سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو ساٹھ ہاتھ لمبا بنایا پھر فرمایا کہ: ”جا! ان فرشتوں کے گروہ کو سلام کر، پھر سن کہ وہ تجھے کیا جواب دیتے ہیں، وہی تیرا اور تیری اولاد کا سلام ہو گا۔“ آدم علیہ السلام نے کہا: ”السلام علیکم“ تو انھوں نے جواب دیا ”السلام علیک ورحمتہ اللہ“۔ ”ورحمتہ اللہ“ کا لفظ انھوں نے بڑھایا۔ پس وہ سب لوگ جو قیامت کے دن جنت میں داخل ہوں گے وہ سب آدم علیہ السلام کی صورت (حسن اور قامت) پر ہوں گے (آدم کے بعد) پھر اب تک قد چھوٹے ہوتے رہے
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ یہود کے عالم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کی خبر پہنچی تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تین باتیں پوچھتا ہوں، پیغمبر کے سوا کوئی اور ان کو نہیں جان سکتا (1) قیامت کی پہلی نشانی کیا ہے؟ (2) جنتی لوگ جنت میں جا کر پہلے کیا کھائیں گے؟ (3) بچہ اپنے باپ کے مشابہ کیوں ہوتا ہے اور اسی طرح اپنے ننہیال کے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابھی ابھی جبرائیل علیہ السلام نے مجھے یہ باتیں بتا دیں تو سیدنا عبداللہ نے کہا کہ یہ (جبرائیل) تمام فرشتوں میں سے یہود کا دشمن ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کی پہلی نشانی ایک آگ ہے جو لوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف لے جائے گی اور پہلا کھانا جنتی لوگوں کا مچھلی کے کلیجے پر جو ٹکڑا لگا ہوتا ہے وہ ہو گا۔ بچہ کے مشابہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جب مرد عورت سے صحبت کرتا ہے اگر مرد کا پانی آگے بڑھ جاتا ہے (غالب آ جاتا ہے)۔ تو بچہ باپ کے مشابہ ہوتا ہے اور اگر عورت کا پانی آگے بڑھ جاتا ہے تو اس کے مشابہ ہو جاتا ہے۔“ پس (عبداللہ بن سلام نے یہ سن کر) کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ پھر انھوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! یہودی نہایت جھوٹے لوگ ہیں، آپ کے پوچھنے سے پہلے اگر ان کو معلوم ہو جائے کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں تو وہ مجھے جھوٹا (برا) کہیں گے۔ (کبھی میری تعریف نہ کریں گے) یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور سیدنا عبداللہ بن سلام ایک کوٹھٹری میں چلے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (یہودیوں) سے پوچھا: ”عبداللہ بن سلام تم میں کیسا آدمی ہے؟“ انھوں نے کہا عبداللہ بن سلام عالم ہیں اور عالم کے بیٹے اور سب سے افضل اور سب سے افضل کے بیٹے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر عبداللہ مسلمان ہو جائے (کیا تم بھی مسلمان ہو جاؤ گے)؟، انھوں نے کہا کہ اللہ انھیں اس (مسلمان ہونے) سے بچائے رکھے۔ پس سیدنا عبداللہ کوٹھڑی سے نکلے اور کہا کہ ”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔“ اس وقت یہودی کہنے لگے کہ ”تو ہم سب میں برا آدمی ہے اور سب سے برے شخص کا بیٹا ہے“ اور انھیں برا بھلا کہنے لگے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر بنی اسرائیل نہ ہوتے تو گوشت نہ سڑتا اور اگر حواء علیہ السلام نہ ہوتیں تو کوئی عورت اپنے شوہر سے دغا (خیانت) نہ کرتی۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کو دوزخ میں سب سے ہلکا عذاب ہو گا، اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا کہ اگر تیرے پاس اس وقت زمین بھر کا مال ہو تو اس کو دے کر تو اپنے آپ کو چھڑانا چاہے گا؟ تو وہ کہے گا کہ بیشک۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے تو تجھ سے اس سے بھی بہت آسان بات چاہی تھی جب تو آدم کی پشت میں تھا کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ بنانا، تو نے نہ مانا اور شرک پر ہی اڑا رہا۔“
