مختصر صحيح بخاري
انبیاء کے حالات کے بیان میں
اللہ تعالیٰ کا فرمان ”اور اللہ نے ابراہیم علیہ السلام کو خلیل بنایا“ کا بیان۔
حدیث نمبر: 1407
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عورتوں میں سب سے پہلے ام اسماعیل سیدہ ہاجرہ علیہ السلام نے کمر پٹا باندھا، ان کی غرض یہ تھی کہ سارہ ان کا سراغ نہ پائیں (وہ جلد بھاگ جائیں) پھر سیدنا ابراہیم علیہ السلام انھیں اور ان کے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو (مکہ میں) لے آئے اور ہاجرہ علیہ السلام (اس وقت) اسماعیل علیہ السلام کو دودھ پلاتی تھیں اور انھیں بیت اللہ کے قریب ایک درخت کے نیچے بٹھا دیا جو اس مقام پر ہے جہاں آب زمزم ہے، مسجد کی بلند جانب میں۔ ان دنوں مکہ میں کوئی انسان نہ رہتا تھا اور نہ ہی وہاں پانی تھا۔ پس ابراہیم علیہ السلام نے ان دونوں کو وہاں بٹھایا اور چمڑے کا ایک تھیلا کھجوروں کا (بھرا ہوا) اور پانی سے بھرا ہوا ایک چھوٹا مشکیزہ دیا۔ پھر واپس جانے لگے تو ام اسماعیل ان کے پیچھے ہوئیں اور کہنے لگیں کہ اے ابراہیم! ہمیں اس جنگل میں چھوڑ کر کہاں جا رہے ہو کہ جہاں نہ کوئی انسان ہے اور نہ کوئی اور چیز؟ ہاجرہ علیہ السلام نے باربار پکار کر یہی کہا لیکن ابراہیم علیہ السلام نے انھیں مڑ کر نہیں دیکھا تو ہاجرہ علیہ السلام نے کہا کہ کیا اللہ نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے؟ ابراہیم علیہ السلام نے کہا ”ہاں“ انھوں نے جواب دیا کہ پھر اللہ ہمیں ہلاک نہیں کرے گا، یہ کہہ کر وہ واپس لوٹ آئیں اور ابراہیم علیہ السلام چل دیئے یہاں تک جب اس پہاڑی (ثنیہ) پر پہنچے جہاں سے وہ (ہاجرہ علیہ السلام کو) دکھائی نہ دے سکتے تھے تو انھوں نے کعبہ کی طرف منہ کیا پھر ان کلمات کے ساتھ دونوں ہاتھ بلند کر کے دعا کی کہ ”اے ہمارے پروردگار! میں نے اپنی اولاد اس بےآب و گیاہ وادی میں تیرے محترم گھر کے پاس چھوڑ دیا ہے .... تاآنکہ لفظ ”یہ شکر گزاری کرتے رہیں۔“ تک دعا کرتے رہے۔“ (ابراہیم: 37) اور ام اسماعیل سیدہ ہاجرہ اسماعیل علیہ السلام کو دودھ پلاتی اور خود مشک میں سے پانی پیتی رہیں، یہاں تک کہ جب مشک میں سے پانی ختم ہو گیا تو انھیں خود کو بھی پیاس لگی اور ان کے بیٹے (بچے اسماعیل علیہ السلام) کو بھی اور وہ بچے کو دیکھ رہی تھیں کہ وہ (پیاس کی وجہ سے) اوپر تلے ہو رہا تھا یا یہ کہا کہ تڑپ رہا تھا تو وہ وہاں سے ہٹ گئیں تاکہ بچے کا یہ حال نہ دیکھیں اور ان کے سامنے صفا پہاڑ قریب ہی تھا وہ اس پر چڑھ گئیں پھر وادی میں دیکھا کہ شاید کوئی نظر آئے لیکن کوئی بھی نظر نہ آیا پھر وہ وہاں سے اتریں اور اپنا کرتا سمیٹ کر نالے کے نشیب میں اس طرح دوڑیں جیسے کوئی مصیبت زدہ دوڑتا ہے یہاں تک کہ نالے کو پار کر کے مروہ پہاڑی پر پہنچیں اور اس پر چڑھ کر دیکھا کہ شاید کوئی آدمی نظر آئے لیکن کوئی نظر نہ آیا، پھر اسی طرح (صفا و مروہ کے