فاتح ایران سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں نے غزوہ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو مرد دیکھے جو سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے خوب لڑ رہے تھے۔ میں نے ان کو کبھی نہیں دیکھا نہ اس سے پہلے نہ اس کے بعد۔
فاتح ایران سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن اپنے ترکش سے تیر نکال کر میرے سامنے رکھے اور فرمایا: ”(اے سعد رضی اللہ عنہ) تیر چلا تجھ پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سرمبارک احد کے دن زخمی ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بھلا وہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنے پیغمبر کو زخمی کیا“ تو یہ آیت اتری ”اے پیغمبر! آپ کے اختیار میں کچھ نہیں۔“(سورۃ آل عمران: 128)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز میں آخری رکعت میں رکوع کے بعد یوں دعا کرتے تھے ”اے اللہ! فلاں اور فلاں اور فلاں پر لعنت فرما۔“ اس وقت اللہ نے یہ آیت اتاری:“ اے پیغمبر! آپ کے اختیار میں کچھ نہیں، اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کی توبہ قبول کرے یا عذاب دے کیونکہ وہ ظالم ہیں۔“(سورۃ آل عمران: 128)
عبیداللہ بن عدی بن خیار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے وحشی سے کہا کیا تم ہمیں قتل (شہادت) حمزہ رضی اللہ عنہ کی خبر نہیں بتاؤ گے؟ اس نے کہا ہاں (کیوں نہ بتاؤں گا۔ قتل حمزہ رضی اللہ عنہ کا قصہ یوں ہے) کہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ نے بدر کے دن طعیمہ بن عدی بن خیار کو قتل کیا تھا، مجھ سے میرے آقا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے کہا اگر تو میرے چچا کے عوض حمزہ رضی اللہ عنہ کو مار ڈالے تو، تو آزاد ہے۔ وحشی نے کہا کہ جب قریش کے لوگ کوہ عنیین کی لڑائی کے سال نکلے اور عنیین احد کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ ہے۔ احد کے اور اس کے درمیان ایک نالہ ہے۔ اس وقت میں بھی لڑنے والوں کے ساتھ نکلا جب لوگ لڑائی کی صفیں باندھ چکے، تو سباع (بن عبدالعزیٰ) نے (صف سے) نکل کر کہا کہ کیا کوئی لڑنے والا ہے؟ وحشی کہتے ہیں کہ سیدالشہداء حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے اس کے مقابل نکل کر کہا اے سباع! اے ام انمار کے بیٹے! جو عورتوں کا ختنہ کرتی تھی، کیا تو اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتا ہے؟ وحشی نے کہا پھر انھوں نے سباع پر حملہ کیا اور سباع گزشتہ کل کی طرح مٹ گیا۔ وحشی نے کہا پھر میں قتل حمزہ رضی اللہ عنہ کے واسطے ایک پتھر کی آڑ میں گھات لگا کر بیٹھ گیا۔ جب وہ میرے قریب آئے تو میں نے اپنا ہتھیار پھینک مارا، وہ ان کو زیر ناف اس طرح لگا کہ وہ ان کے دونوں سرین کے پار ہو گیا۔ وحشی نے کہا کہ یہی ان کا آخری وقت تھا۔ جب سب قریش مکہ میں واپس آئے تو میں بھی ان کے ساتھ واپس آ کر مکہ میں مقیم ہو گیا۔ جب (فتح مکہ کے بعد) مکہ میں بھی اسلام پھیل گیا تو میں طائف چلا گیا۔ جب طائف والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف قاصد بھیجے تو مجھ سے کہا کہ وہ قاصدوں کو نہیں ستاتے۔ چنانچہ میں ان کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھے دیکھا تو فرمایا: ”کیا وحشی تو ہی ہے؟“ میں نے عرض کی جی ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حمزہ رضی اللہ عنہ کو تو نے ہی شہید کیا تھا؟“ میں نے عرض کی جی ہاں، جو کچھ آپ سے لوگوں نے بیان کیا، وہی ماجرا ہے (یعنی میں نے اپنے آقا کے حکم سے مارا تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو مجھ سے اپنا منہ چھپا سکتا ہے؟ وحشی کہتے ہیں کہ میں (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اٹھ کر) باہر آ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب مسیلمہ کذاب نے خروج (یعنی دعویٰ نبوت) کیا تو میں نے سوچا کہ میں بھی مسلمانوں کے پاس چلوں، شاید مسیلمہ کو مار کر حمزہ رضی اللہ عنہ کا بدلہ اتار سکوں۔ وحشی نے کہا کہ میں (ان) لوگوں کے ساتھ (جو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے روانہ کیے تھے) نکلا اور مسیلمہ کا حال جو تھا سو تھا (یعنی اس کے ساتھ ایک بڑی جماعت تھی) وحشی کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہی میں نے دیکھا کہ مسیلمہ ایک دیوار کے شگاف میں کھڑا ہے، گویا کہ خاکستری رنگ کا اونٹ ہے اور پریشان سر ہے۔ میں نے وہی حربہ (جس سے حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا) اس کی چھاتی کے درمیان مارا اور اس کے دونوں کندھوں کے آرپار کر دیا پھر مسیلمہ کی طرف ایک انصاری نے دوڑ کر اس کی کھوپڑی پر تلوار مار دی (یعنی گردن جدا کر دی)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چاروں دانتوں کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: ”اللہ کا غصہ اس قوم پر ہے جنہوں نے اپنے نبی کے ساتھ یہ معاملہ کیا ہو اور نیز اس قوم پر ہے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (بغیر حد اور قصاص کے) اللہ کی راہ میں مارا ہو۔“
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب غزوہ احد کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو صدمہ پہنچنا تھا پہنچ چکا اور مشرک واپس چلے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے دوبارہ آ جانے کے ڈر سے فرمایا: ”کون ہے جو ان کفار کے پیچھے جائے؟“ یہ سن کر ستر صحابہ کرام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان قبول کیا۔ (راوی حدیث عروہ) کہتے ہیں کہ ان میں سیدنا ابوبکر اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہما شامل تھے۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم خندق کے دن (غزوہ خندق) زمین کھود رہے تھے کہ اتفاقاً ایک زمین سخت نکل آئی۔ سب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جا کر عرض کی یا رسول اللہ! ایک بہت سخت زمین خندق میں درپیش آ گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں خود آ کر اسے دور کر دیتا ہوں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیٹ سے پتھر بندھے ہوئے تھے۔ تین روز تک ہم بھوکے پیاسے ہی رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آ کر زمین پر کدال ماری۔ کدال مارتے ہی وہ زمین نرم ہو گئی۔
سیدنا سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ احزاب کے دن فرمایا: ”اب ہم کافروں پر چڑھائی کریں گے اور وہ ہم پر چڑھائی نہ کر سکیں گے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، وہ اکیلا ہے، جس نے اپنی فوج (مسلمانوں) کو غالب کیا اور اپنے بندے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کی مدد فرمائی اور کفار کو اس اکیلے نے مغلوب کیا، اللہ کے بعد کوئی چیز نہیں (یعنی سب کو فنا ہے اور صرف اللہ ہی ”الاول والاخر“ ذات ہے)۔“