صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: شرائط کے مسائل کا بیان
The Book of Conditions
1. بَابُ مَا يَجُوزُ مِنَ الشُّرُوطِ فِي الإِسْلاَمِ وَالأَحْكَامِ وَالْمُبَايَعَةِ:
1. باب: اسلام میں داخل ہوتے وقت اور معاملات بیع وشراء میں کون سی شرطیں لگانا جائز ہے؟
(1) Chapter. The conditions permissible on embracing Islam, and in contracts and transactions.
حدیث نمبر: 2711
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، قال: اخبرني عروة بن الزبير، انه سمع مروان، والمسور بن مخرمة رضي الله عنهما، يخبران عن اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لما كاتب سهيل بن عمرو يومئذ كان فيما اشترط سهيل بن عمرو على النبي صلى الله عليه وسلم انه لا ياتيك منا احد، وإن كان على دينك إلا رددته إلينا، وخليت بيننا وبينه، فكره المؤمنون ذلك وامتعضوا منه، وابى سهيل إلا ذلك، فكاتبه النبي صلى الله عليه وسلم على ذلك، فرد يومئذ ابا جندل إلى ابيه سهيل بن عمرو، ولم ياته احد من الرجال إلا رده في تلك المدة وإن كان مسلما، وجاء المؤمنات مهاجرات، وكانت ام كلثوم بنت عقبة بن ابي معيط ممن خرج إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم يومئذ وهي عاتق، فجاء اهلها يسالون النبي صلى الله عليه وسلم ان يرجعها إليهم، فلم يرجعها إليهم لما انزل الله فيهن إذا جاءكم المؤمنات مهاجرات فامتحنوهن الله اعلم بإيمانهن إلى قوله ولا هم يحلون لهن سورة الممتحنة آية 10.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ مَرْوَانَ، وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يُخْبِرَانِ عَنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَمَّا كَاتَبَ سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو يَوْمَئِذٍ كَانَ فِيمَا اشْتَرَطَ سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ لَا يَأْتِيكَ مِنَّا أَحَدٌ، وَإِنْ كَانَ عَلَى دِينِكَ إِلَّا رَدَدْتَهُ إِلَيْنَا، وَخَلَّيْتَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ، فَكَرِهَ الْمُؤْمِنُونَ ذَلِكَ وَامْتَعَضُوا مِنْهُ، وَأَبَى سُهَيْلٌ إِلَّا ذَلِكَ، فَكَاتَبَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ذَلِكَ، فَرَدَّ يَوْمَئِذٍ أَبَا جَنْدَلٍ إِلَى أَبِيهِ سُهَيْلِ بْنِ عَمْرٍو، وَلَمْ يَأْتِهِ أَحَدٌ مِنَ الرِّجَالِ إِلَّا رَدَّهُ فِي تِلْكَ الْمُدَّةِ وَإِنْ كَانَ مُسْلِمًا، وَجَاءَ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ، وَكَانَتْ أُمُّ كُلْثُومٍ بِنْتُ عُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ مِمَّنْ خَرَجَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ وَهِيَ عَاتِقٌ، فَجَاءَ أَهْلُهَا يَسْأَلُونَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَرْجِعَهَا إِلَيْهِمْ، فَلَمْ يَرْجِعْهَا إِلَيْهِمْ لِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فِيهِنَّ إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ اللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِهِنَّ إِلَى قَوْلِهِ وَلا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ سورة الممتحنة آية 10.
