سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خضاب کیا تھا؟ انھوں نے کہا کہ نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں کنپٹیوں پر تھوڑی سی سفیدی آئی تھی۔
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میانہ قامت تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں کندھوں میں فاصلہ تھا (سینہ چوڑا تھا)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال کان کی لو تک پہنچتے تھے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سرخ (دھاری دار) حلہ پہنے ہوئے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر خوبصورت میں نے کبھی نہیں دیکھا۔
سیدنا براء رضی اللہ عنہ سے ایک دوسری روایت میں منقول ہے کہ آپ سے کہا گیا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک تلوار کی طرح (لمبا پتلا) تھا؟ انھوں نے کہا کہ نہیں بلکہ چاند کی طرح گول اور چمکدار۔
سیدنا ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو (دوپہر کو) وادی بطحاء میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک برچھی (بطور سترہ) گڑی تھی .... یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے (دیکھئیے کتاب: نماز کا بیان۔۔۔ باب: امام کا سترہ مقتدیوں کا (بھی) سترہ ہے) اور اس روایت میں سیدنا ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگ اٹھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ تھام کر اپنے (برکت کے لیے) چہروں پر پھیرنے لگے۔ سیدنا ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ تھاما اور اپنے منہ پر رکھا تو وہ برف سے زیادہ ٹھنڈا اور مشک سے زیادہ خوشبودار تھا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں (آدم علیہ السلام سے لے کر) برابر آدمیوں کے بہتر قرنوں میں ہوتا آیا (یعنی شریف اور پاکیزہ نسلوں میں) یہاں تک کہ وہ قرن آیا جس میں میں پیدا ہوا۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (شروع میں) پیشانی کے بال سامنے لٹکاتے اور مشرک لوگ مانگ نکالا کرتے۔ اہل کتاب بالوں کو لٹکاتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس بات میں کوئی حکم نہ آتا تو اہل کتاب کی موافقت (بہ نسبت مشرکوں کے) پسند فرماتے پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سر میں مانگ نکالنے لگے۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فحش گو نہ تھے اور نہ ہی بدزبان بنتے اور فرماتے۔“ تم میں بہتر لوگ وہی ہیں جن کے اخلاق اچھے ہوں۔“
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو باتوں میں اختیار دیا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو اختیار کرتے جو آسان ہوتی بشرطیکہ گناہ نہ ہو، اگر گناہ ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ اس سے الگ رہتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے اپنی ذات کے لیے بدلا نہیں لیا، بلکہ جب اللہ کے حکم کو کوئی ذلیل کرتا تو اللہ کے لیے اس سے بدلا لیا کرتے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ریشم اور کوئی (بھی) باریک کپڑا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی سے زیادہ ملائم نہیں دیکھا اور نہ کوئی خوشبو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو سے بہتر سونگھی۔