صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان
The Book of Wasaya (Wills and Testaments)
5. بَابُ إِذَا أَوْمَأَ الْمَرِيضُ بِرَأْسِهِ إِشَارَةً بَيِّنَةً جَازَتْ:
5. باب: اگر مریض اپنے سر سے کوئی صاف اشارہ کرے تو اس پر حکم دیا جائے گا؟
(5) Chapter. If a patient gives an evident clear sign by nodding, (is that sign to be taken as a valid evidence?).
حدیث نمبر: 2746
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا حسان بن ابي عباد، حدثنا همام، عن قتادة، عن انس رضي الله عنه، ان يهوديا رض راس جارية بين حجرين، فقيل لها: من فعل بك افلان، او فلان حتى سمي اليهودي، فاومات براسها، فجيء به، فلم يزل حتى اعترف فامر النبي صلى الله عليه وسلم" فرض راسه بالحجارة".(مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَّانُ بْنُ أَبِي عَبَّادٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ يَهُودِيًّا رَضَّ رَأْسَ جَارِيَةٍ بَيْنَ حَجَرَيْنِ، فَقِيلَ لَهَا: مَنْ فَعَلَ بِكِ أَفُلَانٌ، أَوْ فُلَانٌ حَتَّى سُمِّيَ الْيَهُودِيُّ، فَأَوْمَأَتْ بِرَأْسِهَا، فَجِيءَ بِهِ، فَلَمْ يَزَلْ حَتَّى اعْتَرَفَ فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" فَرُضَّ رَأْسُهُ بِالْحِجَارَةِ".
ہم سے حسان بن ابی عباد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا قتادہ سے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ ایک یہودی نے ایک (انصاری) لڑکی کا سر دو پتھروں کے درمیان میں رکھ کر کچل دیا تھا۔ لڑکی سے پوچھا گیا کہ تمہارا سر اس طرح کس نے کیا ہے؟ کیا فلاں شخص نے کیا؟ فلاں نے کیا؟ آخر یہودی کا بھی نام لیا گیا (جس نے اس کا سر کچل دیا تھا) تو لڑکی نے سر کے اشارے سے ہاں میں جواب دیا۔ پھر وہ یہودی بلایا گیا اور آخر اس نے بھی اقرار کر لیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اس کا بھی پتھر سے سر کچل دیا گیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Anas: A Jew crushed the head of a girl between two stones. She was asked, "Who has done so to you, soand- so? So-and-so?" Till the name of the Jew was mentioned, whereupon she nodded (in agreement). So the Jew was brought and was questioned till he confessed. The Prophet then ordered that his head be crushed with stones.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 51, Number 9


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
6. بَابُ لاَ وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ:
6. باب: وارث کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں ہے۔
(6) Chapter. A legal heir has no right to inherit through a will.
حدیث نمبر: 2747
Save to word مکررات اعراب English
(موقوف) حدثنا محمد بن يوسف، عن ورقاء، عن ابن ابي نجيح، عن عطاء، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال:" كان المال للولد، وكانت الوصية للوالدين، فنسخ الله من ذلك ما احب، فجعل للذكر مثل حظ الانثيين، وجعل للابوين لكل واحد منهما السدس، وجعل للمراة الثمن والربع، وللزوج الشطر والربع".(موقوف) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ وَرْقَاءَ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" كَانَ الْمَالُ لِلْوَلَدِ، وَكَانَتِ الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ، فَنَسَخَ اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ مَا أَحَبَّ، فَجَعَلَ لِلذَّكَرِ مِثْلَ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ، وَجَعَلَ لِلْأَبَوَيْنِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسَ، وَجَعَلَ لِلْمَرْأَةِ الثُّمُنَ وَالرُّبُعَ، وَلِلزَّوْجِ الشَّطْرَ وَالرُّبُعَ".