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی، انہوں نے خلیفہ مروان اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے سنا، یہ دونوں حضرات اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خبر دیتے تھے کہ جب سہیل بن عمرو نے (حدیبیہ میں کفار قریش کی طرف سے معاہدہ صلح) لکھوایا تو جو شرائط نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سہیل نے رکھی تھیں، ان میں یہ شرط بھی تھیں کہ ہم میں سے کوئی بھی شخص اگر آپ کے یہاں (فرار ہو کر) چلا جائے خواہ وہ آپ کے دین پر ہی کیوں نہ ہو تو آپ کو اسے ہمارے حوالہ کرنا ہو گا۔ مسلمان یہ شرط پسند نہیں کر رہے تھے اور اس پر انہیں دکھ ہوا تھا۔ لیکن سہیل نے اس شرط کے بغیر صلح قبول نہ کی۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی شرط پر صلح نامہ لکھوا لیا۔ اتفاق سے اسی دن ابوجندل رضی اللہ عنہ کو جو مسلمان ہو کر آیا تھا (معاہدہ کے تحت بادل ناخواستہ) ان کے والد سہیل بن عمرو کے حوالے کر دیا گیا۔ اسی طرح مدت صلح میں جو مرد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (مکہ سے بھاگ کر آیا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ان کے حوالے کر دیا۔ خواہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ رہا ہو۔ لیکن چند ایمان والی عورتیں بھی ہجرت کر کے آ گئی تھیں، ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط رضی اللہ عنہا بھی ان میں شامل تھیں جو اسی دن (مکہ سے نکل کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی تھیں، وہ جوان تھیں اور جب ان کے گھر والے آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ان کے حوالے نہیں فرمایا، بلکہ عورتوں کے متعلق اللہ تعالیٰ (سورۃ الممتحنہ میں) ارشاد فرما چکا تھا «{‏ إذا جاءكم المؤمنات مهاجرات فامتحنوهن الله أعلم بإيمانهن‏ }‏ إلى قوله ‏ {‏ ولا هم يحلون لهن‏ }‏‏.‏» ‏‏‏‏ جب مسلمان عورتیں تمہارے یہاں ہجرت کر کے پہنچیں تو پہلے تم ان کا امتحان لے لو، یوں تو ان کے ایمان کے متعلق جاننے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد تک کہ کفار و مشرکین ان کے لیے حلال نہیں ہیں الخ۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Marwan and al-Miswar bin Makhrama: (from the companions of Allah's Apostle) When Suhail bin `Amr agreed to the Treaty (of Hudaibiya), one of the things he stipulated then, was that the Prophet should return to them (i.e. the pagans) anyone coming to him from their side, even if he was a Muslim; and would not interfere between them and that person. The Muslims did not like this condition and got disgusted with it. Suhail did not agree except with that condition. So, the Prophet agreed to that condition and returned Abu Jandal to his father Suhail bin `Amr. Thenceforward the Prophet returned everyone in that period (of truce) even if he was a Muslim. During that period some believing women emigrants including Um Kulthum bint `Uqba bin Abu Muait who came to Allah's Apostle and she was a young lady then. Her relative came to the Prophet and asked him to return her, but the Prophet did not return her to them for Allah had revealed the following Verse regarding women: "O you who believe! When the believing women come to you as emigrants. Examine them, Allah knows best as to their belief, then if you know them for true believers, Send them not back to the unbelievers, (for) they are not lawful (wives) for the disbelievers, Nor are the unbelievers lawful (husbands) for them (60.10)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 50, Number 874


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 2712
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، قال: اخبرني عروة بن الزبير، انه سمع مروان، والمسور بن مخرمة رضي الله عنهما، يخبران عن اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لما كاتب سهيل بن عمرو يومئذ كان فيما اشترط سهيل بن عمرو على النبي صلى الله عليه وسلم انه لا ياتيك منا احد، وإن كان على دينك إلا رددته إلينا، وخليت بيننا وبينه، فكره المؤمنون ذلك وامتعضوا منه، وابى سهيل إلا ذلك، فكاتبه النبي صلى الله عليه وسلم على ذلك، فرد يومئذ ابا جندل إلى ابيه سهيل بن عمرو، ولم ياته احد من الرجال إلا رده في تلك المدة وإن كان مسلما، وجاء المؤمنات مهاجرات، وكانت ام كلثوم بنت عقبة بن ابي معيط ممن خرج إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم يومئذ وهي عاتق، فجاء اهلها يسالون النبي صلى الله عليه وسلم ان يرجعها إليهم، فلم يرجعها إليهم لما انزل الله فيهن إذا جاءكم المؤمنات مهاجرات فامتحنوهن الله اعلم بإيمانهن إلى قوله ولا هم يحلون لهن سورة الممتحنة آية 10.