سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو جب یہ خبر پہنچی کہ امیرالمؤمنین علی رضی اللہ عنہ نے کچھ لوگوں کو آگ میں جلا دیا ہے تو انھوں نے کہا کہ اگر میں (خلیفہ) ہوتا تو ہرگز انھیں نہ جلاتا۔ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”اللہ کے عذاب سے کسی کو عذاب نہ کرو۔“ اور بیشک میں انھیں قتل کر دیتا جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”جو شخص اپنا دین بدل دے اسے قتل کر دو۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”ایک چیونٹی نے نبیوں میں سے کسی نبی کو کاٹ لیا تھا تو انھوں نے حکم دیا تو چیونٹیوں کا بل جلا دیا گیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی کہ تمہیں ایک چیونٹی نے کاٹا تھا، تم نے (اس کے عوض میں) ایک جماعت کو جلا دیا جو اللہ کی تسبیح پڑھتی تھیں۔“
سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ(ایک دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”تم ذی الخلصہ کو تباہ کر کے مجھے آرام کیوں نہیں دیتے؟“ ذی الخلصہ قبیلہ خثعم میں ایک بت خانہ تھا۔ اس کو یمن کا کعبہ کہتے تھے۔ سیدنا جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پس میں قبیلہ احمس کے ڈیڑھ سو سواروں کے ساتھ چلا اور ان سب کے پاس گھوڑے تھے اور میرے پاؤں گھوڑے پر جمتے نہ تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے پر ہاتھ مارا یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کا نشان اپنے سینے پر دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی: ”اے اللہ! ان کو قائم رکھ اور ان کو ہدایت کرنے والا اور ہدایت یافتہ بنا دے۔“ پس وہ وہاں گئے اور اسے توڑا اور اسے جلا دیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر کی تو جریر رضی اللہ عنہ کے قاصد نے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جا کر) بیان کیا کہ قسم ہے۔ اس کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے۔ کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت آیا ہوں جب کہ میں نے اس کو اس حال میں چھوڑا کہ وہ مثل کھوکھل اونٹ کے یا خارشی اونٹ کے ہے۔ جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ نے احمس کے گھوڑوں اور سواروں کے لیے پانچ مرتبہ برکت کی دعا کی۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسریٰ ہلاک ہو گیا اب اس کے بعد کوئی کسریٰ نہ ہو گا اور قیصر بھی ہلاک ہو جائے گا، اس کے بعد کوئی قیصر نہ ہو گا اور بیشک تم قیصر و کسریٰ کے خزانے اللہ کی راہ میں تقسیم کرو گے۔“
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن پیادوں پر (اور وہ پچاس آدمی تھے) عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کو سردار مقرر کیا تھا اور فرمایا تھا: ”اگر تم ہمیں اس حالت میں دیکھو کہ پرندے ہمارا گوشت کھا رہے ہیں (یعنی ہمیں شکست ہو جائے اور ہم مقتول ہو جائیں) تب بھی تم اپنے اس مقام کو نہ چھوڑنا جب تک میں تمہیں واپس نہ بلا لوں اور اگر تم ہمیں دیکھنا کہ ہم نے کافروں کو بھگا دیا اور انھیں پامال کر ڈالا تب بھی تم نہ ہٹنا جب تک میں تمہیں واپس نہ بلا لوں۔“ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں کو شکست دی۔ سیدنا براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم میں نے عورتوں کو دیکھا کہ وہ اپنے کپڑے اٹھائے ہوئے، پازیبیں پنڈلیاں کھولے بھاگے جا رہی تھیں۔ پس سیدنا عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ والوں نے کہا کہ اے لوگو! غنیمت کا مال، غنیمت کا مال، تمہارے ساتھی غالب آ گئے، اب تم کیا انتظار کر رہے ہو؟ سیدنا عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بھول گئے؟ ان لوگوں نے کہا اللہ کی قسم! ہم لوگوں کے پاس جائیں گے اور مال غنیمت لوٹیں گے۔ چنانچہ جب وہ لوگ وہاں گئے اور ان کا رخ بدل گیا تو کفار بھاگتے ہوئے سامنے گئے اور لڑائی پھر ہونے لگی۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ بارہ آدمیوں کے سوا کوئی نہ رہا۔ پس کافروں نے ہمارے ستر آدمی شہید کیے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بدر کے دن ایک سو چالیس مشرکوں کا نقصان کیا تھا، ستر قیدی اور ستر مقتول۔ ابوسفیان نے تین مرتبہ کہا کہ کیا محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) لوگوں میں زندہ ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دینے سے منع فرمایا۔ اس کے بعد ابوسفیان نے تین مرتبہ کہا کہ کیا (ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) ابوقحافہ کے بیٹے لوگوں میں زندہ ہیں؟۔ اس کے بعد اس نے کہا کہ کیا لوگوں میں خطاب کے بیٹے (سیدنا عمر رضی اللہ عنہ) زندہ ہیں؟ تین مرتبہ (یہی کہا) اس کے بعد اپنے ساتھیوں کی طرف مخاطب ہوا اور کہنے لگا کہ یہ لوگ تو مقتول ہو گئے۔ پس عمر رضی اللہ عنہ اپنے آپ کو نہ روک سکے اور بول اٹھے کہ اللہ کی قسم اے اللہ کے دشمن! جن لوگوں کا تو نے نام لیا وہ سب زندہ ہیں اور ابھی تیرا برا دن آنے والا ہے۔ ابوسفیان نے کہا کہ آج بدر کے دن کا بدلہ ہو گیا اور لڑائی تو ڈول کے مثل ہے اور تم، لوگوں میں کچھ مثلہ پاؤ گے مگر میں نے اس بات کا حکم دیا اور نہ مجھے یہ بات ناگوار ہوئی۔ اس کے بعد ابوسفیان رجز پڑھنے لگا کہ ”اے ہبل! بلند ہو جا، اے ہبل! بلند ہو جا۔“ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب تم اس کو جواب کیوں نہیں دیتے؟“ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہم کیا جواب دیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کہو: ”اللہ سب سے بلند مرتبہ اور بزرگ ہے۔“ پھر ابوسفیان نے کہا کہ ہمارے لیے کوئی عزیٰ ہے۔ اور تمہارے لیے عزیٰ نہیں ہے۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اس کو جواب کیوں نہیں دیتے؟“ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہم کیا جواب دیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہو: ”اللہ ہمارا مولا ہے اور تمہارا کوئی مولا نہیں۔“
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں مدینہ سے غابہ کی طرف جا رہا تھا۔ جب میں غابہ کی پہاڑی پر پہنچا تو مجھے سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا ایک غلام ملا، میں نے کہا ارے! تو یہاں کیسے؟ اس نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیاں پکڑ لی گئی ہیں (میں ان کی تلاش میں ہوں) میں نے پوچھا کہ ان کو کس نے پکڑا ہے؟ غلام نے کہا کہ غطفان اور فزارہ نے پس تین مرتبہ اس زور سے چلایا کہ میں نے مدینہ بھر کو سنا دیا ”یا صباحاہ یا صباحاہ“ اس کے بعد میں دوڑا اور ڈاکوؤں کو پا لیا اور وہ اونٹنیاں پکڑے جا رہے تھے۔ پس میں نے انھیں تیر مارنا شروع کیا اور میں یہ کہتا جاتا تھا: میں ہوں سلمہ بن اکوع جان لو۔۔۔ آج پاجی سب مریں گے مان لو۔۔۔ چنانچہ میں نے اونٹنیاں ان سے چھڑا لیں، قبل اس کے کہ وہ ان کا دودھ پئیں۔ پھر میں ان کو ہانکتا ہوا لا رہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ملے، میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! وہ لوگ پیاسے تھے اور میں نے قبل اس کے کہ وہ ان کا دودھ پئیں جلدی سے یہ اونٹنیاں لے لیں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے تعاقب میں فوج روانہ کر دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابن اکوع! تم ان پر قابو پا چکے، اب جانے دو (درگزر کرو) وہ تو اپنی قوم میں پہنچ گئے، وہاں ان کی مہمانی ہو رہی ہو گی۔“
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیدی کو رہائی دو اور بھوکے کو کھانا کھلاؤ اور بیمار کی عیادت کرو۔“(اور مسلمان قیدی کو جس طرح بھی ممکن ہو سکے رہا کرانا واجب ہے)۔
سیدنا ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کتاب اللہ کے سوا کچھ اور وحی بھی آپ کے پاس ہے؟ انھوں نے کہا نہیں، قسم ہے اس کی جس نے دانہ کو پھاڑا (اور اس میں سے درخت نکالا) اور روح کو پیدا فرمایا: ”میں اس بات سے واقف بھی نہیں، ہاں ایک سمجھ مجھے ملی ہے جو اللہ کسی شخص کو قرآن (کے معانی سمجھنے) میں دیتا ہے اور جو کچھ اس صحیفے میں ہے۔ میں نے پوچھا کہ اس صحیفے میں کیا ہے؟ انھوں نے کہا کہ دیت، عاقلہ اور قیدی کے رہا کرنے کا بیان ہے اور یہ کہ کوئی مسلمان کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انصار کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کی اجازت طلب کی، کہا یا رسول اللہ! آپ ہمیں اجازت دیجئیے تاکہ ہم اپنے بھانجے عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو ان کا فدیہ معاف کر دیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک درہم بھی ان سے نہ چھوڑو۔“