سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے غزوے کیے؟ انھوں نے جواب دیا کہ انیس (19)۔ پھر پوچھا گیا کہ آپ کتنے غزوات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے؟ تو انھوں نے کہا کہ سترہ غزوات میں۔ پھر پوچھا گیا کہ ان میں سے سب سے پہلے کون سا غزوہ ہوا؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ ”غزوہ عشیر یا عسیرہ۔“
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کی ایک ایسی بات دیکھی کہ اگر وہ بات مجھے حاصل ہوتی تو میں اس مقابل میں کسی نیکی کو نہ سمجھتا، وہ مجھے سب سے زیادہ پسند ہوتی۔ (ہوا یہ کہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مشرکوں پر بددعا کر رہے تھے کہ اتنے میں مقداد رضی اللہ عنہ آن پہنچے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہم (کبھی بھی) اس طرح نہیں کہیں گے جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے ان سے کہا تھا ”تم اور تمہارا پروردگار جاؤ اور دشمنوں سے لڑو“(سورۃ المائدہ: 24) بلکہ ہم تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داہنی طرف سے اور بائیں طرف سے اور سامنے سے اور پیچھے کی طرف سے (دشمنوں کے مقابل) لڑیں گے۔ میں نے دیکھا کہ (یہ بات سن کر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک چمکنے لگا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہو گئے۔
سیدنا براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے بیان کیا جو کہ بدر میں موجود تھے کہ ان کی تعداد اتنی ہی تھی جتنی طالوت (بادشاہ) کے ساتھ والوں کی تھی، جو ان کے ساتھ نہر پار کر گئے تھے اور وہ تین سو دس سے کچھ اوپر آدمی تھے۔ سیدنا براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! سوائے مومن (لوگوں) کے کوئی ان کے ساتھ دریا پار نہ جا سکا۔ (دیکھئیے سورۃ البقرہ کی آیت: 249)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (بدر کے دن) فرمایا: ”کون ابوجہل کو دیکھ کر اس کی خبر لائے گا؟ تو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما چلے تو اسے (اس حال میں) پایا کہ عفراء کے دونوں بیٹوں نے اسے اتنا مارا ہے کہ وہ ٹھنڈا ہو رہا ہے، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما نے کہا کہ کیا تو ہی ابوجہل ہے؟ اور اس کی ڈاڑھی پکڑ لی تو اس نے کہا: ”بھلا مجھ سے بڑھ کر کون شخص ہے جسے تم نے قتل کیا یا یوں کہا کہ اس شخص سے بڑھ کر کون ہے جسے اس کی قوم نے قتل کیا ہو؟
سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے دن قریش کے چوبیس سرداروں کی لاشوں کو بدر کے کنوؤں میں سے ایک گندے اور ناپاک کنویں میں پھینکنے کا حکم دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی قوم پر غلبہ پاتے تو تین راتیں اسی مقام پر ٹھہرے رہتے تھے پس جب بدر میں (رہتے ہوئے) تیسرا دن تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی پر زین کسی گئی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے اور آپ کے پیچھے صحابہ رضی اللہ عنہم بھی چلے وہ سمجھے کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کام سے جا رہے ہیں، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کنویں کی منڈیر پر کھڑے ہوئے اور انھیں (کفار قریش کو) ان کے اپنے نام اور ان کے باپوں سے کے نام سے پکارنے لگے کہ اے فلاں کے بیٹے فلاں، اے فلاں! کے بیٹے فلاں! کیا اب تمہیں یہ اچھا معلوم ہوتا ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کر لیتے، پس بیشک ہم سے ہمارے رب نے جو وعدہ کیا تھا، ہم نے پا لیا، کیا تم سے بھی تمہارے رب نے جو وعدہ کیا تھا تم نے اسے سچا پایا؟ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم آپ ان جسموں سے باتیں کرتے ہیں جن میں روح (موجود) نہیں ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے! میں جو کچھ کہہ رہا ہوں اس کو تم ان (کافروں) سے زیادہ نہیں سن رہے۔“
