46. سیدنا کعب بن مالک کی حدیث اور اللہ کے اس قول ”اور تین شخصوں کے حال پر بھی جن کا معاملہ ملتوی چھوڑ دیا گیا تھا ....“ (سورۃ التوبہ: 118) کے بیان میں۔
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان تمام لڑائیوں میں شریک رہا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑیں، فقط ایک غزوہ تبوک میں نہ تھا۔ ہاں ایک غزوہ بدر میں بھی شریک نہ تھا، لیکن اس میں شریک نہ ہونے والوں میں سے کسی پر بھی عتاب نہیں ہوا۔ غزوہ بدر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قریش کا قافلہ لوٹنے کی نیت سے تشریف لے گئے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں اور ان کے دشمنوں کو اچانک، بغیر کسی طے شدہ منصوبے کے، آمنے سامنے کر دیا (اور لڑائی ہو گئی) اور بیشک میں لیلۃالعقبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا کہ جب ہم نے اسلام پر قائم رہنے کا مضبوط قول و قرار کیا تھا اور میں لیلۃالعقبہ پر جنگ بدر کو ہرگز ترجیح نہ دوں گا اگرچہ لوگوں میں اس کی فضیلت زیادہ مشہور ہے غزوہ تبوک میں شرکت نہ کرنے کا یہ قصہ ہوا کہ میں ایسا تندرست و طاقتور اور مالدار کبھی نہ تھا (جیسا میں اس وقت تھا) جبکہ میں اس غزوہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ گیا اور اللہ کی قسم! اس سے پہلے میرے پاس کبھی دو اونٹنیاں جمع نہیں ہوئیں لیکن اس غزوہ کے وقت میرے پاس دو اونٹنیاں موجود تھیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قاعدہ یہ تھا کہ جب کسی جنگ کا ارادہ کرتے تو اس کو صاف نہ بیان فرماتے بلکہ گول گول ایسا فرماتے کہ لوگ کوئی دوسرا مقام سمجھیں۔ جب اس لڑائی کا وقت آیا تو اتفاق سے سخت گرمی تھی اور دور دراز سفر کا سامنا تھا۔ صحرائی راستے کا سفر اور دشمنوں کی تعداد کثیر تھی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو صاف صاف بتا دیا کہ ہم تبوک جانا چاہتے ہیں تاکہ وہ اچھی طرح لڑائی اور سفر کا سامان درست کر لیں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف صاف اپنا ارادہ مسلمانوں سے بیان کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسلمان بکثرت تھے اور کوئی رجسٹر وغیرہ نہ تھا کہ جس میں ان کے نام محفوظ ہوتے۔ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کوئی مسلمان ایسا نہ تھا جو اس لڑائی میں غیرحاضر رہنا چاہتا مگر وہ یہ گمان کرتا تھا کہ اس کا غیرحاضر رہنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت تک معلوم نہ ہو گا جب تک کہ اس کے بارے کوئی وحی نہ اترے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑائی کا اس وقت قصد کیا جب درختوں کا میوہ پک گیا تھا اور سایہ اچھا معلوم ہوتا تھا (یعنی سخت گرمی تھی) خیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور مسلمانوں نے اس لڑائی کا سامان تیار کرنا شروع کیا، میں بھی ہر صبح کو جاتا کہ ان کے ساتھ سفر کا سامان تیار کروں پھر خالی لوٹ آتا اور کچھ تیاری نہ کرتا، میں اپنے دل میں کہتا کہ میں تو کسی بھی وقت اپنا سامان تیار کر سکتا ہوں (جلدی کیا ہے)۔ اسی طرح دن گزرتے رہے اور لوگوں نے محنت مشقت اٹھا کر اپنا اپنا سامان تیار کر لیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان ایک صبح کو روانہ ہو گئے اور میں نے ابھی تک کچھ سامان نہ کیا تھا تو میں نے کہا کہ میں ان کے بعد ایک دو روز میں سامان تیار کر لوں گا پھر ان سے راستہ میں جا ملوں گا۔ جب وہ روانہ ہو گئے تو دوسری صبح کو میں نے سامان تیار کرنا چاہا لیکن اس روز بھی خالی لوٹ آیا اور کوئی تیاری نہ کی پھر تیسری صبح کو بھی ایسا ہی ہوا کہ خالی لوٹ آیا اور کوئی تیاری نہ کی۔ میرا برابر یہی حال رہا (کہ آج نکلتا ہوں کل نکلتا ہوں) اور ادھر سب لوگ جلدی جلدی سفر کرتے دور نکل گئے۔ میرا کئی بار ارادہ ہوا کہ میں بھی کوچ کروں اور ان سے مل جاؤں اور کاش! میں ایسا کرتا مگر تقدیر میں نہ تھا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کوچ کر جانے کے بعد مدینہ میں جب میں گھر سے نکلتا اور لوگوں سے ملتا تو میں منافقوں، معذور اور ضعیف و ناتواں آدمیوں سے ملتا اور مجھے اس سے رنج ہوتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے راستہ میں کہیں یاد نہ کیا یہاں تک کہ تبوک میں پہنچ گئے پھر تبوک پہنچ کر (ایک مرتبہ) لوگوں کے درمیان بیٹھے ہوئے فرمایا: ”یہ کعب نے کیا، کیا جو نہیں آیا؟“ بنی سلمہ کے ایک شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ! اس کو اس کے اچھے لباس اور حسن و جمال پر غرور نے آنے سے روکا۔ یہ سن کر سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے شخص! تو نے بہت برا کیا، اللہ کی قسم! یا رسول اللہ! ہم اس کی سوائے بہتری کے اور کوئی بات نہیں جانتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب یہ خبر ملی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آ رہے ہیں تو میرا غم تازہ ہو گیا اور مجھے خیال ہوا کہ کوئی ایسا حیلہ سوچنا چاہیے کہ جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غصہ سے بچ جاؤں اور اس بات پر عزیزوں میں سے عقلمند لوگوں سے مشورہ بھی لیا۔ جب یہ خبر ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے قریب آ گئے تو یہ سارے جھوٹے خیالات میرے دل سے جاتے رہے اور میں نے یقین کر لیا کہ میں جھوٹ بولنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غصہ سے نہ بچ سکوں گا تو میں نے سچ بولنے کا فیصلہ کر لیا۔ صبح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں داخل ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب سفر سے تشریف لاتے تو پہلے مسجد میں جاتے اور دو رکعت نماز پڑھتے۔ پھر لوگوں سے ملنے کے لیے بیٹھتے، اس عمل سے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہو چکے تو اس وقت جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے، انھوں نے آنا شروع کیا اور (جھوٹے) عذر (حیلے بہانے) بیان کیے اور قسمیں اٹھائیں، یہ لوگ تقریباً ً اسی (80) سے کچھ زائد تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حیلوں اور بہانوں کو تسلیم کر لیا اور ان سے بیعت لی اور اللہ سے ان کی مغفرت چاہی اور ان کے دل کے بھیدوں کو اللہ کے سپرد کر دیا۔ میں بھی حاضر ہوا اور السلام علیکم کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے مگر جیسے غصہ میں کوئی آدمی مسکراتا ہے پھر فرمایا: ”یہاں آؤ۔“ میں سامنے جا کر بیٹھا تو فرمایا: ”تو کیوں پیچھے رہ گیا تو نے تو سواری بھی خرید لی تھی؟“ میں نے عرض کی کہ کیوں نہیں (بیشک میرے پاس سواری موجود تھی) اللہ کی قسم! بیشک اس وقت اگر میں کسی دنیادار شخص کے سامنے بیٹھا ہوتا تو باتیں بنا کر اس کے غصے سے بچ جاتا، کیونکہ میں اچھا مقرر بھی ہوں مگر اللہ کی قسم! میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر آج میں جھوٹ بول کر آپ کو خوش کر لوں تو کل اللہ تعالیٰ (اصل حقیقت کھول کر) پھر آپ کو مجھ پر غصہ کر دے گا اور اگر میں آپ کو سچ بات بتا دوں، گو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچ بولنے کی وجہ سے مجھ پر غصہ کریں گے مگر آئندہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی مجھ کو امید تو رہے گی، اللہ کی قسم! میرے پاس کوئی بہانہ، عذر نہیں ہے، اللہ کی قسم! زور، طاقت، قوت، دولت سب میں کوئی میرے برابر نہ تھا اور میں یہ سب چیزیں ہوتے ہوئے پیچھے رہ گیا۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے بالکل سچ کہا۔ ”اور مجھے حکم دیا: ”جاؤ جب تک تیرے بارے میں اللہ کوئی حکم نہ دے۔