سیدنا عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی شخص دنیا میں ناحق (ظلم سے) مارا جاتا ہے تو اس کے خون کے وبال کا ایک حصہ آدم کے پہلے بیٹے (قابیل) پر پڑتا ہے کیونکہ اس نے سب سے پہلے ناحق خون کی بنا قائم کی تھی۔“
2. اللہ تعالیٰ کا قول ”یہ لوگ آپ سے ذوالقرنین کا واقعہ پوچھتے ہیں تو کہہ دیجئیے کہ میں ان کا تھوڑا سا حال تمہیں پڑھ کر سناتا ہوں، ہم نے اسے زمین میں قوت عطا فرمائی تھی اور اسے ہر چیز کے سامان بھی عنایت کیے تھے“ (کہف 83، 84)۔
ام المؤمنین زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھبرائے ہوئے ان کے پاس گئے اور فرما رہے تھے: ”لا الہٰ الا اللہ! عرب کی خرابی اس آفت سے ہونے والی ہے جو نزدیک آ پہنچی، آج یاجوج ماجوج کی دیوار میں اتنا سوراخ ہو گیا۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے حلقہ کر کے بتلایا۔ ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! کیا ہم ہلاک ہو جائیں گے جب کہ نیک لوگ بھی ہم میں موجود ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں جب برائی زیادہ پھیل جائے (تو نیک بد سب لپیٹ میں آ جاتے ہیں)۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) فرمائے گا کہ اے آدم! پس وہ کہیں گے کہ میں حاضر ہوں اور مستعد ہوں سب بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔“ پھر اللہ کہے گا کہ دوزخ کا لشکر نکال (دوزخی لوگوں کو نکال) وہ پوچھیں گے کہ کتنے لوگوں کو نکالوں؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے۔ پس اس وقت (مارے خوف کے) بچہ بوڑھا ہو جائے گا اور ہر حاملہ عورت اپنا حمل گرا دے گی اور تو لوگوں کو دیکھے گا کہ جیسے وہ مست بیہوش ہیں حالانکہ ان کو نشہ نہ ہو گا بلکہ اللہ کا عذاب بہت سخت ہے۔“ صحابہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہزار میں سے ایک (جنتی) ہم میں سے کون ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خوش ہو جاؤ! تم میں سے ایک آدمی کے مقابلے میں یاجوج ماجوج (دوسرے کافروں) میں سے ہزار آدمی ہوں گے، پھر فرمایا: ”قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! مجھے امید ہے کہ تم تمام جنتی لوگوں کے ایک چوتھائی ہو گے۔“ ہم نے (مارے خوشی کے) اللہ اکبر کہا۔ پھر فرمایا: ”مجھے امید ہے کہ تم تمام جنتی لوگوں کے تہائی حصہ ہو گے۔“ ہم نے پھر اللہ اکبر کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”مجھے امید ہے کہ تم تمام جنتی لوگوں کے نصف برابر ہو گے۔“ ہم نے پھر اللہ اکبر کہا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم (تمام دنیا کے) لوگوں میں ایسے ہو جیسے سفید بیل کی کھال میں ایک کالا بال یا کالے بیل کی کھال میں ایک سفید بال۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابراہیم علیہ السلام نے (ساری عمر) جھوٹ نہیں بولا سوائے تین دفعہ کے۔ دو جھوٹ تو خالص اللہ کے لیے۔ ایک تو ان کا (بطور توریہ) یہ کہنا کہ ”میں بیمار ہوں“ دوسرا یہ کہنا کہ ”(میں نے انھیں نہیں توڑا) بلکہ اس بڑے بت سے کیا (توڑا) ہے“ اور بیان کیا (تیسرے یہ کہ) ابراہیم علیہ السلام اور سارہ (ان کی بیوی) دونوں (ایک سفر میں) جا رہے تھے کہ ایک ظالم بادشاہ کے ملک میں پہنچے تو اس (بادشاہ) سے کہا گیا کہ یہاں ایک مرد آیا ہے اور اس کے ساتھ ایک بہت خوبصورت عورت ہے تو اس (بادشاہ) نے ابراہیم علیہ السلام کو بلایا اور ان سے اس عورت کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا: ”میری بہن ہے۔“ پھر ابراہیم علیہ السلام سارہ کے پاس آئے .... اور (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے) باقی تمام حدیث بیان کی۔ (دیکھیئے حدیث مبارک: کتاب: خریدوفروخت کے بیان میں۔۔۔ باب: حربی کا فر سے غلام خرید لینا یا کا فر لونڈی یا غلام کا ہبہ کر دینا یا آزاد کر دینا۔۔۔)(نوٹ: اس حدیث اور قرآن کی اس آیت میں کوئی ٹکراؤ نہیں جہاں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو سچا کہا گیا ہے اوّلاً۔ یہ ظاہراً جھوٹ ہیں حقیقتاً جھوٹ نہیں۔ ثانیاً۔ جھوٹ کی بھی متعدد صورتیں ہیں۔ بعض صورتوں میں جھوٹ صرف مباح ہی نہیں بلکہ شرف کا سبب بنتا ہے جیسا کہ دو آدمیوں میں صلح کرانے کے لیے جھوٹ بولنا۔)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عورتوں میں سب سے پہلے ام اسماعیل سیدہ ہاجرہ علیہ السلام نے کمر پٹا باندھا، ان کی غرض یہ تھی کہ سارہ ان کا سراغ نہ پائیں (وہ جلد بھاگ جائیں) پھر سیدنا ابراہیم علیہ السلام انھیں اور ان کے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو (مکہ میں) لے آئے اور ہاجرہ علیہ السلام (اس وقت) اسماعیل علیہ السلام کو دودھ پلاتی تھیں اور انھیں بیت اللہ کے قریب ایک درخت کے نیچے بٹھا دیا جو اس مقام پر ہے جہاں آب زمزم ہے، مسجد کی بلند جانب میں۔ ان دنوں مکہ میں کوئی انسان نہ رہتا تھا اور نہ ہی وہاں پانی تھا۔ پس ابراہیم علیہ السلام نے ان دونوں کو وہاں بٹھایا اور چمڑے کا ایک تھیلا کھجوروں کا (بھرا ہوا) اور پانی سے بھرا ہوا ایک چھوٹا مشکیزہ دیا۔ پھر واپس جانے لگے تو ام اسماعیل ان کے پیچھے ہوئیں اور کہنے لگیں کہ اے ابراہیم! ہمیں اس جنگل میں چھوڑ کر کہاں جا رہے ہو کہ جہاں نہ کوئی انسان ہے اور نہ کوئی اور چیز؟ ہاجرہ علیہ السلام نے باربار پکار کر یہی کہا لیکن ابراہیم علیہ السلام نے انھیں مڑ کر نہیں دیکھا تو ہاجرہ علیہ السلام نے کہا کہ کیا اللہ نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے؟ ابراہیم علیہ السلام نے کہا ”ہاں“ انھوں نے جواب دیا کہ پھر اللہ ہمیں ہلاک نہیں کرے گا، یہ کہہ کر وہ واپس لوٹ آئیں اور ابراہیم علیہ السلام چل دیئے یہاں تک جب اس پہاڑی (ثنیہ) پر پہنچے جہاں سے وہ (ہاجرہ علیہ السلام کو) دکھائی نہ دے سکتے تھے تو انھوں نے کعبہ کی طرف منہ کیا پھر ان کلمات کے ساتھ دونوں ہاتھ بلند کر کے دعا کی کہ ”اے ہمارے پروردگار! میں نے اپنی اولاد اس بےآب و گیاہ وادی میں تیرے محترم گھر کے پاس چھوڑ دیا ہے .... تاآنکہ لفظ ”یہ شکر گزاری کرتے رہیں۔“ تک دعا کرتے رہے۔