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ مَرْوَانَ، وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يُخْبِرَانِ عَنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَمَّا كَاتَبَ سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو يَوْمَئِذٍ كَانَ فِيمَا اشْتَرَطَ سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ لَا يَأْتِيكَ مِنَّا أَحَدٌ، وَإِنْ كَانَ عَلَى دِينِكَ إِلَّا رَدَدْتَهُ إِلَيْنَا، وَخَلَّيْتَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ، فَكَرِهَ الْمُؤْمِنُونَ ذَلِكَ وَامْتَعَضُوا مِنْهُ، وَأَبَى سُهَيْلٌ إِلَّا ذَلِكَ، فَكَاتَبَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ذَلِكَ، فَرَدَّ يَوْمَئِذٍ أَبَا جَنْدَلٍ إِلَى أَبِيهِ سُهَيْلِ بْنِ عَمْرٍو، وَلَمْ يَأْتِهِ أَحَدٌ مِنَ الرِّجَالِ إِلَّا رَدَّهُ فِي تِلْكَ الْمُدَّةِ وَإِنْ كَانَ مُسْلِمًا، وَجَاءَ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ، وَكَانَتْ أُمُّ كُلْثُومٍ بِنْتُ عُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ مِمَّنْ خَرَجَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ وَهِيَ عَاتِقٌ، فَجَاءَ أَهْلُهَا يَسْأَلُونَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَرْجِعَهَا إِلَيْهِمْ، فَلَمْ يَرْجِعْهَا إِلَيْهِمْ لِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فِيهِنَّ إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ اللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِهِنَّ إِلَى قَوْلِهِ وَلا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ سورة الممتحنة آية 10.
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی، انہوں نے خلیفہ مروان اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے سنا، یہ دونوں حضرات اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خبر دیتے تھے کہ جب سہیل بن عمرو نے (حدیبیہ میں کفار قریش کی طرف سے معاہدہ صلح) لکھوایا تو جو شرائط نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سہیل نے رکھی تھیں، ان میں یہ شرط بھی تھیں کہ ہم میں سے کوئی بھی شخص اگر آپ کے یہاں (فرار ہو کر) چلا جائے خواہ وہ آپ کے دین پر ہی کیوں نہ ہو تو آپ کو اسے ہمارے حوالہ کرنا ہو گا۔ مسلمان یہ شرط پسند نہیں کر رہے تھے اور اس پر انہیں دکھ ہوا تھا۔ لیکن سہیل نے اس شرط کے بغیر صلح قبول نہ کی۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی شرط پر صلح نامہ لکھوا لیا۔ اتفاق سے اسی دن ابوجندل رضی اللہ عنہ کو جو مسلمان ہو کر آیا تھا (معاہدہ کے تحت بادل ناخواستہ) ان کے والد سہیل بن عمرو کے حوالے کر دیا گیا۔ اسی طرح مدت صلح میں جو مرد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (مکہ سے بھاگ کر آیا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ان کے حوالے کر دیا۔ خواہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ رہا ہو۔ لیکن چند ایمان والی عورتیں بھی ہجرت کر کے آ گئی تھیں، ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط رضی اللہ عنہا بھی ان میں شامل تھیں جو اسی دن (مکہ سے نکل کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی تھیں، وہ جوان تھیں اور جب ان کے گھر والے آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ان کے حوالے نہیں فرمایا، بلکہ عورتوں کے متعلق اللہ تعالیٰ (سورۃ الممتحنہ میں) ارشاد فرما چکا تھا «{‏ إذا جاءكم المؤمنات مهاجرات فامتحنوهن الله أعلم بإيمانهن‏ }‏ إلى قوله ‏ {‏ ولا هم يحلون لهن‏ }‏‏.‏» ‏‏‏‏ جب مسلمان عورتیں تمہارے یہاں ہجرت کر کے پہنچیں تو پہلے تم ان کا امتحان لے لو، یوں تو ان کے ایمان کے متعلق جاننے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد تک کہ کفار و مشرکین ان کے لیے حلال نہیں ہیں الخ۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Marwan and al-Miswar bin Makhrama: (from the companions of Allah's Apostle) When Suhail bin `Amr agreed to the Treaty (of Hudaibiya), one of the things he stipulated then, was that the Prophet should return to them (i.e. the pagans) anyone coming to him from their side, even if he was a Muslim; and would not interfere between them and that person. The Muslims did not like this condition and got disgusted with it. Suhail did not agree except with that condition. So, the Prophet agreed to that condition and returned Abu Jandal to his father Suhail bin `Amr. Thenceforward the Prophet returned everyone in that period (of truce) even if he was a Muslim. During that period some believing women emigrants including Um Kulthum bint `Uqba bin Abu Muait who came to Allah's Apostle and she was a young lady then. Her relative came to the Prophet and asked him to return her, but the Prophet did not return her to them for Allah had revealed the following Verse regarding women: "O you who believe! When the believing women come to you as emigrants. Examine them, Allah knows best as to their belief, then if you know them for true believers, Send them not back to the unbelievers, (for) they are not lawful (wives) for the disbelievers, Nor are the unbelievers lawful (husbands) for them (60.10)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 50, Number 874


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 2713