سیدنا رفاعہ بن رافع زرقی رضی اللہ عنہ جو کہ جنگ بدر میں شریک تھے، کہتے ہیں کہ جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ آپ بدر (لڑنے) والوں کو اپنے درمیان کیسا سمجھتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب مسلمانوں میں افضل (سمجھتا ہوں)۔“ یا اسی طرح کی کوئی اور بات کہی تو جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ اسی طرح جو فرشتے جنگ بدر میں حاضر ہوئے تھے (وہ بھی تمام فرشتوں میں افضل ہیں)۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر کے دن فرمایا: ”یہ جبرائیل علیہ السلام اپنے گھوڑے کا سر تھامے ہوئے اور لڑائی کے ہتھیار لگائے ہوئے (آئے) ہیں۔“
سیدنا مقداد بن عمرو کندی رضی اللہ عنہ جو کہ بنی زہرہ کے حلیف تھے اور غزوہ بدر میں بھی شریک تھے، کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ اس بارہ میں کیا کہتے ہیں کہ اگر میں (جنگ میں) ایک کافر سے ملوں اور ہم دونوں ایک دوسرے کو قتل کرنے کے درپے ہو جائیں، تو وہ (کافر) میرے ایک ہاتھ پر تلوار مارے اور اسے کاٹ ڈالے، پھر وہ ایک درخت کی پناہ لے کر کہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا تابع فرمان (مسلمان) ہو گیا تو کیا میں اس کے یوں کہنے کے بعد اسے قتل کر ڈالوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں اسے قتل نہ کرو۔“ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! بیشک اس نے میرا ایک ہاتھ (بھی) کاٹ ڈالا اور کاٹنے کے بعد ایسا کہنے لگا (کہ مسلمان ہو گیا)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں اس کو قتل مت کرو ورنہ بیشک اسے وہ درجہ حاصل ہو جائے گا جو تجھے اس کے قتل کرنے سے پہلے حاصل تھا اور تیرا وہ حال ہو جائے گا جو اسلام کا کلمہ پڑھنے سے پہلے اس (کافر) کا حال تھا۔“
سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں جنگ بدر کے دن عبیدہ بن سعید بن عاص سے ملا اور وہ ہتھیاروں میں اس طرح غرق تھا کہ اس کی صرف دونوں آنکھیں نظر آ رہی تھیں اور اس کی کنیت ابوذات الکرش تھی، پس اس نے کہا کہ میں ابوذات الکرش ہوں، میں نے اس پر اپنے نیزے سے حملہ کیا، اس کی آنکھ پر (نیزہ) مارا تو وہ مر گیا۔ (سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ جب وہ مر گیا تو میں نے اپنا پاؤں اس کی لاش پر رکھا اور دونوں ہاتھ لمبے کر کے بہت مشکل سے وہ نیزہ اس کی آنکھ سے نکالا، اس کے دونوں کنارے ٹیڑھے ہو گئے تھے، پس یہ نیزہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے مانگا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیدیا، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو میں نے (پھر) لے لیا۔ پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے وہ نیزہ مانگا تو میں نے انھیں دے دیا۔ پھر جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات ہو گئی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مانگا، میں نے انھیں دے دیا پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت واقع ہوئی تو میں نے لے لیا۔ پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے مانگا تو میں نے انھیں دے دیا۔ پھر جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ شہید کیے گئے تو وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ (اور ان) کی اولاد کے پاس رہا۔ آخر میں سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ان سے مانگ لیا اور وہ ان کے پاس رہا یہاں تک کہ وہ شہید ہو گئے۔
سیدہ ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میری شادی سے اگلے روز (یعنی عروسی کے روز) صبح میرے پاس تشریف لائے، کچھ لڑکیاں اس وقت دف بجا رہی تھیں اور بدر کے دن ان کے جو بزرگ مارے گئے ان کی تعریفیں کر رہی تھیں۔ ایک لڑکی ان میں سے یہ کہنے لگی کہ ہم میں ایک نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہے جو جانتا ہے کہ کل کیا ہو گا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس طرح مت کہو اور پہلے جو کہہ رہی تھی وہی کہو۔“