سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگوں کو کانوں کی طرح پاتے ہو، جو لوگ جاہلیت کے دور میں اچھے، شریف گنے جاتے تھے وہی اسلام کے دور میں بھی اچھے اور شریف ہیں بشرطیکہ دین کا علم حاصل کریں اور حکومت اور سرداری کے زیادہ لائق اس کو پاؤ گے جو حکومت اور سرداری کو بہت ناپسند کرتا ہو اور آدمیوں میں سب سے برا اس کو پاؤ گے جو دورخا (دوغلا) ہو، ان لوگوں میں ایک منہ لے کر آئے، دوسرے لوگوں میں دوسرا منہ لے کر جائے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان لوگ امامت اور خلافت میں مسلمان قریش کے تابع ہیں جیسے (عرب کے) کافر (کفر کے دور میں بھی) قریش کے تابع ہیں اور آدمیوں کا حال کانوں کی طرح ہے، جو لوگ جاہلیت کے دور میں بھی اچھے اور شریف تھے وہی اسلام کے دور میں بھی اچھے اور شریف ہیں بشرطیکہ دین کا علم حاصل کریں۔ تم بہت اچھا آدمی اس کو پاؤ گے جو سب سے زیادہ حکومت اور سرداری کو برا سمجھتا ہو، یہاں تک کہ اس میں گرفتار ہو جائے۔“
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو یہ خبر پہنچی کہ سیدنا عبداللہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ عنقریب عرب کا بادشاہ ایک قحطانی ہو گا۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ یہ سن کر غصہ میں آئے اور خطبہ سنانے کھڑے ہوئے، پہلے اللہ کی جیسی چاہیے ویسی تعریف کی پھر کہنے لگے کہ امابعد! مجھے یہ پہنچی ہے کہ تم میں سے بعض لوگ ایسی احادیث بیان کرتے ہیں جن کی سند اللہ کی کتاب سے نہیں نکلتی اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں، پس یہ لوگ جاہل ہیں، ان سے اور ان کے خیالات سے بچے رہو جن خیالات نے ان کو گمراہ کر دیا ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: یہ خلافت اور سرداری قریش میں رہے گی جو کوئی ان کی دشمنی کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کو سرنگوں (اوندھا) کر دے گا۔ جب تک (کہ قریش) دین اور شریعت کو قائم رکھیں گے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قریش، انصار، جہینہ، مزینہ، اسلم، اشجع اور غفار ان سب قبیلوں کے لوگ میرے خیرخواہ ہیں اور اللہ اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے سوا ان کا کوئی حمایتی نہیں۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ خلافت قریش میں رہے گی، جب تک (دنیا میں) ان کے دو آدمی بھی باقی رہیں۔“
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور عرض کی کہ آپ نے (ذی القربیٰ کا حصہ) بنی مطلب کو دیا اور ہم (بنی امیہ) اور بنی مطلب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ہی رشتہ رکھتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ (تو صحیح ہے) مگر بنی ہاشم اور بنی مطلب ہمیشہ ایک ہی رہے۔“
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”جس شخص نے اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو جان بوجھ کر اپنا باپ بنایا وہ کافر ہو گیا جو شخص اپنے آپ کو کسی دوسری قوم کا بتلائے، جس میں سے وہ نہیں ہے تو وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنا لے۔“
سیدنا واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بڑا بہتان (اور سخت جھوٹ) یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ کے سوا اور کسی کو اپنا باپ کہے یا وہ بات کہے جو اس کی آنکھ نے خواب میں نہیں دیکھی یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر وہ (جھوٹی) بات لگائے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمائی۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر (کھڑے ہو کر) فرمایا: ”قبیلہ غفار کو اللہ نے بخش دیا اور قبیلہ اسلم کو اللہ نے بچا دیا اور قبیلہ عصیہ نے اللہ اور اس کے رسول نافرمانی کی۔“
سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ سے ان لوگوں نے بیعت کی ہے جو حاجیوں کا مال اسباب چرایا کرتے تھے یعنی قبیلہ اسلم اور غفار اور مزینہ کے لوگوں نے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی کہا کہ ”اور جہینہ کے لوگوں نے“ یہ شک ابن ابی یعقوب راوی کو ہے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بتلاؤ! اسلم اور غفار اور مزینہ اور جہینہ (یہ چاروں قبیلے) بنی تمیم، بنی عامر اور اسد اور غطفان سے بہتر ہیں، کیا اگلے (چاروں) خراب اور برباد ہوئے؟ اقرع نے کہا ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ ان سے بہتر ہیں۔“