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) قال عروة: فاخبرتني عائشة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يمتحنهن بهذه الآية يايها الذين آمنوا إذا جاءكم المؤمنات مهاجرات فامتحنوهن سورة الممتحنة آية 10 إلى غفور رحيم سورة الممتحنة آية 12، قال عروة: قالت عائشة: فمن اقر بهذا الشرط منهن؟ قال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: قد بايعتك كلاما يكلمها به، والله ما مست يده يد امراة قط في المبايعة، وما بايعهن إلا بقوله".(مرفوع) قَالَ عُرْوَةُ: فَأَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمْتَحِنُهُنَّ بِهَذِهِ الْآيَةِ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ سورة الممتحنة آية 10 إِلَى غَفُورٌ رَحِيمٌ سورة الممتحنة آية 12، قَالَ عُرْوَةُ: قَالَتْ عَائِشَةُ: فَمَنْ أَقَرَّ بِهَذَا الشَّرْطِ مِنْهُنَّ؟ قَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ بَايَعْتُكِ كَلَامًا يُكَلِّمُهَا بِهِ، وَاللَّهِ مَا مَسَّتْ يَدُهُ يَدَ امْرَأَةٍ قَطُّ فِي الْمُبَايَعَةِ، وَمَا بَايَعَهُنَّ إِلَّا بِقَوْلِهِ".
عروہ نے کہا کہ مجھے عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرنے والی عورتوں کا اس آیت کی وجہ سے امتحان لیا کرتے تھے «{‏ يا أيها الذين آمنوا إذا جاءكم المؤمنات مهاجرات فامتحنوهن ‏}‏ إلى ‏ {‏ غفور رحيم‏ }‏‏.‏» اے مسلمانو! جب تمہارے یہاں مسلمان عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو تم ان کا امتحان لے لو غفور رحیم تک۔ عروہ نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ان عورتوں میں سے جو اس شرط کا اقرار کر لیتیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ میں نے تم سے بیعت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف زبان سے بیعت کرتے تھے۔ قسم اللہ کی! بیعت کرتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے کسی بھی عورت کے ہاتھ کو کبھی نہیں چھوا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف زبان سے بیعت لیا کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Urwa: Aisha told me, "Allah's Apostle used to examine them according to this Verse: "O you who believe! When the believing women come to you, as emigrants test them . . . for Allah is Oft- Forgiving, Most Merciful." (60.10-12) Aisha said, "When any of them agreed to that condition Allah's Apostle would say to her, 'I have accepted your pledge of allegiance.' He would only say that, but, by Allah he never touched the hand of any women (i.e. never shook hands with them) while taking the pledge of allegiance and he never took their pledge of allegiance except by his words (only).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 50, Number 874


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 2714
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو نعيم، حدثنا سفيان، عن زياد بن علاقة، قال: سمعت جريرا رضي الله عنه، يقول:" بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاشترط علي والنصح لكل مسلم".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ جَرِيرًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ:" بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاشْتَرَطَ عَلَيَّ وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے زیاد بن علاقہ نے بیان کیا کہ میں نے جریر رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ بیان کرتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے کی شرط پر بیعت کی تھی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Jarir: When I gave the pledge of allegiance to Allah's Apostle and he stipulated that I should give good advice to every Muslim.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 50, Number 875


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 2715
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن إسماعيل، قال: حدثني قيس بن ابي حازم، عن جرير بن عبد الله رضي الله عنه، قال:" بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم على: إقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، والنصح لكل مسلم".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنِي قَيْسُ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى: إِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، ان سے قیس بن ابی حازم نے اور ان سے جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے نماز قائم کرنے، زکوٰۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے کی شرطوں کے ساتھ بیعت کی تھی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Jabir bin `Abdullah: I gave the pledge of allegiance to Allah's Apostle for offering the prayers perfectly paying the Zakat and giving good advice to every Muslim.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 50, Number 876


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
2. بَابُ إِذَا بَاعَ نَخْلاً قَدْ أُبِّرَتْ:
2. باب: پیوند لگانے کے بعد اگر کھجور کا درخت بیچے؟
(2) Chapter. (What is said regarding) the sale of pollinated date-palms.