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا ورقاء سے ‘ انہوں نے ابن ابی نجیح سے ‘ ان سے عطاء نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ شروع اسلام میں (میراث کا) مال اولاد کو ملتا تھا اور والدین کے لیے وصیت ضروری تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے جس طرح چاہا اس حکم کو منسوخ کر دیا پھر لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر قرار دیا اور والدین میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ اور بیوی کا (اولاد کی موجودگی میں) آٹھواں حصہ اور (اولاد کے نہ ہونے کی صورت میں) چوتھا حصہ قرار دیا۔ اسی طرح شوہر کا (اولاد نہ ہونے کی صورت میں) آدھا (اولاد ہونے کی صورت میں) چوتھائی حصہ قرار دیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn `Abbas: The custom (in old days) was that the property of the deceased would be inherited by his offspring; as for the parents (of the deceased), they would inherit by the will of the deceased. Then Allah cancelled from that custom whatever He wished and fixed for the male double the amount inherited by the female, and for each parent a sixth (of the whole legacy) and for the wife an eighth or a fourth and for the husband a half or a fourth.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 51, Number 10


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
7. بَابُ الصَّدَقَةِ عِنْدَ الْمَوْتِ:
7. باب: موت کے وقت صدقہ کرنا۔
(7) Chapter. Giving in charity at the time of death.
حدیث نمبر: 2748
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن العلاء، حدثنا ابو اسامة، عن سفيان، عن عمارة، عن ابي زرعة، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رجل للنبي صلى الله عليه وسلم: يا رسول الله، اي الصدقة افضل؟ قال:" ان تصدق وانت صحيح حريص تامل الغنى وتخشى الفقر، ولا تمهل حتى إذا بلغت الحلقوم". قلت: لفلان كذا ولفلان كذا وقد كان لفلان.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عُمَارَةَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:" أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنْتَ صَحِيحٌ حَرِيصٌ تَأْمُلُ الْغِنَى وَتَخْشَى الْفَقْرَ، وَلَا تُمْهِلْ حَتَّى إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ". قُلْتَ: لِفُلَانٍ كَذَا وَلِفُلَانٍ كَذَا وَقَدْ كَانَ لِفُلَانٍ.
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا سفیان ثوری سے ‘ وہ عمارہ سے ‘ ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ! کون سا صدقہ افضل ہے؟ فرمایا یہ کہ صدقہ تندرستی کی حالت میں کر کہ (تجھ کو اس مال کو باقی رکھنے کی) خواہش بھی ہو جس سے کچھ سرمایہ جمع ہو جانے کی تمہیں امید ہو اور (اسے خرچ کرنے کی صورت میں) محتاجی کا ڈر ہو اور اس میں تاخیر نہ کر کہ جب روح حلق تک پہنچ جائے تو کہنے بیٹھ جائے کہ اتنا مال فلاں کے لیے ‘ فلانے کو اتنا دینا ‘ اب تو فلانے کا ہو ہی گیا (تو تو دنیا سے چلا)۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Huraira: A man asked the Prophet, "O Allah's Apostle! What kind of charity is the best?" He replied. "To give in charity when you are healthy and greedy hoping to be wealthy and afraid of becoming poor. Don't delay giving in charity till the time when you are on the death bed when you say, 'Give so much to soand- so and so much to so-and so,' and at that time the property is not yours but it belongs to so-and-so (i.e. your inheritors).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 51, Number 11


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
8. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ}:
8. باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ نساء میں) یہ فرمانا کہ ”وصیت اور قرضے کی ادائیگی کے بعد حصے بٹیں گے“۔
(8) Chapter. The Statement of Allah: “... After the payment of legacies he may have bequeathed or debts...” (V.4:11)
حدیث نمبر: Q2749
Save to word اعراب English
