سیدنا مجاشع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے بھائی کے بیٹے کو لے کر آیا اور میں نے عرض کی کہ آپ ہم سے ہجرت پر بیعت لے لیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہجرت تو اپنے لوگوں کے لیے ختم ہو چکی ہے۔“ میں نے عرض کی پھر آپ کس بات پر ہم سے بیعت لیں گے؟ تو فرمایا: ”اسلام اور جہاد پر۔“
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے ایک روز کہا کہ آج میرے پاس ایک شخص آیا اور اس نے مجھ سے ایک مسئلہ پوچھا۔ میں نہیں سمجھا کہ اس کو کیا جواب دوں۔ اس نے کہا کہ بتائیے ایک شخص جو زبردست ہتھیار بند ہے، صحیح تندرست ہے، وہ ہمارے امراء کے ہمراہ جہادوں میں جاتا ہے پھر وہ چند باتوں میں ہمیں ایسے احکام دیتا ہے کہ ہم انھیں نہیں کر سکتے۔ میں نے اس سے کہا کہ اللہ کی قسم میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں تجھے کیا جواب دوں سوا اس کے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ہر کام میں ایک مرتبہ حکم دیتے تھے یہاں تک کہ ہم اس کو کر لیتے اور بیشک تم میں سے ہر شخص بہتری پر رہے گا جب تک کہ اللہ سے ڈرتا رہے گا اور جب اس کے دل میں کسی بات کا شک پیدا ہو تو وہ کسی سے پوچھ لے، وہ اس کی تشفی کر دے گا اور عنقریب ایسے آدمی کو تم نہ پاؤ گے (کہ جن کے فیصلے سے تسلی ہو) قسم ہے۔ اس کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ جس قدر دنیا گزر چکی ہے۔ (اور جس قدر باقی ہے) اس کی نسبت میں یہ کہتا ہوں کہ دنیا مثل ایک حوض ہے کہ اس کا صاف صاف پانی پی لیا گیا اور میلا پانی رہ گیا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض دفعہ جہاد میں، جس میں دشمن سے مقابلہ ہوا، لڑائی میں دیر کی۔ جب سورج ڈھل گیا، اس وقت کھڑے ہو کر خطبہ سنایا اور فرمایا: ”اے لوگو! دشمن سے مقابلہ کی آرزو نہ کرو اور اﷲ سے عافیت طلب کرو۔ پھر جب تم دشمن سے مقابلہ کرو تو صبر کرو اور خوب سمجھ لو کہ جنت تلواروں کے سائے کے نیچے ہے۔“ اس کے بعد فرمایا: ”اے اللہ! کتاب (قرآن) کے نازل فرمانے والے اور ابر کے جاری کرنے والے اور کفار کی فوجوں کو شکست دینے والے! ان لوگوں کو بھگا دے اور ہمیں ان پر فتح عنایت فرما۔“
سیدنا یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو اجرت پر رکھا تھا، اس نے ایک شخص سے لڑائی کی۔ ایک نے دوسرے کا ہاتھ منہ سے کاٹ لیا۔ دوسرے نے اپنا ہاتھ اس کے منہ سے کھینچا اور اس کے آگے کے دانت گر گئے۔ پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دانتوں کا معاوضہ نہیں دلایا اور فرمایا: ”کیا وہ اپنا ہاتھ تیرے منہ میں رہنے دیتا تاکہ تو اس کو چبا جاتا، جس طرح اونٹ سبزے کو چبا جاتا ہے۔“
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے یہ کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں یہ حکم دیا تھا کہ اس جگہ جھنڈا گاڑ دو۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں جامع باتیں دے کر بھیجا گیا ہوں اور رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی ہے۔ پس (ایک دن) اس حال میں کہ میں سو رہا تھا میرے پاس زمین کے تمام خزانوں کی چابیاں لا کر میرے ہاتھ میں رکھ دی گئیں۔“ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے (اس حدیث کو بیان کر کے) کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو (دنیا سے) تشریف لے گئے اور اب تم ان خزانوں کو نکال رہے ہو۔
58. جہاد میں زادراہ ہمراہ لے جانا (درست ہے) اور اللہ تعالیٰ کا (سورۃ البقرہ میں یہ) فرمانا ”اور راستے کا خرچ اپنے ساتھ لے لیا کرو بیشک عمدہ راہ خرچ تقویٰ ہے“۔
سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دسترخوان تیار کیا، جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت کا ارادہ کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دسترخوان اور پانی کے ظرف کے لیے کوئی ایسی چیز نہ ملی جس سے میں ان دونوں چیزوں کو باندھ دیتی تو میں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اللہ کی قسم! مجھے سوا اپنے کمربند کے اور کوئی چیز نہیں ملتی جس سے میں اس کو باندھ دوں۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا تم اپنے کمربند کے دو حصے کر ڈالو، ایک سے پانی کے ظرف کو اور دوسرے سے دسترخوان کو باندھ دو۔ چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا اسی وجہ سے میرا نام ذات النطاقین رکھا گیا۔
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر جس کی زین پر ایک چادر پڑی ہوئی تھی سوار ہوئے اور سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے سوار کر لیا۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن مکہ کی بلندی کی طرف سے ایک اونٹنی پر سوار سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ بٹھائے ہوئے تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ عثمان بن طلحہ تھے (جو کعبہ کے دربانوں میں سے تھے) یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں اونٹ کو بٹھایا۔ پھر عثمان کو حکم دیا کہ کعبہ کی کنجی لے آئیں پھر کعبہ کو کھولا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اس میں) داخل ہوئے .... باقی حدیث پہلے گزر چکی ہے۔ (دیکھئیے کتاب: نماز کا بیان۔۔۔ باب: بغیر جماعت کے ستونوں کے درمیان نماز پڑھنا)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ دشمن کے ملک کی طرف قرآن مجید کے ساتھ سفر کیا جائے۔