حدیث نمبر: 2716
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" من باع نخلا قد ابرت فثمرتها للبائع، إلا ان يشترط المبتاع".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ بَاعَ نَخْلًا قَدْ أُبِّرَتْ فَثَمَرَتُهَا لِلْبَائِعِ، إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کوئی ایسا کھجور کا باغ بیچا جس کی پیوند کاری ہو چکی تھی تو اس کا پھل (اس سال کے) بیچنے والے ہی کا ہو گا۔ ہاں اگر خریدار شرط لگا دے (تو پھل سمیت بیع سمجھی جائے گی)۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Abdullah bin `Umar: Allah's Apostle said, "If someone sells pollinated date-palms, their fruits will be for the seller, unless the buyer stipulates the contrary."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 50, Number 877


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
3. بَابُ الشُّرُوطِ فِي الْبَيْعِ:
3. باب: بیع میں شرطیں کرنے کا بیان۔
(3) Chapter. The conditions of selling.
حدیث نمبر: 2717
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا الليث، عن ابن شهاب، عن عروة، ان عائشة رضي الله عنها اخبرته، ان بريرة جاءت عائشة تستعينها في كتابتها، ولم تكن قضت من كتابتها شيئا، قالت لها عائشة: ارجعي إلى اهلك فإن احبوا ان اقضي عنك كتابتك ويكون ولاؤك لي، فعلت، فذكرت ذلك بريرة إلى اهلها فابوا، وقالوا: إن شاءت ان تحتسب عليك، فلتفعل ويكون لنا ولاؤك، فذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال لها" ابتاعي، فاعتقي، فإنما الولاء لمن اعتق".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ بَرِيرَةَ جَاءَتْ عَائِشَةَ تَسْتَعِينُهَا فِي كِتَابَتِهَا، وَلَمْ تَكُنْ قَضَتْ مِنْ كِتَابَتِهَا شَيْئًا، قَالَتْ لَهَا عَائِشَةُ: ارْجِعِي إِلَى أَهْلِكِ فَإِنْ أَحَبُّوا أَنْ أَقْضِيَ عَنْكِ كِتَابَتَكِ وَيَكُونَ وَلَاؤُكِ لِي، فَعَلْتُ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ بَرِيرَةُ إِلَى أَهْلِهَا فَأَبَوْا، وَقَالُوا: إِنْ شَاءَتْ أَنْ تَحْتَسِبَ عَلَيْكِ، فَلْتَفْعَلْ وَيَكُونَ لَنَا وَلَاؤُكِ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهَا" ابْتَاعِي، فَأَعْتِقِي، فَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ نے اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ بریرہ، عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں اپنی مکاتبت کے بارے میں ان سے مدد لینے کے لیے آئیں، انہوں نے ابھی تک اس معاملے میں (اپنے مالکوں کو) کچھ دیا نہیں تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے فرمایا کہ اپنے مالکوں کے یہاں جا کر (ان سے دریافت کرو) اگر وہ یہ صورت پسند کریں کہ تمہاری مکاتبت کی ساری رقم میں ادا کر دوں اور تمہاری ولاء میرے لیے ہو جائے تو میں ایسا کر سکتی ہوں۔ بریرہ نے اس کا تذکرہ جب اپنے مالکوں کے سامنے کیا تو انہوں نے انکار کیا اور کہا کہ وہ (عائشہ رضی اللہ عنہا) اگر چاہیں تو یہ کار ثواب تمہارے ساتھ کر سکتی ہیں لیکن ولاء تو ہمارے ہی رہے گی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تم انہیں خرید کر آزاد کر دو، ولاء تو بہرحال اسی کی ہوتی ہے جو آزاد کر دے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Urwa: Aisha told me that Buraira came to seek her help in writing for emancipation and at that time she had not paid any part of her price. `Aisha said to her, "Go to your masters and if they agree that I will pay your price (and free you) on condition that your Wala' will be for me, I will pay the money." Buraira told her masters about that, but they refused, and said, "If `Aisha wants to do a favor she could, but your Wala will be for us." Aisha informed Allah's Apostle of that and he said to her, "Buy and manumit Buraira as the Wala' will go to the manumitted."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 50, Number 878


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
4. بَابُ إِذَا اشْتَرَطَ الْبَائِعُ ظَهْرَ الدَّابَّةِ إِلَى مَكَانٍ مُسَمًّى جَازَ:
4. باب: اگر بیچنے والے نے کسی خاص مقام تک سواری کی شرط لگائی تو یہ جائز ہے۔
(4) Chapter. It is permissible for the seller to stipulate that he should ride the (sold) animal up to a certain place.
حدیث نمبر: 2718
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو نعيم، حدثنا زكرياء، قال: سمعت عامرا، يقول: حدثني جابر رضي الله عنه،" انه كان يسير على جمل له قد اعيا، فمر النبي صلى الله عليه وسلم فضربه، فدعا له، فسار بسير ليس يسير مثله، ثم قال: بعنيه بوقية؟ قلت: لا، ثم قال: بعنيه بوقية، فبعته، فاستثنيت حملانه إلى اهلي، فلما قدمنا اتيته بالجمل ونقدني ثمنه، ثم انصرفت، فارسل على إثري، قال: ما كنت لآخذ جملك، فخذ جملك ذلك فهو مالك". قال شعبة: عن مغيرة، عن عامر، عن جابر، افقرني رسول الله صلى الله عليه وسلم ظهره إلى المدينة. وقال إسحاق: عن جرير، عن مغيرة، فبعته على ان لي فقار ظهره حتى ابلغ المدينة. وقال عطاء، وغيره: لك ظهره إلى المدينة. وقال محمد بن المنكدر: عن جابر، شرط ظهره إلى المدينة. وقال زيد بن اسلم: عن جابر، ولك ظهره حتى ترجع. وقال ابو الزبير: عن جابر، افقرناك ظهره إلى المدينة. وقال الاعمش: عن سالم، عن جابر، تبلغ عليه إلى اهلك. وقال عبيد الله، وابن إسحاق: عن وهب، عن جابر، اشتراه النبي صلى الله عليه وسلم بوقية. وتابعه زيد بن اسلم، عن جابر. وقال ابن جريج: عن عطاء وغيره عن جابر، اخذته باربعة دنانير، وهذا يكون وقية على حساب الدينار بعشرة دراهم، ولم يبين الثمن مغيرة. عن الشعبي، عن جابر، وابن المنكدر، وابو الزبير، عن جابر وقال الاعمش: عن سالم، عن جابر، وقية ذهب. وقال ابو إسحاق: عن سالم، عن جابر بمائتي درهم. وقال داود بن قيس: عن عبيد الله بن مقسم، عن جابر، اشتراه بطريق تبوك، احسبه قال باربع اواق.وقال ابو نضرة: عن جابر اشتراه بعشرين دينارا. وقول الشعبي: بوقية اكثر الاشتراط اكثر واصح عندي. قاله ابو عبد الله".