“ میں اٹھ کر چلا تو میرے ساتھ قبیلہ بنی سلمہ کے چند آدمی بھی اٹھ کر میرے پیچھے آئے اور مجھ سے کہنے لگے کہ اللہ کی قسم! ہم نے تم سے ایسا کوئی قصور سرزد ہوتے نہیں دیکھا اور دیگر منافقوں کی طرح اگر تو بھی کوئی بہانہ کرتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا تیرے قصور کے لیے کافی ہوتی۔ اللہ کی قسم! وہ برابر مجھے لعنت ملامت کرتے رہے یہاں تک کہ ان کی باتوں سے میرے دل میں آیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوٹ کر چلوں اور اپنی اگلی بات (گناہ کے اقرار) کو جھٹلا کر کوئی بہانہ نکالوں، پھر میں نے ان سے پوچھا کہ اور بھی کوئی ہے جس نے میری طرح گناہ کا اقرار کیا ہو؟ انھوں نے کہا ہاں دو آدمی ہیں جنہوں نے تیری طرح اقرار کیا ہے اور ان سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا جو تجھ سے فرمایا ہے۔ میں نے پوچھا کہ وہ دو شخص کون کون سے ہیں؟ انھوں نے کہا مرارہ بن الربیع العمری اور ہلال بن امیہ وافقی رضی اللہ عنہم۔ انھوں نے ایسے دو نیک شخصوں کا بیان کیا جو بدر، کی لڑائی میں شریک ہو چکے تھے اور جن کے ساتھ رہنا مجھے اچھا معلوم ہوا۔ جب انھوں نے ان دو شخصوں کا بھی نام لیا تو (مجھے تسلی ہو گئی اور) میں چل دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے رہ جانے والوں میں، خاص کر ہم تینوں سے دوسرے آدمیوں کو بولنے سے منع فرما دیا تو ہم سے سب آدمی بچنے لگے (کوئی بات تک نہ کرتا) اور بالکل ناآشنا سے ہو گئے۔ ایسا معلوم ہوا جیسے زمین (آسمان) بدل گئے، وہ زمین ہی نہ رہی (جس پر ہم رہتے تھے)۔ اسی حالت میں پچاس راتیں گزریں۔ مرارہ اور ہلال رضی اللہ عنہ دونوں اپنے اپنے گھروں میں پڑے روتے رہے اور میں ایک جوان اور مضبوط آدمی تھا، میں باہر نکلتا اور مسلمانوں کے ساتھ مسجد میں نماز پڑھتا اور بازاروں میں برابر آتا جاتا تھا لیکن مجھ سے کوئی بات نہ کرتا اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہو کر بیٹھتے تو میں جا کر سلام کرتا اور غور سے دیکھتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے میرے سلام کے جواب میں کچھ لب مبارک ہلے یا نہیں اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب نماز پڑھنے لگتا اور ترچھی نظروں سے دیکھتا تو نماز کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف متوجہ ہوتے اور (نماز کے بعد) جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھتا تو منہ پھیر لیتے۔ اسی طرح ایک مدت گزری اور لوگوں کی اجنبیت زیادہ بڑھ گئی تو ایک روز میں چلا اور ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے باغ کی دیوار پر چڑھا، وہ میرے چچازاد بھائی تھے اور اس سے مجھے بہت محبت تھی۔ میں نے انھیں سلام کیا تو اللہ کی قسم! انھوں نے بھی جواب نہ دیا۔ میں نے کہا اے ابوقتادہ! تجھے اللہ کی قسم! کیا تو نہیں جانتا کہ مجھے اللہ و رسول کے ساتھ کتنی محبت ہے؟ وہ خاموش ہو رہے۔ میں نے پھر قسم دے کر دوبارہ یہی کہا لیکن وہ خاموش رہے پھر تیسری بار قسم دے کر یہی کہا تو اس نے یہ کہا کہ اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں۔ اس وقت میرے آنسو ٹپک پڑے اور میں پیٹھ موڑ کر دیوار پر چڑھ کر وہاں سے چلا آیا۔ (سیدنا کعب رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ جب میں بازار میں جا رہا تھا تو اتنے میں ملک شام کا ایک عیسائی کسان ملا جو مدینہ میں اناج فروخت کرنے لایا تھا، وہ کہہ رہا تھا کہ لوگو! مجھے کعب بن مالک کا بتلاؤ۔ لوگوں نے اسے بتلانے کو میری طرف اشارہ کیا، جب وہ میرے پاس آیا تو اس نے غسان کے بادشاہ کا ایک خط مجھے دیا، اس میں یہ لکھا تھا: ”امابعد! ہم نے سنا ہے کہ تمہارے پیغمبر (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نے تم سے بدسلوکی کی ہے اور اللہ نے تمہیں ایسا ذلیل نہیں بنایا ہے اور نہ ہی بیکار (تم تو کام کے آدمی ہو) تم ہمارے پاس چلے آؤ، ہم بڑی خاطر سے پیش آئیں گے۔“ میں نے پڑھ کر خیال کیا کہ یہ بھی اللہ کی طرف سے امتحان ہے۔ میں نے اسی وقت اس خط کو آگ کے تنور میں جھونک دیا (اور جلا دیا)۔ ابھی پچاس راتوں میں سے چالیس راتیں گزری تھیں کہ ناگہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھیجا ہوا ایک آدمی آیا اور کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ تم اپنی بیوی سے الگ رہو۔ میں نے پوچھا کہ کیا اسے طلاق دے دوں یا کیا کروں؟ اس نے کہا نہیں، اس سے الگ رہو۔ تعلقات زوجیت ادا نہ کرو۔ میرے دونوں ساتھیوں کو بھی یہی حکم دیا گیا۔ میں نے اپنی بیوی سے کہہ دیا کہ تم اپنے میکے چلی جاؤ، اور وہیں رہو جب تک کہ اللہ کی طرف سے کوئی حکم نازل نہ ہو۔ (وہ چلی گئی)۔ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ کی بیوی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ یا رسول اللہ! ہلال بن امیہ بہت ضعیف ہے اور اس کی خدمت کرنے والا کوئی نہیں، اگر میں اس کی خدمت کروں تو کیا آپ اس کو برا سمجھتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں! بلکہ تعلقات زوجیت نہ کرنا۔“ تو اس نے کہا کہ اللہ کی قسم! جس روز سے آپ کا عتاب ہوا ہے، سوائے رونے کے اور کچھ کرتا ہی نہیں۔ (پھر کہتے ہیں کہ) مجھ سے بھی میرے بعض عزیزوں نے کہا کہ اگر تم بھی اپنی بیوی کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگو (کہ وہ تمہاری خدمت کرتی رہے) تو مناسب ہے جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہلال بن امیہ کی بیوی کو اجازت دی (تمہیں بھی اجازت دیں گے)۔ میں نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں تو کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کی اجازت نہ مانگوں گا کیونکہ مجھے معلوم نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرمائیں (اجازت دیں یا نہ دیں) اور میں تو جوان آدمی ہوں۔ اس کے بعد دس راتیں اور گزریں اب پچاس راتیں پوری ہو گئیں، اس وقت سے جب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ہم سے کلام کرنے کی ممانعت فرما دی تھی، پچاسویں رات کی صبح کو جب میں فجر کی نماز پڑھ کر اپنے گھر کی چھت پر تھا، اسی حالت میں کہ میں بیٹھا ہوا تھا اور جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے بھی (سورۃ التوبہ: 117 میں) کہا ہے۔ میں اپنی زندگی سے تنگ آ گیا اور زمین بھی اتنی کشادہ ہونے کے باوجود میرے اوپر تنگ ہو گئی، اتنے میں، میں نے ایک پکارنے والے (سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ) کی آواز سنی جو سلع (نامی) پہاڑ پر چڑھ کر بلند آواز سے پکار رہے تھے کہ کعب بن مالک! خوش ہو جاؤ۔ پھر کہتے ہیں کہ یہ سنتے ہی میں سجدہ میں گر پڑا اور مجھے یقین ہو گیا کہ اب میری مشکل دور ہو گئی ہو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز کے بعد لوگوں کو اطلاع دی کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارا قصور معاف کر دیا ہے تو اب لوگ بشارت دینے کے لیے (جوق درجوق) میرے پاس اور میرے دونوں ساتھیوں (مرارہ اور ہلال رضی اللہ عنہم) کے پاس جانے لگے۔ ایک شخص (سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ) گھوڑا دوڑاتے ہوئے میرے پاس آئے اور اسلم قبیلے کا ایک شخص دوڑتا ہوا پہاڑ پر چڑھ گیا اور پہاڑ والے کی آواز مجھے گھوڑے والے کی آواز سے جلد پہنچی، جب یہ شخص جس کی بشارت دینے کی آواز مجھے پہنچی تھی میرے پاس آیا تو میں نے (خوشی میں) اپنے کپڑے اتار کر اسے پہنا دیے۔ واللہ! اس روز کپڑوں کی قسم سے میرے پاس یہی دو کپڑے تھے اور میں نے (ابی قتادہ) سے دو کپڑے مانگ کر پہنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلا۔ راستہ میں لوگ جوق درجوق ملتے اور مجھے توبہ قبول ہو جانے کی مبارکباد دیتے اور کہتے کہ اللہ کی معافی تم کو مبارک ہو۔ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہیں، لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد ہیں، پس مجھے دیکھتے ہی سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ جلدی سے اٹھے اور مصافحہ کیا اور مبارکباد دی۔ اللہ کی قسم! ان کے سوا مہاجرین میں سے اور کسی نے اٹھ کر مجھے مبارکباد نہیں دی اور میں ان کا یہ احسان کبھی بھولنے والا نہیں۔ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور (میں نے دیکھا کہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک خوشی سے جگمگا رہا تھا: ”کعب تجھے اس دن کی بشارت ہو جو ان سب دنوں میں سب سے بہتر ہے، جب سے تیری ماں نے تجھ کو جنا۔“(آگے) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! یہ بشارت آپ کی طرف سے ہے یا اللہ کی طرف سے؟ تو فرمایا: ”نہیں، بلکہ اللہ کی طرف سے۔“ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب خوش ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ چاند کی طرح روشن ہو جاتا اور ہم لوگ اس کو پہچان لیتے۔ جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھا تو میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! میں چاہتا ہوں کہ اپنی توبہ کی قبولیت کے شکریہ میں اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں خیرات کر کے اللہ اور اس کے رسول کو دے دوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کچھ مال خیرات کرو اور کچھ اپنے لیے رہنے دو، وہ تمہارے لیے بہتری کا ذریعہ ہے“ میں نے عرض کی کہ میں اپنا خیبر کا حصہ اپنے لیے رہنے دیتا ہوں اور باقی خیرات کرتا ہوں پھر عرض کی کہ یا رسول اللہ! بیشک میرے سچ کی ہی وجہ سے اللہ نے مجھے نجات دی اور میری توبہ میں یہ بھی ہے کہ جب تک زندہ ہوں کبھی جھوٹ نہ بولوں گا۔ اور اللہ کی قسم! میں نہیں سمجھتا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی آزمائش میں سچ بولنے کی وجہ سے کسی مسلمان پر اتنا فضل کیا ہو جتنا مجھ پر کیا ہے۔ جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس معاملہ میں سچ سچ عرض کر دیا اس وقت سے آج کے دن تک میں نے کبھی قصداً جھوٹ نہیں بولا اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ باقی زندگی میں بھی مجھے جھوٹ سے محفوظ رکھے گا۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سورۃ التوبہ کی یہ آیات (117 , 118) نازل کیں ”اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حال پر توجہ فرمائی .... اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچ بولنے والوں کے ساتھ رہو۔“ اللہ کی قسم میں تو اسلام لانے کے بعد سے اللہ تعالیٰ کا کوئی احسان اپنے اوپر اس سے بڑھ کر نہیں سمجھتا کہ اس نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سچ بولنے کی توفیق دی اور جھوٹ سے بچا یا۔ اگر میں جھوٹ بولتا تو دوسرے لوگوں (منافقوں) کی طرح جنہوں نے جھوٹ بولا، تباہ ہو جاتا۔ پس اللہ تعالیٰ نے جب وحی نازل کی تو ان جھوٹوں کے لیے ایسا برا لفظ اتارا کہ ویسا برا لفظ کسی کے لیے نہیں اتارا۔ فرمایا: ”اب جب تم لوٹ کر آئے تو یہ لوگ اللہ کی (جھوٹی) قسمیں کھائیں گے ....“ آیت تک (سورۃ التوبہ: 95 , 96)۔ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم تینوں آدمیوں کا حکم ان لوگوں کے حکم سے ملتوی رکھا گیا جنہوں نے جھوٹی قسمیں کھائیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول کر لیا اور ان سے تجدید بیعت کی اور اللہ سے ان کے لیے مغفرت چاہی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے بارے میں تاخیر کی یہاں تک کہ اللہ نے حکم کیا۔ اسی لیے اللہ نے (قرآن میں) یہ فرمایا: ”اور ان تین شخصوں کو (معاف کیا) جو پیچھے رہ گئے۔“(سورۃ التوبہ: 118) اور اس آیت میں پیچھے رہ جانے والوں سے یہی مراد ہے کہ ہمارے بارے میں تاخیر کی گئی اور ہم ڈھیل میں ڈال دیے گئے، یہ مراد نہیں کہ جہاد سے پیچھے رہ گئے بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کے پیچھے رہے جنہوں نے قسمیں کھا کر عذر بیان کیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے عذر قبول کر لیے۔
سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ نے ایام (جنگ) جمل میں مجھے اس بات سے فائدہ دیا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی، ورنہ قریب تھا کہ میں جمل والوں میں شریک ہو کر لڑتا، (انھوں نے) کہا کہ وہ بات یہ تھی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی کہ ایران والوں نے کسریٰ کی بیٹی (بوران بنت مشیرویہ) کو اپنا حکمران بنا لیا ہے تو فرمایا: ”جو قوم اپنے اوپر عورت کو حکمران بنائے گی وہ ہرگز فلاح حاصل نہ کر سکے گی۔“
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کو بلایا اور کچھ آہستہ سے فرمایا تو وہ رونے لگیں۔ پھر دوبارہ بلایا اور کچھ آہستہ سے فرمایا تو وہ ہنسنے لگیں۔ ہم نے (سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد) پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ اول یہ فرمایا تھا؟“ اسی مرض میں میری روح قبض ہو گی۔“ یہ سن کر میں رونے لگی، دوسری مرتبہ یہ فرمایا: ”میں اہل بیت میں سے سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملوں گی۔“ تو یہ سن کر میں خوش ہوئی۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس مرض کی حالت سے پہلے) سنا کرتی تھی کہ کوئی نبی اس وقت تک وفات نہیں پاتا جب تک اس کو (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) دنیا و آخرت (میں سے ایک کو پسند کرنے) کا اختیار نہ دیا جائے۔ پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی اس بیماری میں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی یہ سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گلا بیٹھ گیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آیت پڑھتے ہیں: ”ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ نے اپنے احسانات کیے ہیں“ پوری آیت (سورۃ النساء: 69) تو اس سے سمجھ لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخرت میں رہنا پسند کیا۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحت کی حالت میں فرمایا تھا: ”کوئی نبی اس وقت تک فوت نہیں ہوا جب تک جنت میں اس کو اس کا مقام نہیں دکھلایا گیا پھر (جب تک) اس کو یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ چاہے (تو دنیا میں) زندہ رہے یا آخرت کو اختیار کرے۔“ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وقت قریب آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سرمبارک میری ران پر تھا، اول تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غشی طاری ہوئی، پھر جب افاقہ ہوا تو نگاہ گھر کی چھت کی طرف لگائی اور فرمایا: ”اے اللہ! بلند رفیقوں میں رکھ۔“(یعنی آخرت کو پسند کیا)۔ اس وقت میں نے (اپنے دل میں) کہا کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ رہنا پسند نہیں کرتے اور مجھے اس حدیث کی تصدیق ہو گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو فرمایا کرتے تھے کہ نبی کو اختیار دیا جاتا ہے (پھر وفات ہوتی ہے) وہ صحیح ہے۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار ہوتے تو معوذات (سورۃ الاخلاص، الفلق اور الناس) پڑھ کر اپنے اوپر دم کیا کرتے اور ہاتھ اپنے بدن پر پھیرتے تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو میں یہ سورتیں پڑھ کر ان کے ہاتھوں پر دم کر کے ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر پر پھیرا کرتی۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات قریب ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے کمر لگائے بیٹھے تھے تو میں نے بغور سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے ہیں ”اے اللہ! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما اور مجھے (بلند) رفیقوں سے ملا دے۔“
