سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ غزوہ احد کے دن جب مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر بھاگے تو سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک چمڑے کی سپر کی آڑ کیے رہے (تاکہ کافروں کے تیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ لگ جائیں) اور سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بڑے تیرانداز اور کمان کو بڑے زور سے کھینچنے والے تھے ان کی دو یا تین کمانیں اس دن ٹوٹ گئیں اور جب کوئی مسلمان تیروں کی ترکش لیے ادھر سے گزرتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ”یہ سب تیر ابوطلحہ کے سامنے ڈال دے۔“ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سر اٹھا کر کافروں کو دیکھنے لگے تو سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر فدا (قربان) ہوں آپ سر نہ اٹھائیے کہیں کافروں کے تیروں میں سے کوئی تیر آپ کے نہ لگ جائے، میرے سینہ آپ کی آڑ کر رہا ہے۔ اور میں (انس رضی اللہ عنہ) نے (اس جنگ میں) ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ وہ اپنا کپڑا اٹھائے ہوئے، پنڈلیاں کھولے ہوئے، پانی کی مشکیں جلدی جلدی لاتیں اور لوگوں کے منہ میں پانی ڈالتیں، پھر لوٹ جاتیں اور مشکیں بھر کر لاتیں اور لوگوں کے منہ میں پانی ڈالتیں (میں نے ان کی پازیبیں دیکھیں) اس دن سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے دو یا تین مرتبہ تلوار گر پڑی تھی۔
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی شخص کے بارے میں جو زمین پر چلتا ہو یہ نہیں سنا کہ وہ جنتی ہے سوائے عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں اور انہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ”.... اور بنی اسرائیل میں سے ایک گواہ نے اسی طرح کی گواہی بھی دی .... پوری آیت۔“(الاحقاف: 10)
سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ایک خواب دیکھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا کہ میں ایک باغ میں ہوں اور اس کی کشادگی اور سرسبزی کی تعریف کی، اور اس کے درمیان میں ایک لوہے کا ستون ہے جس کا پایہ زمین میں ہے اور سر آسمان میں، اس کے اوپر کی طرف ایک کڑا لگا ہے۔ تو مجھے کہا گیا کہ اس کے اوپر چڑھ۔ میں نے کہا کہ میں اتنی طاقت نہیں رکھتا (نہیں چڑھ سکتا) پھر ایک خدمتگار آیا اور اس نے پیچھے کی طرف سے میرے کپڑے اٹھا دیے، پس میں چڑھنے لگا یہاں تک کہ چوٹی پر پہنچ گیا اور میں نے وہ کڑا پکڑ لیا تو مجھ سے کہا گیا کہ مضبوطی سے تھامے رکھ۔ جب تک میں نیند سے اٹھا یہ کڑا تھامے رہا۔ میں نے یہ خواب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”باغ سے دین اسلام مراد ہے اور ستون سے مراد اسلام کا ستون (کلمہ شہادت یا پانچوں ارکان) اور کڑا عروۃ الوثقی ہے اور تو اپنی موت تک اسلام پر قائم رہے گا۔“
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی پر اتنا رشک نہیں کیا جتنا خدیجہ رضی اللہ عنہا پر کیا حالانکہ میں نے ان کو دیکھا تک نہیں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کا بہت ذکر کیا کرتے تھے اور جب کبھی بکری کاٹتے تو اس کے حصے کر کے خدیجہ رضی اللہ عنہ کی سہیلیوں کو بھیج دیتے۔ کبھی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یوں کہتی کہ شاید دنیا میں خدیجہ رضی اللہ عنہا کے سوا اور کوئی عورت نہیں ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ”خدیجہ میں یہ یہ صفتیں تھیں اور میری اولاد انہی کے پیٹ سے ہوئی۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ یا رسول اللہ! خدیجہ (رضی اللہ عنہا) آپ کے پاس سالن کا یا کھانے کا یا پینے کا ایک برتن لا رہی ہیں جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو انھیں ان کے رب کی طرف سے اور میری طرف سے سلام کہنا اور انھیں جنت میں ایک گھر کی خوشخبری دینا جو ایک خولدار موتی کا ہو گا جس میں نہ شور ہو گا اور نہ کوئی تکلیف نہ تھکن (پریشانی وغیرہ) ہو گی۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہن ہالہ بنت خویلد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (اندر آنے کی) اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدیجہ کا اجازت لینا یاد آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے گھبرا گئے اور فرمایا: ”اے اللہ! (کیا) یہ ہالہ ہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مجھے رشک آیا۔ میں نے کہا کیا آپ قریش کی ایک بوڑھی عورت کو یاد کرتے ہیں، جس کے (دانت گر کر) صرف سرخ سرخ مسوڑھے رہ گئے تھے، جو بہت پہلے فوت ہو گئی تھیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کے بدل میں اس سے اچھی عورت عنایت فرمائی۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا آئی اور کہنے لگی کہ یا رسول اللہ! مجھے (اسلام لانے سے پہلے) ساری دنیا میں کسی ڈیرے (یعنی قوم) والوں کا ذلیل ہونا اتنا پسند نہ تھا جتنا آپ کے ڈیرے والوں کا ذلیل ہونا پسند تھا پھر آج کے دن مجھے ساری دنیا میں کسی ڈیرے والوں کا عزت دار ہونا اتنا پسند نہیں جتنا آپ کے ڈیرے والوں کا عزت دار ہونا پسند ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں بھی ایسا ہی سمجھتا ہوں ....۔“ اور باقی حدیث گزر چکی ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ سے (وادی) بلدح میں ملے (اس وقت) ابھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونا شروع نہیں ہوئی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھانے کا دسترخوان چنا گیا تو انھوں نے وہ کھانا کھانے سے انکار کیا۔ پھر زید نے کہا کہ میں ان جانوروں کا گوشت نہیں کھاتا جنہیں تم بتوں کے نام پر ذبح کرتے ہو، میں اسی جانور کا گوشت کھاؤں گا جو اللہ کے نام پر ذبح کیا جائے اور زید قریش کا جانوروں کو ذبح کرنے کا طریقہ برا سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ اللہ نے ہی بکری کو پیدا کیا اور آسمان سے اس کے پینے کے لیے پانی نازل فرمایا اور اس کے کھانے کے لیے زمین میں چارہ اگایا پھر تم اسے اللہ کے نام کے سوا اوروں کے نام پر ذبح کرتے ہو۔ وہ ان (کے اس فعل) سے انکار کرتا تھا اور اس کو بڑا گناہ خیال کرتا تھا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سن رکھو! جو کوئی قسم کھانا چاہے تو وہ اللہ کے سوا اور کسی کی قسم نہ کھائے، قریش کے لوگ اپنے باپ دادا کی قسم کھایا کرتے تھے۔“(اس وجہ سے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے باپ دادا کی قسم نہ کھاؤ۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شاعروں کی باتوں میں سب سے زیادہ سچا لبید (ابن ربیعہ بن عامر) کا یہ کلمہ ہے کہ ”اللہ کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ فنا ہو جائے گا۔“ اور (جاہلیت کا ایک شاعر) امیہ بن ابی صلت مسلمان ہونے کے قریب تھا۔“