“(ابراہیم: 37) اور ام اسماعیل سیدہ ہاجرہ اسماعیل علیہ السلام کو دودھ پلاتی اور خود مشک میں سے پانی پیتی رہیں، یہاں تک کہ جب مشک میں سے پانی ختم ہو گیا تو انھیں خود کو بھی پیاس لگی اور ان کے بیٹے (بچے اسماعیل علیہ السلام) کو بھی اور وہ بچے کو دیکھ رہی تھیں کہ وہ (پیاس کی وجہ سے) اوپر تلے ہو رہا تھا یا یہ کہا کہ تڑپ رہا تھا تو وہ وہاں سے ہٹ گئیں تاکہ بچے کا یہ حال نہ دیکھیں اور ان کے سامنے صفا پہاڑ قریب ہی تھا وہ اس پر چڑھ گئیں پھر وادی میں دیکھا کہ شاید کوئی نظر آئے لیکن کوئی بھی نظر نہ آیا پھر وہ وہاں سے اتریں اور اپنا کرتا سمیٹ کر نالے کے نشیب میں اس طرح دوڑیں جیسے کوئی مصیبت زدہ دوڑتا ہے یہاں تک کہ نالے کو پار کر کے مروہ پہاڑی پر پہنچیں اور اس پر چڑھ کر دیکھا کہ شاید کوئی آدمی نظر آئے لیکن کوئی نظر نہ آیا، پھر اسی طرح (صفا و مروہ کے درمیان) سات دفعہ چکر لگایا، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہی ان دونوں (صفا مروہ) کے درمیان سعی کرنا ہے (جو بعد میں حج میں مسلمانوں پر فرض کی گئی) پھر جب ہاجرہ (آخری چکر میں) مروہ پر چڑھیں تو انھوں نے ایک آواز سنی تو اپنے آپ سے ہی کہنے لگیں کہ چپ رہ، پھر وہی آواز سنی تو کہنے لگیں کہ (اے اللہ کے بندے! تو جو کوئی بھی ہے) میں نے تیری آواز سن لی، کیا تو ہماری کوئی مدد کر سکتا ہے؟ پھر دیکھا کہ آب زمزم (چشمہ والی جگہ) کے قریب ایک فرشتہ (جبرائیل علیہ السلام) ہے جو اپنی ایڑی مار کر (یا یہ کہا کہ) اپنا پر مار کر زمین کھود رہا ہے یہاں تک کہ اس جگہ سے پانی نکلنے لگا۔ وہ اپنے ہاتھ سے اس کے گرد حوض سا بنانے لگیں اور پانی چلو سے بھربھر کر اپنی مشک میں ڈالنے لگیں، جوں جوں وہ پانی لیتیں وہ چشمہ اور جوش مارتا (پانی زیادہ ہو جاتا)۔“ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اسماعیل علیہ السلام کی والدہ پر رحم کرے، اگر وہ زمزم کو اس کے حال پر چھوڑ دیتیں (حوض نہ بناتیں) یا (یوں فرمایا کہ) اگر وہ چلو بھر کر (مشک بھرنے کے لیے) پانی نہ لیتیں تو زمزم ایک چشمہ (کی صورت) بہتا رہتا۔“(پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا: ”ہاجرہ نے خود بھی پانی پیا اور بچے کو بھی پلایا۔“ فرشتے نے ان سے کہا کہ تم اپنی جان کا خوف نہ کرو، بیشک یہاں اللہ کا گھر ہے، جسے یہ بچہ اور اس کے والد (مل کر) بنائیں گے اور اللہ اپنے بندوں کو تباہ نہیں کرنے والا۔ اور اس وقت بیت اللہ (کا مقام) ٹیلے کی طرح زمین سے اونچا تھا اور جب برسات کا پانی آتا تو وہ دائیں بائیں سے نکل جاتا۔ سیدہ ہاجرہ علیہ السلام نے ایک مدت اسی طرح گزاری یہاں تک کہ قبیلہ جرہم کے کچھ آدمی یا کچھ گھر والے (خاندان) ان (ہاجرہ علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام) پر گزرے جو کداء کے راستے سے آ رہے تھے۔ وہ مکہ کے نشیب میں اترے، انھوں نے ایک پرندے کو وہاں گھومتے ہوئے دیکھا تو کہنے لگے کہ بیشک یہ پرندہ ضرور پانی کے گرد گھوم رہا ہے، ہم اس میدان سے اچھی طرح واقف ہیں اور یہاں پانی کہیں بھی نہیں ہے۔ پھر انھوں نے ایک یا دو آدمیوں کو بھیجا، انھوں نے دیکھا کہ پانی موجود ہے، وہ لوٹ کر گئے اور انھیں پانی کی خبر دی، وہ بھی (وہاں) آئے۔“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانی کے پاس ہی ام اسماعیل علیہ السلام بیٹھی تھیں۔ ان لوگوں نے کہا کہ کیا تم ہمیں یہاں اترنے کی اجازت دیتی ہو؟ انھوں نے کہا ہاں، لیکن پانی میں تمہارا کوئی حق نہیں، انھوں نے قبول کیا۔“ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(قبیلہ جرہم کے) لوگوں نے (وہاں رہنے کی) اس وقت اجازت مانگی جب خود اسماعیل کی والدہ یہ چاہتی تھی کہ یہاں بستی ہو۔ پس وہ لوگ وہیں اتر پڑے اور اپنے اہل و عیال کو بھی بلا لیا، وہ بھی وہیں ان کے پاس آ گئے یہاں تک کہ جب وہاں کئی گھرانے آباد ہو گئے اور اسماعیل علیہ السلام جوان ہوئے اور انھوں نے عربی ان (قبیلہ جرہم کے) لوگوں سے سیکھی اور جوان ہو کر ان کی نگاہ میں بہت اچھے نکلے (قبیلہ جرہم کے) لوگ ان سے محبت کرنے لگے اور اپنے خاندان کی ایک عورت سے ان کی شادی کر دی۔ بعد میں جب ام اسماعیل فوت ہو گئیں، ابراہیم علیہ السلام، اسماعیل علیہ السلام کی شادی کے بعد اپنے اہل و عیال کی خبر لینے کو آئے جنہیں وہ چھوڑ کر گئے تھے، اسماعیل علیہ السلام اپنے گھر پر نہ تھے تو ابراہیم علیہ السلام نے ان کی بیوی سے ان کے بارے میں پوچھا، اس نے کہا کہ روزی کی تلاش میں گئے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا کہ تمہاری گزران کیسی ہوتی ہے۔ اور معاش کا کیا حال ہے؟ اس نے کہا کہ بہت بری، بڑی تنگی سے گزران ہوتی ہے اور ان سے خوب شکایت کی۔ ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ جب تیرا شوہر آئے تو انھیں میری طرف سے سلام کہنا اور یہ کہنا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل دیں۔ پھر جب اسماعیل علیہ السلام گھر میں آئے اور (اپنے باپ کی) کچھ خوشبو محسوس کی تو (بیوی سے) کہا کہ کیا تمہارے پاس کوئی آنے والا آیا تھا؟ اس نے کہا ہاں، ایک بوڑھا آدمی ایسی ایسی حالت کا آیا تھا۔ اس نے تیرے بارے میں پوچھا تو میں نے کہہ دیا کہ روزی کی تلاش میں گئے ہیں اور اس نے مجھ سے پوچھا کہ تمہاری گزران کیسی ہوتی ہے؟ تو میں نے کہا کہ بڑی تکلیف اور تنگی سے۔ اسماعیل علیہ السلام نے کہا کہ کیا انھوں نے تجھے اور بھی کوئی نصیحت کی تھی؟ اس نے کہا ہاں! انھوں نے مجھے کہا تھا کہ میں تجھے (ان کی طرف سے) سلام کہہ دوں اور یہ بھی کہا کہ تم اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل ڈالو۔ اسماعیل علیہ السلام نے کہا کہ وہ میرے والد تھے اور انھوں نے مجھے حکم دیا کہ میں تجھے چھوڑ دوں، تو اپنے گھر والوں میں چلی جا اور اسے طلاق دے دی اور (قبیلہ جرہم میں سے) کسی دوسری عورت سے شادی کر لی۔ پھر جتنی دیر اللہ کو منظور تھا ابراہیم علیہ السلام (اپنے ملک میں) ٹھہرے رہے پھر اس کے بعد دوبارہ آئے تو اسماعیل علیہ السلام (پھر بھی اتفاق سے) گھر میں نہ ملے، پس وہ ان کی (دوسری) بیوی کے پاس گئے اور اس سے اسماعیل علیہ السلام کا پوچھا تو اس نے کہا کہ روزی کی تلاش میں گئے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ تمہارا کیا حال ہے؟ اور اس سے ان کے گزران اور رہن سہن کے متعلق پوچھا تو اس نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے ہم بہت خیر و خوبی کے ساتھ اور خوش گزران رہتے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ تم کیا کھاتے ہو؟ اس نے کہا گوشت، پھر پوچھا کہ تم پیتے کیا ہو؟ اس نے کہا، پانی۔ ابراہیم علیہ السلام نے کہا اے اللہ! ان کے گوشت اور پانی میں برکت دے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان دنوں مکہ میں اناج کا نام نہیں تھا۔ اگر ہوتا تو ابراہیم علیہ السلام اس میں بھی برکت کی دعا کرتے۔