سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی (غلام) مسلمان کو آزاد کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس آزاد کردہ کے ہر عضو کے بدلے اس (آزاد کرنے والے) کا (ہر) ایک عضو دوزخ سے بچا لے گا۔“
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ کون سا عمل افضل ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ پر ایمان رکھنا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا۔“ میں نے پھر عرض کی کہ کس قسم کے غلاموں کا آزاد کرنا افضل ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان غلاموں کو جو گراں قیمت ہوں اور اپنے مالکوں کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہوں۔“ میں نے عرض کی کہ اگر میں یہ نہ کر سکوں تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی کام کرنے والے کی مدد کر دو یا کسی بے ہنر اناڑی کو کچھ کام سکھا دو۔“ میں نے عرض کی اگر میں یہ بھی نہ کر سکوں تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگوں کی ضرر رسانی چھوڑ دو کہ یہ بھی ایک صدقہ ہے جسے تم اپنی جان پر صدقہ کرو گے۔“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنا حصہ کسی غلام میں سے آزاد کر دے اور اس کے پاس اس قدر مال ہو کہ (پورے) غلام کی قیمت تک پہنچ جائے تو کسی عادل کی تجویز سے غلام کی قیمت لگوا لی جائے اور اس غلام کے حصہ داروں کو ان کے حصوں کی قیمت دے دی جائے اور اس کی طرف سے وہ غلام پورا آزاد کر دیا جائے اور اگر اس قدر مال نہ ہو تو وہ غلام جس قدر آزاد ہو چکا ہے اسی قدر آزاد رہے گا۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ نے میری امت سے وہ باتیں معاف کر دی ہیں جو ان کے دلوں میں بطور وسوسہ کے آئیں جب تک ان پر عمل نہ کریں یا زبان سے نہ نکالیں۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ جب اسلام لانے کے ارادے سے آنے لگے اور ان کا غلام ان کے ہمراہ تھا (تو وہ راستے میں) ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔ اس کے بعد وہ غلام ایسے وقت لوٹ کر آیا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوہریرہ! یہ تمہارا غلام تمہارے پاس آ گیا۔“ پس انھوں نے کہا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بناتا ہوں کہ یہ غلام آزاد ہے۔ راوی (قیس) کہتے ہیں کہ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہہ رہے تھے: ہے پیاری، گو کٹھن ہے اور لمبی میری رات۔۔۔ پر دلائی اس نے دارالکفر سے مجھ کو نجات
سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے دور جاہلیت میں سو غلام آزاد کیے تھے اور سو اونٹ لوگوں کو سواری کے لیے دیئے تھے پھر وہ جب مسلمان ہوئے تو انھوں نے سو اونٹ سواری کے لیے لوگوں کو دیے اور سو غلام آزاد کیے تو سیدنا حکیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! آپ بتائیے کچھ کام میں دور جاہلیت میں کرتا تھا اور ان کو عبادت سمجھتا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ”تم جس قدر عبادت کر چکے ہو ان سب کے ساتھ اسلام لائے ہو۔“(یعنی ان کا بھی ثواب ملے گا) یہ حدیث کتاب الزکوٰۃ میں گزر چکی ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی مصطلق پر اس حال میں حملہ کیا کہ وہ لوگ غافل تھے اور ان کے چوپایوں کو چشمہ پر پانی پلایا جا رہا تھا پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے جنگی آدمیوں کو قتل کر دیا اور ان کی عورتوں اور بچوں کو قید کر لیا اور اسی دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (ام المؤمنین) جویریہ (رضی اللہ عنہا قیدیوں میں) ملی تھیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں (قبیلہ) بنی تمیم کے لوگوں سے محبت رکھنے لگا جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ تین باتیں سنیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی نسبت فرماتے تھے: ”میری تمام امت میں سے دجال پر یہی لوگ زیادہ سخت ہوں گے۔“(سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ) کہتے تھے کہ ان کے صدقات آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ہماری قوم کے صدقات ہیں۔“ اور ان کے قبیلے میں سے ایک لونڈی ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عائشہ! اس کو آزاد کر دو کیونکہ یہ سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص تم میں سے (اپنے غلام یا لونڈی کو) یہ نہ کہے کہ اپنے رب (مالک) کو کھانا کھلا، اپنے رب (مالک) کو وضو کرا، اپنے رب (مالک) کو پانی پلا بلکہ یوں کہے کہ اپنے سردار کو، اپنے آقا کو (کھانا کھلا، پانی پلا، وضو کرا وغیرہ) اور کوئی شخص تم میں سے یہ نہ کہے کہ ”میرا بندہ، میری بندی“ بلکہ یوں کہے ”میرا خادم، میری خادمہ اور میرا غلام۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کسی شخص کے پاس جب اس کا خادم کھانا لائے تو اگر وہ اس خادم کو اپنے ساتھ نہ بٹھائے تو چاہیے کہ ایک لقمہ یا دو لقمے یا ایک نوالہ یا دو نوالے اس کو ضرور دیدے کیونکہ اس کو تیار کرنے میں اس نے محنت کی ہے۔“