درمیان) سات دفعہ چکر لگایا، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہی ان دونوں (صفا مروہ) کے درمیان سعی کرنا ہے (جو بعد میں حج میں مسلمانوں پر فرض کی گئی) پھر جب ہاجرہ (آخری چکر میں) مروہ پر چڑھیں تو انھوں نے ایک آواز سنی تو اپنے آپ سے ہی کہنے لگیں کہ چپ رہ، پھر وہی آواز سنی تو کہنے لگیں کہ (اے اللہ کے بندے! تو جو کوئی بھی ہے) میں نے تیری آواز سن لی، کیا تو ہماری کوئی مدد کر سکتا ہے؟ پھر دیکھا کہ آب زمزم (چشمہ والی جگہ) کے قریب ایک فرشتہ (جبرائیل علیہ السلام) ہے جو اپنی ایڑی مار کر (یا یہ کہا کہ) اپنا پر مار کر زمین کھود رہا ہے یہاں تک کہ اس جگہ سے پانی نکلنے لگا۔ وہ اپنے ہاتھ سے اس کے گرد حوض سا بنانے لگیں اور پانی چلو سے بھربھر کر اپنی مشک میں ڈالنے لگیں، جوں جوں وہ پانی لیتیں وہ چشمہ اور جوش مارتا (پانی زیادہ ہو جاتا)۔“ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اسماعیل علیہ السلام کی والدہ پر رحم کرے، اگر وہ زمزم کو اس کے حال پر چھوڑ دیتیں (حوض نہ بناتیں) یا (یوں فرمایا کہ) اگر وہ چلو بھر کر (مشک بھرنے کے لیے) پانی نہ لیتیں تو زمزم ایک چشمہ (کی صورت) بہتا رہتا۔“ (پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا: ”ہاجرہ نے خود بھی پانی پیا اور بچے کو بھی پلایا۔“ فرشتے نے ان سے کہا کہ تم اپنی جان کا خوف نہ کرو، بیشک یہاں اللہ کا گھر ہے، جسے یہ بچہ اور اس کے والد (مل کر) بنائیں گے اور اللہ اپنے بندوں کو تباہ نہیں کرنے والا۔ اور اس وقت بیت اللہ (کا مقام) ٹیلے کی طرح زمین سے اونچا تھا اور جب برسات کا پانی آتا تو وہ دائیں بائیں سے نکل جاتا۔ سیدہ ہاجرہ علیہ السلام نے ایک مدت اسی طرح گزاری یہاں تک کہ قبیلہ جرہم کے کچھ آدمی یا کچھ گھر والے (خاندان) ان (ہاجرہ علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام) پر گزرے جو کداء کے راستے سے آ رہے تھے۔ وہ مکہ کے نشیب میں اترے، انھوں نے ایک پرندے کو وہاں گھومتے ہوئے دیکھا تو کہنے لگے کہ بیشک یہ پرندہ ضرور پانی کے گرد گھوم رہا ہے، ہم اس میدان سے اچھی طرح واقف ہیں اور یہاں پانی کہیں بھی نہیں ہے۔ پھر انھوں نے ایک یا دو آدمیوں کو بھیجا، انھوں نے دیکھا کہ پانی موجود ہے، وہ لوٹ کر گئے اور انھیں پانی کی خبر دی، وہ بھی (وہاں) آئے۔“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانی کے پاس ہی ام اسماعیل علیہ السلام بیٹھی تھیں۔ ان لوگوں نے کہا کہ کیا تم ہمیں یہاں اترنے کی اجازت دیتی ہو؟ انھوں نے کہا ہاں، لیکن پانی میں تمہارا کوئی حق نہیں، انھوں نے قبول کیا۔“ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(قبیلہ جرہم کے) لوگوں نے (وہاں رہنے کی) اس وقت اجازت مانگی جب خود اسماعیل کی والدہ یہ چاہتی تھی کہ یہاں بستی ہو۔ پس وہ لوگ وہیں اتر پڑے اور اپنے اہل و عیال کو بھی بلا لیا، وہ بھی وہیں ان کے پاس آ گئے یہاں تک کہ جب وہاں کئی گھرانے آباد ہو گئے اور اسماعیل علیہ السلام جوان ہوئے اور انھوں نے عربی ان (قبیلہ جرہم کے) لوگوں سے سیکھی اور جوان ہو کر ان کی نگاہ میں بہت اچھے نکلے (قبیلہ جرہم کے) لوگ ان سے محبت کرنے لگے اور اپنے خاندان کی ایک عورت سے ان کی شادی کر دی۔ بعد میں جب ام اسماعیل فوت ہو گئیں، ابراہیم علیہ السلام، اسماعیل علیہ السلام کی شادی کے بعد اپنے اہل و عیال کی خبر لینے کو آئے جنہیں وہ چھوڑ کر گئے تھے، اسماعیل علیہ السلام اپنے گھر پر نہ تھے تو ابراہیم علیہ السلام نے ان کی بیوی سے ان کے بارے میں پوچھا، اس نے کہا کہ روزی کی تلاش میں گئے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا کہ تمہاری گزران کیسی ہوتی ہے۔ اور معاش کا کیا حال ہے؟ اس نے کہا کہ بہت بری، بڑی تنگی سے گزران ہوتی ہے اور ان سے خوب شکایت کی۔ ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ جب تیرا شوہر آئے تو انھیں میری طرف سے سلام کہنا اور یہ کہنا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل دیں۔ پھر جب اسماعیل علیہ السلام گھر میں آئے اور (اپنے باپ کی) کچھ خوشبو محسوس کی تو (بیوی سے) کہا کہ کیا تمہارے پاس کوئی آنے والا آیا تھا؟ اس نے کہا ہاں، ایک بوڑھا آدمی ایسی ایسی حالت کا آیا تھا۔ اس نے تیرے بارے میں پوچھا تو میں نے کہہ دیا کہ روزی کی تلاش میں گئے ہیں اور اس نے مجھ سے پوچھا کہ تمہاری گزران کیسی ہوتی ہے؟ تو میں نے کہا کہ بڑی تکلیف اور تنگی سے۔ اسماعیل علیہ السلام نے کہا کہ کیا انھوں نے تجھے اور بھی کوئی نصیحت کی تھی؟ اس نے کہا ہاں! انھوں نے مجھے کہا تھا کہ میں تجھے (ان کی طرف سے) سلام کہہ دوں اور یہ بھی کہا کہ تم اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل ڈالو۔ اسماعیل علیہ السلام نے کہا کہ وہ میرے والد تھے اور انھوں نے مجھے حکم دیا کہ میں تجھے چھوڑ دوں، تو اپنے گھر والوں میں چلی جا اور اسے طلاق دے دی اور (قبیلہ جرہم میں سے) کسی دوسری عورت سے شادی کر لی۔ پھر جتنی دیر اللہ کو منظور تھا ابراہیم علیہ السلام (اپنے ملک میں) ٹھہرے رہے پھر اس کے بعد دوبارہ آئے تو اسماعیل علیہ السلام (پھر بھی اتفاق سے) گھر میں نہ ملے، پس وہ ان کی (دوسری) بیوی کے پاس گئے اور اس سے اسماعیل علیہ السلام کا پوچھا تو اس نے کہا کہ روزی کی تلاش میں گئے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ تمہارا کیا حال ہے؟ اور اس سے ان کے گزران اور رہن سہن کے متعلق پوچھا تو اس نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے ہم بہت خیر و خوبی کے ساتھ اور خوش گزران رہتے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ تم کیا کھاتے ہو؟ اس نے کہا گوشت، پھر پوچھا کہ تم پیتے کیا ہو؟ اس نے کہا، پانی۔ ابراہیم علیہ السلام نے کہا اے اللہ! ان کے گوشت اور پانی میں برکت دے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان دنوں مکہ میں اناج کا نام نہیں تھا۔ اگر ہوتا تو ابراہیم علیہ السلام اس میں بھی برکت کی دعا کرتے۔“ (اور) فرمایا: ”(یہ خاصیت اللہ نے مکہ ہی میں رکھی ہے) اگر دوسرے ملک والے صرف گوشت اور پانی پر گزران کریں تو بیمار ہو جائیں (اور فرمایا): ”ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ جب تیرا شوہر آئے تو اسے میری طرف سے سلام کہنا اور کہنا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ کو حفاظت سے رکھے (یہ بہت عمدہ ہے)۔ پھر جب اسماعیل علیہ السلام آئے تو بیوی سے کہا کہ کیا تمہارے پاس کوئی آنے والا آیا تھا؟ اس نے کہا کہ ہاں! ایک خوبصورت سے بزرگ آئے تھے اور (اس نے) ابراہیم علیہ السلام کی بہت تعریف کی، (پھر کہا کہ) تمہارا پوچھتے تھے تو میں نے بتا دیا۔ پھر مجھ سے پوچھا کہ تمہاری گزران کسی ہوتی ہے؟ میں نے بتایا کہ بہت اچھی۔ اسماعیل علیہ السلام نے کہا کہ پھر تمہیں کوئی نصیحت بھی کی؟ اس نے کہا ہاں! وہ آپ کو سلام کہتے تھے اور کہتے تھے کہ تم اپنے دروازے کی چوکھٹ کو حفاظت سے رکھنا۔ اسماعیل علیہ السلام نے کہا کہ وہ میرے والد تھے اور تم دروازے کی چوکھٹ ہو، انھوں نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں اپنی زوجیت میں رہنے دوں۔ پھر جب تک اللہ کو منظور تھا۔ ابراہیم علیہ السلام (اپنے ملک میں) ٹھہرے رہے، اس کے بعد آئے تو اسماعیل علیہ السلام اس وقت چاہ زمزم کے قریب ایک درخت کے نیچے بیٹھے اپنے تیر درست کر رہے تھے، جب انھوں نے ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا تو اٹھ کھڑے ہوئے، باپ بیٹے سے اور بیٹا باپ سے جو کیا کرتا ہے کیا، پھر کہا کہ اے اسماعیل! بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک حکم دیا ہے۔ اسماعیل علیہ السلام نے کہا کہ اللہ نے جو حکم دیا ہے وہ بجا لائیں، ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ کیا تو میری مدد کرے گا؟ انھوں نے کہا میں ضرور مدد کروں گا۔ ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ اللہ نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں اس جگہ پر ایک گھر بناؤں اور ایک اونچے ٹیلے کی طرف اشارہ کیا کہ اس کے گرد گرد۔“ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ) اس وقت دونوں (باپ بیٹے) نے اس گھر کی دیواریں بلند کیں۔ اسماعیل علیہ السلام پتھر لاتے جاتے تھے اور ابراہیم علیہ السلام تعمیر کرتے تھے، جب دیواریں اونچی ہو گئیں (زمین پر کھڑے ہو کر تعمیر نہ ہو سکی) تو اسماعیل علیہ السلام ایک پتھر (مقام ابراہیم) لے آئے اور اس کو رکھ دیا پھر ابراہیم علیہ السلام اس پر کھڑے ہو کر دیوار تعمیر کرتے اور اسماعیل علیہ السلام انھیں پتھر لا کر دیتے اور دونوں کہتے: ”اے ہمارے پروردگار! تو ہم سے (یہ کوشش) قبول فرما تو ہی سننے والا جاننے والا ہے۔“ (البقرہ: 127)