ويذكر ان شريحا، وعمر بن عبد العزيز، وطاوسا، وعطاء، وابن اذينة اجازوا إقرار المريض بدين، وقال الحسن: احق ما تصدق به الرجل آخر يوم من الدنيا، واول يوم من الآخرة، وقال إبراهيم والحكم: إذا ابرا الوارث من الدين برئ، واوصى رافع بن خديج، ان لا تكشف امراته الفزارية عما اغلق عليه بابها، وقال الحسن: إذا قال لمملوكه عند الموت كنت اعتقتك جاز، وقال الشعبي: إذا قالت المراة عند موتها إن زوجي قضاني وقبضت منه جاز، وقال: بعض الناس، لا يجوز إقراره لسوء الظن به للورثة، ثم استحسن، فقال: يجوز إقراره بالوديعة، والبضاعة، والمضاربة وقد، قال النبي صلى الله عليه وسلم:" إياكم والظن، فإن الظن اكذب الحديث، ولا يحل مال المسلمين، لقول النبي صلى الله عليه وسلم آية المنافق إذا اؤتمن خان، وقال الله تعالى: إن الله يامركم ان تؤدوا الامانات إلى اهلها سورة النساء آية 58، فلم يخص وارثا، ولا غيره فيه عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم.وَيُذْكَرُ أَنَّ شُرَيْحًا، وَعُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ، وَطَاوُسًا، وَعَطَاءً، وَابْنَ أُذَيْنَةَ أَجَازُوا إِقْرَارَ الْمَرِيضِ بِدَيْنٍ، وَقَالَ الْحَسَنُ: أَحَقُّ مَا تَصَدَّقَ بِهِ الرَّجُلُ آخِرَ يَوْمٍ مِنَ الدُّنْيَا، وَأَوَّلَ يَوْمٍ مِنَ الْآخِرَةِ، وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ وَالْحَكَمُ: إِذَا أَبْرَأَ الْوَارِثَ مِنَ الدَّيْنِ بَرِئَ، وَأَوْصَى رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ، أَنْ لَا تُكْشَفَ امْرَأَتُهُ الْفَزَارِيَّةُ عَمَّا أُغْلِقَ عَلَيْهِ بَابُهَا، وَقَالَ الْحَسَنُ: إِذَا قَالَ لِمَمْلُوكِهِ عِنْدَ الْمَوْتِ كُنْتُ أَعْتَقْتُكَ جَازَ، وَقَالَ الشَّعْبِيُّ: إِذَا قَالَتِ الْمَرْأَةُ عِنْدَ مَوْتِهَا إِنَّ زَوْجِي قَضَانِي وَقَبَضْتُ مِنْهُ جَازَ، وَقَالَ: بَعْضُ النَّاسِ، لَا يَجُوزُ إِقْرَارُهُ لِسُوءِ الظَّنِّ بِهِ لِلْوَرَثَةِ، ثُمَّ اسْتَحْسَنَ، فَقَالَ: يَجُوزُ إِقْرَارُهُ بِالْوَدِيعَةِ، وَالْبِضَاعَةِ، وَالْمُضَارَبَةِ وَقَدْ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ، فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ، وَلَا يَحِلُّ مَالُ الْمُسْلِمِينَ، لِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آيَةُ الْمُنَافِقِ إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ، وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا سورة النساء آية 58، فَلَمْ يَخُصَّ وَارِثًا، وَلَا غَيْرَهُ فِيهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
اور منقول ہے کہ قاضی شریح، عمر بن عبدالعزیز، طاؤس، عطاء اور عبدالرحمٰن بن اذینہ ان لوگوں نے بیماری میں قرض کا اقرار درست رکھا ہے اور امام حسن بصری نے کہا سب سے زیادہ آدمی کو اس وقت سچا سمجھنا چاہئے جب دنیا میں اس کا آخری دن اور آخرت میں پہلا دن ہو اور ابراہیم نخعی اور حکم بن عتبہ نے کہا اگر بیمار وارث سے یوں کہے کہ میرا اس پر کچھ قرضہ نہیں تو یہ ابراء صحیح ہو گا اور رافع بن خدیج (صحابی) نے یہ وصیت کی کہ ان کی بیوی فزاریہ کے دروازے میں جو مال بند ہے وہ نہ کھولا جائے اور امام حسن بصری نے کہا اگر کوئی مرتے وقت اپنے غلام سے کہے میں تجھ کو آزاد کر چکا تو جائز ہے۔ اور شعبی نے کہا کہ اگر عورت مرتے وقت یوں کہے میرا خاوند مجھ کو مہر دے چکا ہے اور میں لے چکی ہوں تو جائز ہو گا اور بعض لوگ (حنفیہ) کہتے ہیں بیمار کا اقرار کسی وارث کے لیے دوسرے وارثوں کی بدگمانی کی وجہ سے صحیح نہ ہو گا۔ پھر یہی لوگ کہتے ہیں کہ امانت اور بضاعت اور مضاربت کا اگر بیمار اقرار کرے تو صحیح ہے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم بدگمانی سے بچے رہو بدگمانی بڑا جھوٹ ہے اور مسلمانو! (دوسرے وارثوں کا حق) مار لینا درست نہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے منافق کی نشانی یہ ہے کہ امانت میں خیانت کرے اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ نساء میں فرمایا اللہ تعالیٰ تم کو یہ حکم دیتا ہے کہ جس کی امانت ہے اس کو پہنچا دو۔ اس میں وارث یا غیر وارث کی کوئی خصوصیت نہیں ہے۔ اسی مضمون میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوع حدیث مروی ہے۔
حدیث نمبر: 2749
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا سليمان بن داود ابو الربيع، حدثنا إسماعيل بن جعفر، حدثنا نافع بن مالك بن ابي عامر ابو سهيل، عن ابيه، عن ابي هريرةرضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" آية المنافق ثلاث إذا حدث كذب، وإذا اؤتمن خان، وإذا وعد اخلف".(مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ أَبُو الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ مَالِكِ بْنِ أَبِي عَامِرٍ أَبُو سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ".