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ، قَالَ: سَمِعْتُ عَامِرًا، يَقُولُ: حَدَّثَنِي جَابِرٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" أَنَّهُ كَانَ يَسِيرُ عَلَى جَمَلٍ لَهُ قَدْ أَعْيَا، فَمَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَضَرَبَهُ، فَدَعَا لَهُ، فَسَارَ بِسَيْرٍ لَيْسَ يَسِيرُ مِثْلَهُ، ثُمَّ قَالَ: بِعْنِيهِ بِوَقِيَّةٍ؟ قُلْتُ: لَا، ثُمَّ قَالَ: بِعْنِيهِ بِوَقِيَّةٍ، فَبِعْتُهُ، فَاسْتَثْنَيْتُ حُمْلَانَهُ إِلَى أَهْلِي، فَلَمَّا قَدِمْنَا أَتَيْتُهُ بِالْجَمَلِ وَنَقَدَنِي ثَمَنَهُ، ثُمَّ انْصَرَفْتُ، فَأَرْسَلَ عَلَى إِثْرِي، قَالَ: مَا كُنْتُ لِآخُذَ جَمَلَكَ، فَخُذْ جَمَلَكَ ذَلِكَ فَهُوَ مَالُكَ". قَالَ شُعْبَةُ: عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ جَابِرٍ، أَفْقَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ظَهْرَهُ إِلَى الْمَدِينَةِ. وَقَالَ إِسْحَاقُ: عَنْ جَرِيرٍ، عَنْ مُغِيرَةَ، فَبِعْتُهُ عَلَى أَنَّ لِي فَقَارَ ظَهْرِهِ حَتَّى أَبْلُغَ الْمَدِينَةَ. وَقَالَ عَطَاءٌ، وَغَيْرُهُ: لَكَ ظَهْرُهُ إِلَى الْمَدِينَةِ. وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ: عَنْ جَابِرٍ، شَرَطَ ظَهْرَهُ إِلَى الْمَدِينَةِ. وَقَالَ زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ: عَنْ جَابِرٍ، وَلَكَ ظَهْرُهُ حَتَّى تَرْجِعَ. وَقَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ: عَنْ جَابِرٍ، أَفْقَرْنَاكَ ظَهْرَهُ إِلَى الْمَدِينَةِ. وَقَالَ الْأَعْمَشُ: عَنْ سَالِمٍ، عَنْ جَابِرٍ، تَبَلَّغْ عَلَيْهِ إِلَى أَهْلِكَ. وَقَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ، وَابْنُ إِسْحَاقَ: عَنْ وَهْبٍ، عَنْ جَابِرٍ، اشْتَرَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَقِيَّةٍ. وَتَابَعَهُ زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ جَابِرٍ. وَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: عَنْ عَطَاءٍ وَغَيْرِهِ عَنْ جَابِرٍ، أَخَذْتُهُ بِأَرْبَعَةِ دَنَانِيرَ، وَهَذَا يَكُونُ وَقِيَّةً عَلَى حِسَابِ الدِّينَارِ بِعَشَرَةِ دَرَاهِمَ، وَلَمْ يُبَيِّنْ الثَّمَنَ مُغِيرَةُ. عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرٍ، وَابْنُ الْمُنْكَدِرِ، وَأَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ وَقَالَ الْأَعْمَشُ: عَنْ سَالِمٍ، عَنْ جَابِرٍ، وَقِيَّةُ ذَهَبٍ. وَقَالَ أَبُو إِسْحَاقَ: عَنْ سَالِمٍ، عَنْ جَابِرٍ بِمِائَتَيْ دِرْهَمٍ. وَقَالَ دَاوُدُ بْنُ قَيْسٍ: عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مِقْسَمٍ، عَنْ جَابِرٍ، اشْتَرَاهُ بِطَرِيقِ تَبُوكَ، أَحْسِبُهُ قَالَ بِأَرْبَعِ أَوَاقٍ.وَقَالَ أَبُو نَضْرَةَ: عَنْ جَابِرٍ اشْتَرَاهُ بِعِشْرِينَ دِينَارًا. وَقَوْلُ الشَّعْبِيِّ: بِوَقِيَّةٍ أَكْثَرُ الِاشْتِرَاطُ أَكْثَرُ وَأَصَحُّ عِنْدِي. قَالَهُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ".