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سرمبارک وفات کے وقت میرے سینہ پر تھا۔ جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر موت کی سختی دیکھی، اس کے بعد سے میں موت کی سختی کو کسی کے لئے برا نہیں سمجھتی۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کی بیماری میں ایک روز سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے باہر نکلے تو لوگوں نے پوچھا: ”اے ابوالحسن! آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے ہیں؟“ انہوں نے کہا ”اللہ کا شکر ہے، آج اچھے ہیں۔“ یہ سن کر سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ اللہ کی قسم! تم تین دن کے بعد لاٹھی کے آدمی رہ جاؤ گے (کہ جو چاہے ہنکالے جائے) اور اللہ کی قسم! میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بیماری میں عنقریب گزر جائیں گے، میں بنی عبدالمطلب کی موت کے وقت کی علامتوں کو خوب پہنچانتا ہوں، تو آؤ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خلافت کے بارے میں دریافت کر لیں، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں (یعنی بنی ہاشم کو) خلافت دیں تو بھی ہمیں معلوم ہو جائے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی دوسرے کو خلیفہ کریں تو بھی ہمیں معلوم ہو جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو بھی ہمارے بارے (اچھے سلوک کی بابت) میں فرما جائیں گے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم! اگر ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خلافت کا سوال کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا تو پھر لوگ کبھی بھی ہمیں خلیفہ نہ بنائیں گے اور میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی بھی خلافت کا سوال نہیں کروں گا۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ یہ بھی اللہ کی نعمتوں میں سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے گھر میں اور میری باری کے روز میری ٹھوڑی اور سینہ کے درمیان (سر رکھے ہوئے) وفات پائی اور اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت میرا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب دہن ملا دیا (اس طرح) کہ ایک روز میرے بھائی عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ ہاتھ میں مسواک لیے ہوئے آئے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اوپر ٹیکا دیے ہوئے تھی۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کو دیکھ رہے ہیں اور مجھے معلوم تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کو جیسا پسند کرتے تھے، میں نے عرض کی کہ کیا یہ مسواک آپ کے لیے لے لوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر کے اشارہ سے فرمایا: ”ہاں۔“ میں نے وہ مسواک (ان سے لے کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بیماری سخت تھی تو میں نے کہا کہ میں نرم کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر کے اشارے سے فرمایا: ”ہاں۔“ میں نے چبا کر نرم کر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مسواک دانتوں پر پھیری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پانی کی ایک چھاگل یا پانی کا ایک کٹورا (راوی عمر کو شک ہے) رکھا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھ پانی میں ڈالتے اور چہرہ مبارک پر پھیرتے اور فرماتے: ”لا الہٰ الا اللہ! موت میں بڑی سختیاں ہوتی ہیں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور فرمایا: ”(اللہ) بلند رفیقوں میں (رکھ)۔“ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک نکل گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ گر گیا۔