ہم سے سلیمان بن داؤد ابوالربیع نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے اسمٰعیل بن جعفر نے ‘ انہوں نے کہا ہم سے نافع بن مالک بن ابی عامر ابوسہیل نے ‘ انہوں نے اپنے باپ سے ‘ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا منافق کی تین نشانیاں ہیں جب بات کہے تو جھوٹ کہے اور جب اس کے پاس امانت رکھیں تو خیانت کرے اور جب وعدہ کرے تو خلاف کرے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "The signs of a hypocrite are three: Whenever he speaks he tells a lie; whenever he is entrusted he proves dishonest; whenever he promises he breaks his promise."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 51, Number 12


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
9. بَابُ تَأْوِيلِ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ}:
9. باب: اللہ تعالیٰ کے (سورۃ نساء میں) یہ فرمانے کی تفسیر کہ حصوں کی تقسیم وصیت اور دین کے بعد ہو گی۔
(9) Chapter. The explanation of the Statement of Allah: “… After payment of legacies that they may have bequeathed or debts..." (V.4:12)
حدیث نمبر: Q2750
Save to word اعراب English
ويذكر ان النبي صلى الله عليه وسلم قضى بالدين قبل الوصية، وقوله عز وجل: إن الله يامركم ان تؤدوا الامانات إلى اهلها سورة النساء آية 58فاداء الامانة احق من تطوع الوصية، وقال النبي صلى الله عليه وسلم:" لا صدقة إلا عن ظهر غنى، وقال ابن عباس: لا يوصي العبد إلا بإذن اهله، وقال النبي صلى الله عليه وسلم:" العبد راع في مال سيده".وَيُذْكَرُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى بِالدَّيْنِ قَبْلَ الْوَصِيَّةِ، وَقَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا سورة النساء آية 58فَأَدَاءُ الْأَمَانَةِ أَحَقُّ مِنْ تَطَوُّعِ الْوَصِيَّةِ، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا صَدَقَةَ إِلَّا عَنْ ظَهْرِ غِنًى، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَا يُوصِي الْعَبْدُ إِلَّا بِإِذْنِ أَهْلِهِ، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْعَبْدُ رَاعٍ فِي مَالِ سَيِّدِهِ".
