سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو ایک آیت پڑھتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے خلاف سنا تھا، پس میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم دونوں صحیح پڑھتے ہو، اختلاف نہ کرو۔ جو لوگ تم سے پہلے تھے انھوں نے اختلاف کیا اسی وجہ سے وہ ہلاک ہو گئے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن دو آدمیوں نے باہم گالی گلوچ کی ایک ان میں سے مسلمان تھا اور دوسرا یہودی۔ مسلمان نے (اثنائے کلام) کہا کہ قسم اس کی جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہان کے لوگوں پر برگزیدہ کیا ہے۔ یہودی نے کہا قسم اس کی جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام جہان کے لوگوں پر برگزیدہ کیا ہے پس مسلمان نے اس وقت اپنا ہاتھ اٹھایا اور یہودی کے منہ پر طمانچہ مارا۔ وہ یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور اس مسلمان کا واقعہ بیان کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسلمان کو بلوایا اور اس سے بھی واقعہ پوچھا۔ اس نے (کل واقعہ) بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ مجھے موسیٰ علیہ السلام پر فضیلت نہ دو کیونکہ قیامت کے دن سب لوگ بیہوش ہو جائیں گے ان کے ساتھ میں بھی بیہوش ہو جاؤں گا اور مجھے سب سے پہلے ہوش آئے گا تو میں دیکھوں گا کہ موسیٰ (علیہ السلام) عرش کا ایک پایہ پکڑے ہوئے کھڑے ہیں۔ اب میں نہیں جانتا کہ وہ بیہوش ہوئے تھے مگر انھیں مجھ سے پہلے ہوش آ گیا یا وہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے (بیہوش ہونے سے) مستثنیٰ کر لیا ہے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا۔ اس سے پوچھا گیا کہ یہ کس نے کیا؟ کیا فلاں نے، کیا فلاں نے، یہاں تک کہ اس یہودی کا نام لیا گیا تو اس نے اپنے سر سے اشارہ کیا کہ ہاں پس وہ یہودی پکڑ لیا گیا اور اس نے اقرار جرم کیا۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو اس یہودی کا سر بھی دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا گیا۔
سیدنا اشعث رضی اللہ عنہ کی حدیث پہلے قریب ہی گزر چکی ہے(دیکھئیے کتاب: مساقات کا بیان۔۔۔ باب:۔ کنویں کے بارے میں جھگڑا کرنا اور اس کا فیصلہ کرنا۔۔۔)۔ ایک روایت میں کہتے ہیں کہ وہ حضرمی تھا اور دوسری روایت میں ہے کہ وہ یہودی تھا جس سے سیدنا اشعث رضی اللہ عنہ کا جھگڑا ہوا تھا۔