس پر وہ گواہ بھی پیش کر دے تو مقتول کا سارا ساز و سامان اسے ہی ملے گا (ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا) میں بھی کھڑا ہوا۔ اور میں نے کہا کہ میری طرف سے کون گواہی دے گا؟ لیکن (جب میری طرف سے کوئی نہ اٹھا تو) میں بیٹھ گیا۔ پھر دوبارہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (آج) جس نے کسی کافر کو قتل کیا اور اس پر اس کی طرف سے کوئی گواہ بھی ہو تو مقتول کا سارا سامان اسے ملے گا۔ اس مرتبہ پھر میں نے کھڑے ہو کر کہا کہ میری طرف سے کون گواہی دے گا؟ اور پھر مجھے بیٹھنا پڑا۔ تیسری مرتبہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی ارشاد دہرایا اور اس مرتبہ جب میں کھڑا ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی دریافت فرمایا، کس چیز کے متعلق کہہ رہے ہو ابوقتادہ! میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سارا واقعہ بیان کر دیا، تو ایک صاحب (اسود بن خزاعی اسلمی) نے بتایا کہ ابوقتادہ سچ کہتے ہیں، یا رسول اللہ! اور اس مقتول کا سامان میرے پاس محفوظ ہے۔ اور میرے حق میں انہیں راضی کر دیجئیے (کہ وہ مقتول کا سامان مجھ سے نہ لیں) لیکن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نہیں اللہ کی قسم! اللہ کے ایک شیر کے ساتھ، جو اللہ اور اس کے رسول کے لیے لڑے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نہیں کریں گے کہ ان کا سامان تمہیں دے دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر نے سچ کہا ہے۔ پھر آپ نے سامان ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کو عطا فرمایا۔ ابوقتادہ نے کہا کہ پھر اس کی زرہ بیچ کر میں نے بنی سلمہ میں ایک باغ خرید لیا اور یہ پہلا مال تھا جو اسلام لانے کے بعد میں نے حاصل کیا تھا۔
Narrated Abu Qatada: We set out in the company of Allah's Apostle on the day (of the battle) of Hunain. When we faced the enemy, the Muslims retreated and I saw a pagan throwing himself over a Muslim. I turned around and came upon him from behind and hit him on the shoulder with the sword He (i.e. the pagan) came towards me and seized me so violently that I felt as if it were death itself, but death overtook him and he released me. I followed `Umar bin Al Khattab and asked (him), "What is wrong with the people (fleeing)?" He replied, "This is the Will of Allah," After the people returned, the Prophet sat and said, "Anyone who has killed an enemy and has a proof of that, will posses his spoils." I got up and said, "Who will be a witness for me?" and then sat down. The Prophet again said, "Anyone who has killed an enemy and has proof of that, will possess his spoils." I (again) got up and said, "Who will be a witness for me?" and sat down. Then the Prophet said the same for the third time. I again got up, and Allah's Apostle said, "O Abu Qatada! What is your story?" Then I narrated the whole story to him. A man (got up and) said, "O Allah's Apostle! He is speaking the truth, and the spoils of the killed man are with me. So please compensate him on my behalf." On that Abu Bakr As-Siddiq said, "No, by Allah, he (i.e. Allah's Apostle ) will not agree to give you the spoils gained by one of Allah's Lions who fights on the behalf of Allah and His Apostle." The Prophet said, "Abu Bakr has spoken the truth." So, Allah's Apostle gave the spoils to me. I sold that armor (i.e. the spoils) and with its price I bought a garden at Bani Salima, and this was my first property which I gained after my conversion to Islam.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 53, Number 370