اور منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض کو وصیت پر مقدم کرنے کا حکم دیا اور (اس سورت میں) اور اللہ کا فرمان «إن الله يأمركم أن تؤدوا الأمانات إلى أهلها‏» بے شک اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حق داروں کو ادا کرو۔ تو امانت (قرض) کا ادا کرنا نفل وصیت کے پورا کرنے سے زیادہ ضروری ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صدقہ وہی عمدہ ہے جس کے بعد آدمی مالدار رہے۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا غلام بغیر اپنے مالک کی اجازت کے وصیت نہیں کر سکتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غلام اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے۔
حدیث نمبر: 2750
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا الاوزاعي، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، وعروة بن الزبير، ان حكيم بن حزام رضي الله عنه، قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم فاعطاني، ثم سالته فاعطاني، ثم قال لي:" يا حكيم، إن هذا المال خضر حلو، فمن اخذه بسخاوة نفس بورك له فيه، ومن اخذه بإشراف نفس لم يبارك له فيه، وكان كالذي ياكل ولا يشبع، واليد العليا خير من اليد السفلى". قال حكيم، فقلت: يا رسول الله، والذي بعثك بالحق لا ارزا احدا بعدك شيئا حتى افارق الدنيا، فكان ابو بكر يدعو حكيما ليعطيه العطاء، فيابى ان يقبل منه شيئا، ثم إن عمر دعاه ليعطيه، فيابى ان يقبله، فقال: يا معشر المسلمين، إني اعرض عليه حقه الذي قسم الله له من هذا الفيء، فيابى ان ياخذه، فلم يرزا حكيم احدا من الناس بعد النبي صلى الله عليه وسلم حتى توفي رحمه الله.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، وَعُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، أن حكيم بن حزام رضي الله عنه، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ قَالَ لِي:" يَا حَكِيمُ، إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرٌ حُلْوٌ، فَمَنْ أَخَذَهُ بِسَخَاوَةِ نَفْسٍ بُورِكَ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، وَكَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ، وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى". قَالَ حَكِيمٌ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا أَرْزَأُ أَحَدًا بَعْدَكَ شَيْئًا حَتَّى أُفَارِقَ الدُّنْيَا، فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يَدْعُو حَكِيمًا لِيُعْطِيَهُ الْعَطَاءَ، فَيَأْبَى أَنْ يَقْبَلَ مِنْهُ شَيْئًا، ثُمَّ إِنَّ عُمَرَ دَعَاهُ لِيُعْطِيَهُ، فَيَأْبَى أَنْ يَقْبَلَهُ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ، إِنِّي أَعْرِضُ عَلَيْهِ حَقَّهُ الَّذِي قَسَمَ اللَّهُ لَهُ مِنْ هَذَا الْفَيْءِ، فَيَأْبَى أَنْ يَأْخُذَهُ، فَلَمْ يَرْزَأْ حَكِيمٌ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى تُوُفِّيَ رَحِمَهُ اللَّهُ.
ہم سے محمد بن یوسف بیکندی نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو امام اوزاعی نے خبر دی ‘ انہوں نے زہری سے ‘ انہوں نے سعید بن مسیب اور عروہ بن زبیر سے کہ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ (مشہور صحابی) نے بیان کیا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا آپ نے مجھ کو دیا ‘ پھر مانگا پھر آپ نے دیا ‘ پھر فرمانے لگے حکیم یہ دنیا کا روپیہ پیسہ دیکھنے میں خوشنما اور مزے میں شیریں ہے لیکن جو کوئی اس کو سیر چشمی سے لے اس کو برکت ہوتی ہے اور جو کوئی جان لڑا کر حرص کے ساتھ اس کو لے اس کو برکت نہ ہو گی۔ اس کی مثال ایسی ہے جو کماتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا اوپر والا (دینے والا) ہاتھ نیچے والے (لینے والے) ہاتھ سے بہتر ہے۔ حکیم نے عرض کیا یا رسول اللہ! قسم اس کی جس نے آپ کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا ہے میں تو آج سے آپ کے بعد کسی سے کوئی چیز کبھی نہیں لوں گا مرنے تک پھر (حکیم کا یہ حال رہا) کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کا سالانہ وظیفہ دینے کے لیے ان کو بلاتے ‘ وہ اس کے لینے سے انکار کرتے۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی خلافت میں ان کو بلایا ان کا وظیفہ دینے کے لیے لیکن انہوں نے انکار کیا۔ عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے مسلمانو! تم گواہ رہنا حکیم کو اس کا حق جو لوٹ کے مال میں اللہ نے رکھا ہے دیتا ہوں وہ نہیں لیتا۔ غرض حکیم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پھر کسی شخص سے کوئی چیز قبول نہیں کی (اپنا وظیفہ بھی بیت المال میں نہ لیا) یہاں تک کہ ان کی وفات ہو گئی۔ اللہ ان پر رحم کرے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Urwa bin Az-Zubair: Hakim bin Hizam said, "I asked Allah's Apostle for something, and he gave me, and I asked him again and he gave me and said, 'O Hakim! This wealth is green and sweet (i.e. as tempting as fruits), and whoever takes it without greed then he is blessed in it, and whoever takes it with greediness, he is not blessed in it and he is like one who eats and never gets satisfied. The upper (i.e. giving) hand is better than the lower (i.e. taking) hand." Hakim added, "I said, O Allah's Apostle! By Him Who has sent you with the Truth I will never demand anything from anybody after you till I die." Afterwards Abu Bakr used to call Hakim to give him something but he refused to accept anything from him. Then `Umar called him to give him (something) but he refused. Then `Umar said, "O Muslims! I offered to him (i.e. Hakim) his share which Allah has ordained for him from this booty and he refuses to take it." Thus Hakim did not ask anybody for anything after the Prophet, till he died--may Allah bestow His mercy upon him.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 51, Number 13


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 2751
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا بشر بن محمد السختياني، اخبرنا عبد الله، اخبرنا يونس، عن الزهري، قال: اخبرني سالم، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" كلكم راع ومسئول عن رعيته، والإمام راع ومسئول عن رعيته، والرجل راع في اهله ومسئول عن رعيته، والمراة في بيت زوجها راعية ومسئولة عن رعيتها، والخادم في مال سيده راع ومسئول عن رعيته، قال: وحسبت ان قد قال: والرجل راع في مال ابيه".(مرفوع) حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ السَّخْتِيَانِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمٌ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" كُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالْإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي أَهْلِهِ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالْمَرْأَةُ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا رَاعِيَةٌ وَمَسْئُولَةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَا، وَالْخَادِمُ فِي مَالِ سَيِّدِهِ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، قَالَ: وَحَسِبْتُ أَنْ قَدْ قَالَ: وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي مَالِ أَبِيهِ".
ہم سے بشر بن محمد نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی کہا ہم کو یونس نے، انہوں نے زہری سے ‘ انہوں نے کہا مجھ کو سالم نے خبر دی ‘ انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے انہوں نے کہا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے تم میں سے ہر کوئی نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ حاکم بھی نگہبان ہے اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا اور مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگہبان ہے اپنی رعیت کے بارے میں پوچھی جائے گی اور غلام اپنے صاحب کے مال کا نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ مرد اپنے باپ کے مال کا نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn `Umar: I heard Allah's Apostle saying, "All of you are guardians and responsible for your charges: the Ruler (i.e. Imam) is a guardian and responsible for his subjects; and a man is a guardian of his family and is responsible for his charges; and a lady is a guardian in the house of her husband and is responsible for her charge; and a servant is a guardian of the property of his master and is responsible for his charge." I think he also said, "And a man is a guardian of the property of his father."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 51, Number 14


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
10. بَابُ إِذَا وَقَفَ أَوْ أَوْصَى لأَقَارِبِهِ وَمَنِ الأَقَارِبُ:
10. باب: اگر کسی نے اپنے عزیزوں پر کوئی چیز وقف کی یا ان کے لیے وصیت کی تو کیا حکم ہے اور عزیزوں سے کون لوگ مراد ہوں گے۔
(10) Chapter. If somebody founds an endowment (or bequeathes) his relatives by a will (is it permissible?). And who are considered as relatives.
حدیث نمبر: Q2752
Save to word اعراب English
وقال ثابت: عن انس، قال النبي صلى الله عليه وسلم لابي طلحة:" اجعلها لفقراء اقاربك، فجعلها لحسان، وابي بن كعب".وَقَالَ ثَابِتٌ: عَنْ أَنَسٍ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي طَلْحَةَ:" اجْعَلْهَا لِفُقَرَاءِ أَقَارِبِكَ، فَجَعَلَهَا لِحَسَّانَ، وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ".
