سیدنا انس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت میں ایک ایسا درخت ہے کہ اگر سوار اس کے سائے میں سو برس تک چلتا رہے تب بھی اس کو طے نہ کر سکے (یہ درخت طوبیٰ ہے)۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت میں ایک درخت ایسا ہے کہ اگر سوار اس کے سائے میں چلے تو سو برس تک چلتا رہے اور اگر تم چاہو تو اس آیت کو پڑھو: ”اور لمبے لمبے سائے۔“(سورۃ الواقعہ: 30)
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اہل جنت اپنے اوپر والوں کو ایسے دیکھیں گے جیسے تم روشن ستارے کو جو مشرقی کنارے یا مغربی کنارے کے قریب ہو، دیکھتے ہو۔ کیونکہ ان میں ایک (جنتی) دوسرے سے افضل ہو گا۔“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! یہ انبیاء کے مقامات ہیں، کوئی اور وہاں کیسے پہنچ سکتا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(کیوں) نہیں! قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ کچھ لوگ جو اللہ پر ایمان لائے اور انھوں نے پیغمبروں کی تصدیق کی (وہ بھی وہاں پہنچیں گے)۔“
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا صدیقہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بخار جہنم کے جوش سے (پیدا ہوتا ہے) لہٰذا تم اس کو پانی سے ٹھنڈا کرو۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری آگ (کی گرمی) جہنم کی آگ کی گرمی کے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔“ عرض کی گئی کہ یا رسول اللہ! دنیا کی آگ ہی جلانے کے لیے کافی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اس پر انہتر حصے بڑھا دی گئی ہے، ہر ایک حصہ اسی کے برابر گرم ہے۔“
سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”قیامت کے دن ایک شخص لایا جائے گا اور وہ آگ میں ڈال دیا جائے گا پھر اس کی آنتیں آگ میں نکل پڑیں گی اور وہ اس طرح سے گھومے گا جیسے گدھا اپنی چکی گھومتا ہے۔ پھر دوزخ والے اس کے پاس جمع ہو جائیں گے اور کہیں گے کہ اے فلاں! یہ کیا معاملہ ہے؟ کیا تو ہمیں اچھی باتوں کا حکم نہ دیتا تھا اور ہمیں بری باتوں سے منع نہ کرتا تھا؟ وہ کہے گا کہ ہاں میں تمہیں اچھی باتوں کا حکم دیتا تھا مگر خود نہ کرتا تھا اور تمہیں بری باتوں سے منع کرتا تھا مگر خود ان کو کرتا تھا۔“
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ(ایک مرتبہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا (اس کا اثر یہ ہوا کہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال ہوتا تھا کہ ایک کام کیا ہے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو نہ کیا ہوتا۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن دعا کی اور (بہت) دعا کی۔ اس کے بعد (مجھ سے) فرمایا: ”تم کو معلوم ہے کہ اللہ نے مجھے وہ بات بتا دی جس میں میری شفاء ہے۔ دو آدمی میرے پاس آئے، ان میں سے ایک میرے سر کے پاس اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس پیٹھ گیا۔ پھر ان میں سے ایک نے دوسرے سے پوچھا کہ اس شخص کو کیا بیماری ہے؟ دوسرے نے کہا کہ ان پر جادو کیا گیا ہے۔ اس نے پوچھا کہ کس نے ان پر جادو کیا ہے؟ دوسرے نے کہا کہ لبید بن اعصم (یہودی) نے۔ اس نے پوچھا کہ کس چیز میں؟ دوسرے نے کہا کہ کنگھی میں اور بالوں میں اور نر کھجور کے خوشے کے اوپر والے چھلکے میں۔ اس نے پوچھا کہ وہ کہاں ہے؟ دوسرے نے کہا کہ ذروان (نامی) کنویں میں۔“ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لے گئے۔ جب وہاں سے واپس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ”اس (کنویں) کے (قریب والے) درخت گویا کہ شیاطین کے سر ہیں۔“(عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ) میں نے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو نکلوا لیا؟ فرمایا کہ نہیں۔ اللہ نے تو مجھے شفاء دے دی اور (اس کے نکلوانے میں) مجھے یہ خیال ہوا کہ لوگوں میں فساد پھیلے گا (اور جادو کا چرچا زیادہ ہو جائے گا) اس کے بعد وہ کنواں بند کر دیا گیا۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شیطان تم میں سے کسی کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے (یعنی وسوسہ ڈالتا ہے) کہ یہ کس نے پیدا کیا ہے؟ وہ کس نے پیدا کیا ہے؟ آخر میں کہتا ہے کہ بتاؤ تمہارے رب کو کس نے پیدا کیا ہے؟ پس جب یہاں تک نوبت پہنچ جائے تو وہ شخص اعوذ باﷲ پڑھے اور شیطانی خیال چھوڑ دے۔“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ مشرق کی طرف اشارہ کر کے فرماتے تھے کہ فتنہ و فساد اسی طرف سے نکلے گا، فتنہ و فساد اسی طرف سے نکلے گا جہاں سے شیطان کے سر کا کونا نکلتا ہے۔“
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب رات کا اندھیرا چھا جائے تو تم اپنے بچوں کو گھر میں روک لو کیونکہ اس وقت شیاطین پھیل جاتے ہیں۔ جب عشاء کے وقت میں سے ایک گھڑی گزر جائے تو اس وقت بچوں کو چھوڑ دو (چلیں پھریں) اور بسم اللہ کہہ کر اپنا دروازہ بند کر لو اور بسم اللہ کہہ کر اپنا چراغ بجھا دو (یعنی ہر طرح کی آگ بجھا دو) پانی کا برتن (صراحی، کولر، زمین دوز ٹینک وغیرہ) بسم اللہ کہہ کر ڈھانک دو اگر ڈھانکنے کے لیے کوئی چیز نہ ملے تو کوئی لکڑی وغیرہ اس کے اوپر رکھ دو۔“