“(اور) فرمایا: ”(یہ خاصیت اللہ نے مکہ ہی میں رکھی ہے) اگر دوسرے ملک والے صرف گوشت اور پانی پر گزران کریں تو بیمار ہو جائیں (اور فرمایا): ”ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ جب تیرا شوہر آئے تو اسے میری طرف سے سلام کہنا اور کہنا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ کو حفاظت سے رکھے (یہ بہت عمدہ ہے)۔ پھر جب اسماعیل علیہ السلام آئے تو بیوی سے کہا کہ کیا تمہارے پاس کوئی آنے والا آیا تھا؟ اس نے کہا کہ ہاں! ایک خوبصورت سے بزرگ آئے تھے اور (اس نے) ابراہیم علیہ السلام کی بہت تعریف کی، (پھر کہا کہ) تمہارا پوچھتے تھے تو میں نے بتا دیا۔ پھر مجھ سے پوچھا کہ تمہاری گزران کسی ہوتی ہے؟ میں نے بتایا کہ بہت اچھی۔ اسماعیل علیہ السلام نے کہا کہ پھر تمہیں کوئی نصیحت بھی کی؟ اس نے کہا ہاں! وہ آپ کو سلام کہتے تھے اور کہتے تھے کہ تم اپنے دروازے کی چوکھٹ کو حفاظت سے رکھنا۔ اسماعیل علیہ السلام نے کہا کہ وہ میرے والد تھے اور تم دروازے کی چوکھٹ ہو، انھوں نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں اپنی زوجیت میں رہنے دوں۔ پھر جب تک اللہ کو منظور تھا۔ ابراہیم علیہ السلام (اپنے ملک میں) ٹھہرے رہے، اس کے بعد آئے تو اسماعیل علیہ السلام اس وقت چاہ زمزم کے قریب ایک درخت کے نیچے بیٹھے اپنے تیر درست کر رہے تھے، جب انھوں نے ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا تو اٹھ کھڑے ہوئے، باپ بیٹے سے اور بیٹا باپ سے جو کیا کرتا ہے کیا، پھر کہا کہ اے اسماعیل! بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک حکم دیا ہے۔ اسماعیل علیہ السلام نے کہا کہ اللہ نے جو حکم دیا ہے وہ بجا لائیں، ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ کیا تو میری مدد کرے گا؟ انھوں نے کہا میں ضرور مدد کروں گا۔ ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ اللہ نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں اس جگہ پر ایک گھر بناؤں اور ایک اونچے ٹیلے کی طرف اشارہ کیا کہ اس کے گرد گرد۔“(نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ) اس وقت دونوں (باپ بیٹے) نے اس گھر کی دیواریں بلند کیں۔ اسماعیل علیہ السلام پتھر لاتے جاتے تھے اور ابراہیم علیہ السلام تعمیر کرتے تھے، جب دیواریں اونچی ہو گئیں (زمین پر کھڑے ہو کر تعمیر نہ ہو سکی) تو اسماعیل علیہ السلام ایک پتھر (مقام ابراہیم) لے آئے اور اس کو رکھ دیا پھر ابراہیم علیہ السلام اس پر کھڑے ہو کر دیوار تعمیر کرتے اور اسماعیل علیہ السلام انھیں پتھر لا کر دیتے اور دونوں کہتے: ”اے ہمارے پروردگار! تو ہم سے (یہ کوشش) قبول فرما تو ہی سننے والا جاننے والا ہے۔“(البقرہ: 127)
سیدنا ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہم آپ پر درود کیسے بھیجیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہو اے اللہ محمد! اور ان کی ازواج پر اور ان کی اولاد پر اپنی رحمت نازل فرما جس طرح تو نے ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد پر اپنی رحمت نازل فرمائی تھی اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کی ازواج پر اور ان کی اولاد پر برکت نازل فرما جس طرح تو نے ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد پر برکت نازل فرمائی، بیشک تو خوبیوں والا بڑائی والا ہے۔“