اور ثابت نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطلحہ سے فرمایا تو یہ باغ اپنے ضرورت مند عزیزوں کو دے ڈال۔ انہوں نے حسان اور ابی بن کعب کو دے دیا (جو ابوطلحہ کے چچا کی اولاد تھے) اور محمد بن عبداللہ انصاری نے کہا مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا ‘ انہوں نے ثمامہ سے ‘ انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے ثابت کی طرح روایت کی ‘ اس میں یوں ہے اپنے قرابت دار محتاجوں کو دے۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا۔ تو ابوطلحہ نے وہ باغ حسان اور ابی بن کعب کو دے دیا ‘ وہ مجھ سے زیادہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے قریبی رشتہ دار تھے اور حسان اور ابی بن کعب کی قرابت ابوطلحہ سے یوں تھی کہ ابوطلحہ کا نام زید ہے وہ سہیل کے بیٹے ‘ وہ اسود کے ‘ وہ حرام کے ‘ وہ عمرو بن زید مناۃ بن عدی بن عمرو بن مالک بن نجار کے اور حسان ثابت کے بیٹے ‘ وہ منذر کے ‘ وہ حرام کے تو دونوں حرام میں جا کر مل جاتے ہیں جو پردادا ہے تو حرام بن عمرو بن زید ‘ مناۃ بن عدی بن عمرو بن مالک بن نجار حسان اور ابوطلحہ کو ملا دیتا ہے اور ابی بن کعب چھٹی پشت میں یعنی عمرو بن مالک میں ابوطلحہ سے ملتے ہیں، ابی بن کعب کے بیٹے ‘ وہ قیس کے ‘ وہ عبید کے ‘ وہ زید کے ‘ وہ معاویہ کے ‘ وہ عمرو بن مالک بن نجار کے تو عمرو بن مالک حسان اور ابوطلحہ اور ابی تینوں کو ملا دیتا ہے اور بعضوں نے (امام ابویوسف امام ابوحنیفہ کے شاگرد نے) کہا عزیزوں کے لیے وصیت کرے تو جتنے مسلمان باپ دادا گزرے ہیں وہ سب داخل ہوں گے۔
حدیث نمبر: 2752
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة، انه سمع انسا رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم لابي طلحة" ارى ان تجعلها في الاقربين، قال ابو طلحة: افعل يا رسول الله، فقسمها ابو طلحة في اقاربه، وبني عمه". وقال ابن عباس: لما نزلت وانذر عشيرتك الاقربين سورة الشعراء آية 214 جعل النبي صلى الله عليه وسلم ينادي يا بني فهر، يا بني عدي لبطون قريش. وقال ابو هريرة: لما نزلت وانذر عشيرتك الاقربين سورة الشعراء آية 214، قال النبي صلى الله عليه وسلم: يا معشر قريش.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي طَلْحَةَ" أَرَى أَنْ تَجْعَلَهَا فِي الْأَقْرَبِينَ، قَالَ أَبُو طَلْحَةَ: أَفْعَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَسَمَهَا أَبُو طَلْحَةَ فِي أَقَارِبِهِ، وَبَنِي عَمِّهِ". وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَمَّا نَزَلَتْ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214 جَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنَادِي يَا بَنِي فِهْرٍ، يَا بَنِي عَدِيٍّ لِبُطُونِ قُرَيْشٍ. وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: لَمَّا نَزَلَتْ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی ‘ انہوں نے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ سے، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ انہوں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطلحہ سے فرمایا (جب انہوں نے اپنا باغ بیرحاء اللہ کی راہ میں دینا چاہا) میں مناسب سمجھتا ہوں تو یہ باغ اپنے عزیزوں کو دیدے۔ ابوطلحہ نے کہا بہت خوب ایسا ہی کروں گا۔ پھر ابوطلحہ نے وہ باغ اپنے عزیزوں اور چچا کے بیٹوں میں تقسیم کر دیا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا جب (سورۃ الشعراء کی) یہ آیت اتری «وأنذر عشيرتك الأقربين‏» اور اپنے قریب کے ناطے والوں کو (اللہ کے عذاب سے) ڈرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے خاندانوں بنی فہر ‘ بنی عدی کو پکارنے لگے (ان کو ڈرایا) اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا جب یہ آیت اتری «وأنذر عشيرتك الأقربين‏» آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے قریش کے لوگو! (اللہ سے ڈرو)۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Anas: The Prophet said to Abu Talha, "I recommend that you divide (this garden) amongst your relatives." Abu Talha said, "O Allah's Apostle! I will do the same." So Abu Talha divided it among his relatives and cousins. Ibn 'Abbes said, "When the Qur'anic Verse: "Warn your nearest kinsmen." (26.214) Was revealed, the Prophet started calling the various big families of Quraish, "O Bani Fihr! O Bani Adi!". Abu Huraira said, "When the Verse: "Warn your nearest kinsmen" was revealed, the Prophet said (in a loud voice), "O people of Quraish!"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 51, Number 15


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

Previous    1    2    3    4    5    6    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.