سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کھانے کو برا نہیں کہا، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل چاہتا تو اسے کھا لیتے ورنہ چھوڑ دیتے (برائی نہ کرتے)۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح (آرام سے اور ٹھہر ٹھہر کر) گفتگو کرتے کہ اگر کوئی گننے والا چاہتا تو ان (الفاظ) کو گن سکتا۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ اس رات (شب معراج) کا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد کعبہ سے لے جایا گیا، قصہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونے سے پہلے تین فرشتے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مسجدالحرام میں (سیدنا جعفر بن ابی طالب اور سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے درمیان) سو رہے تھے۔ ان (فرشتوں) میں سے ایک نے کہا کہ ان میں سے وہ کون ہے (جسے لے جانے کا حکم ہوا ہے)؟ دوسرے نے کہا کہ وہ (درمیان والا) ان میں سے بہتر ہے۔ تیسرے نے کہا جو ان سب میں بہتر ہے، اسی کو لے چلو۔ اس رات اتنا ہی ہوا اور اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دوسری رات کو دیکھا جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دل سے دیکھا کرتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں سوتی تھیں لیکن دل نہیں سوتا تھا اور سب پیغمبروں کا یہی حال ہے کہ ان کی آنکھیں سوتی ہیں اور دل نہیں سوتا۔ پس جبرائیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ لیا پھر آسمان پر چڑھا لے گئے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ ہی کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مقام زوراء میں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پانی کا ایک برتن لایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اس برتن میں رکھ دیا، پھر پانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں سے پھوٹنے لگا، سب لوگوں نے وضو کر لیا۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ آپ کتنے آدمی تھے؟ تو جواب دیا کہ تین سو یا تین سو کے قریب۔
سیدنا عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم تو معجزوں کو اللہ کی برکت اور عنایت سمجھتے تھے اور تم ان سے ڈرتے ہو۔ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ پانی کم پڑ گیا پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بچا ہوا پانی ہو تو لے آؤ تو لوگ ایک برتن لائے جس میں تھوڑا سا پانی تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اس برتن میں ڈال دیا پھر فرمایا: ”آؤ۔“ برکت والا پانی لو اور برکت اللہ کی طرف سے ہے۔“(سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ میں نے خود دیکھا: ”پانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں سے پھوٹ رہا تھا اور ہم (اس وقت) کھانا کھاتے وقت کھانے کی تسبیح سنتے تھے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک کہ تم لوگ ان لوگوں سے نہ لڑو جو بالوں والے جوتے پہنتے ہوں گے .... یہ طویل حدیث گزر چکی ہے (دیکھئیے کتاب: جہاد اور جنگی حالات کے بیان میں۔۔۔ باب: ترکوں سے جنگ کا بیان) اور اس روایت کے آخر میں کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”.... اور ایک ایسا دور آئے گا کہ کوئی تم میں سے اپنے سارے گھربار، مال و دولت سے بڑھ کر مجھے دیکھ لینا زیادہ پسند کرے گا۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک تم خوز اور کرمان (کے رہنے والے) عجمیوں (ایرانیوں) سے نہ لڑو جن کے منہ سرخ، ناکیں پھیلی ہوئی، آنکھیں چھوٹی ہوں گی، ان کے منہ تہ بہ تہ ڈھالوں کی مانند ہوں گے، جوتے بالوں والے (پہنتے) ہوں گے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قریش کا یہ قبیلہ (بنی امیہ) لوگوں کو تباہ کرے گا۔“ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا: ”کاش! لوگ اس سے الگ رہیں۔“