ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس ایک قیافہ جاننے والا (مدلجی) آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی موجود تھے اور سیدنا اسامہ بن زید اور سیدنا زید بن حارثہ (رضی اللہ عنہما)(دونوں باپ بیٹا ایک چادر میں) لیٹے ہوئے تھے (منہ اور جسم کا سارہ حصہ قدموں کے سوا چھپا ہوا تھا) تو اس نے کہا کہ یہ پاؤں تو ایک دوسرے سے نکلے ہیں پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس بات سے بہت خوش ہوئے اور اسے پسند کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ بات بیان کی۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر تیار کیا اور اس کا سردار سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا (جو نوعمر اور کمسن تھے) بعض لوگوں نے سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کی سرداری پر طعن کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(لوگو!) اگر تم اسامہ کی سرداری پر طعن کرتے ہو تو اس سے پہلے تم نے اس کے باپ کی سرداری پر بھی طعن کیا، اللہ کی قسم! بیشک وہ (زید رضی اللہ عنہ) سرداری کے لائق تھا اور ان لوگوں میں سے تھا جو مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں اور اس کے بعد یہ (اسامہ رضی اللہ عنہ) بھی مجھے محبوب ترین لوگوں میں سے ہے۔“
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ بنی مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی تو لوگوں نے کہا کہ اس کے بارے میں کون نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کرے گا؟ (کہ اسے سزا نہ ہو) پس کسی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (یہ بات) عرض کرنے کی جرات نہ ہوئی تو سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک بنی اسرائیل میں بھی جب کوئی شریف (بااثر) شخص چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر کوئی غریب شخص چوری کرتا تو اس کا ہاتھ کاٹ ڈالتے، اگر (اس کی جگہ چوری کرنے والی میری بیٹی) فاطمۃالزہراء بھی ہوتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالتا۔“
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انھیں اور سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو اٹھا لیتے اور فرماتے: ”اے اللہ! ان دونوں سے محبت کر، بیشک میں بھی ان سے محبت کرتا ہوں۔“
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک لڑکا ان کے ایک طرف آ کر یہ کہتے ہوئے بیٹھا کہ اے اللہ مجھے ایک نیک ساتھی عنایت فرما تو سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم کہاں سے آئے؟ اس نے کہا کہ کوفہ سے، سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیا تمہارے شہر میں یا تم لوگوں میں وہ شخص نہیں ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے رازوں سے واقف تھے جن کو ان کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا؟ یعنی حذیفہ رضی اللہ عنہ۔ اس نے کہا کہ ہیں۔ سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیا تمہارے شہر میں یا تم لوگوں میں وہ شخص نہیں ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کی زبان پر شیطان کے شر سے پناہ دے رکھی ہے یعنی عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ۔ اس نے کہا کہ وہ بھی ہیں۔ ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیا تمہارے شہر میں یا تم لوگوں میں وہ شخص نہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسواک رکھتے تھے یا تکیہ (یا راز سے واقف تھے یعنی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما)؟ اس نے کہا کہ ہاں ہیں۔ سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا کہ عبداللہ اس سورت کو کیسے پڑھتے تھے ((واللّٰیل اذا یغشٰی۔ والنّھار اذا تجلّٰی))۔ آگے کیونکر، میں نے کہا ((والّذکر والانثٰی)) کہنے لگے کہ یہاں (شام) کے لوگ بھی عجیب ہیں برابر میرے پیچھے پڑے رہے، مجھ سے غلطی کرانے ہی کو تھے جس طرح میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، اس کے سوا اور طرح بتا کر۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر امت کا ایک امین (جو امانت و دیانت میں سب سے بڑھ کر ہو) گزرا ہے اور اس امت میں ہمارے امین ابوعبیدہ ابن جراح ہیں۔
سیدنا براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے پر تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ”اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں، تو بھی اس سے محبت کر۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ(اہل عراق میں سے) ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ اگر کوئی احرام والا شخص مکھی کو مار ڈالے؟ تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اہل عراق مکھی کو مار ڈالنے کے بارے میں (تو) پوچھتے ہیں حالانکہ بیشک انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے کو قتل کر ڈالا اور (جن کے بارے میں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”یہ دونوں دنیا میں میرے پھول ہیں۔“