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا ہم سے زکریا نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عامر سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ وہ (ایک غزوہ کے موقع پر) اپنے اونٹ پر سوار آ رہے تھے، اونٹ تھک گیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ادھر سے گزر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ کو ایک ضرب لگائی اور اس کے حق میں دعا فرمائی، چنانچہ اونٹ اتنی تیزی سے چلنے لگا کہ کبھی اس طرح نہیں چلا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے ایک اوقیہ میں مجھے بیچ دو۔ میں نے انکار کیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصرار پر پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ بیچ دیا، لیکن اپنے گھر تک اس پر سواری کو مستثنیٰ کرا لیا۔ پھر جب ہم (مدینہ) پہنچ گئے، تو میں نے اونٹ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قیمت بھی ادا کر دی، لیکن جب میں واپس ہونے لگا تو میرے پیچھے ایک صاحب کو مجھے بلانے کے لیے بھیجا (میں حاضر ہوا تو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہارا اونٹ کوئی لے تھوڑا ہی رہا تھا، اپنا اونٹ لے جاؤ، یہ تمہارا ہی مال ہے۔ (اور قیمت واپس نہیں لی) شعبہ نے مغیرہ کے واسطے سے بیان کیا، ان سے عامر نے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ تک اونٹ پر مجھے سوار ہونے کی اجازت دی تھی، اسحاق نے جریر سے بیان کیا اور ان سے مغیرہ نے کہ (جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا) پس میں نے اونٹ اس شرط پر بیچ دیا کہ مدینہ پہنچنے تک اس پر میں سوار رہوں گا۔ عطاء وغیرہ نے بیان کیا کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا) اس پر مدینہ تک کی سواری تمہاری ہے۔ محمد بن منکدر نے جابر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ انہوں نے مدینہ تک سواری کی شرط لگائی تھی۔ زید بن اسلم نے جابر رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے بیان کیا کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا) مدینہ تک اس پر تم ہی رہو گے۔ ابوالزبیر نے جابر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ مدینہ تک کی سواری کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت دی تھی۔ اعمش نے سالم سے بیان کیا اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) اپنے گھر تک تم اسی پر سوار ہو کے جاؤ۔ عبیداللہ اور ابن اسحاق نے وہب سے بیان کیا اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے کہ اونٹ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اوقیہ میں خریدا تھا۔ اس روایت کی متابعت زید بن اسلم نے جابر رضی اللہ عنہ سے کی ہے۔ ابن جریج نے عطاء وغیرہ سے بیان کیا اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے (کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا) میں تمہارا یہ اونٹ چار دینار میں لیتا ہوں، اس حساب سے کہ ایک دینار دس درہم کا ہوتا ہے، چار دینار کا ایک اوقیہ ہو گا۔ مغیرہ نے شعبی کے واسطہ سے اور انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے (ان کی روایت میں اور) اسی طرح ابن المنکدر اور ابوالزبیر نے جابر رضی اللہ عنہ سے اپنی روایت میں قیمت کا ذکر نہیں کیا ہے۔ اعمش نے سالم سے اور انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے اپنی روایت میں ایک اوقیہ سونے کی وضاحت کی ہے۔ ابواسحاق نے سالم سے اور انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے اپنی روایت میں دو سو درہم بیان کیے ہیں اور داود بن قیس نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن مقسم نے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ تبوک کے راستے میں (غزوہ سے واپس ہوتے ہوئے) خریدا تھا۔ میرا خیال ہے کہ انہوں نے کہا کہ چار اوقیہ میں (خریدا تھا) ابونضرہ نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت میں بیان کیا کہ بیس دینار میں خریدا تھا۔ شعبی کے بیان کے مطابق ایک اوقیہ ہی زیادہ روایتوں میں ہے۔ اسی طرح شرط لگانا بھی زیادہ روایتوں سے ثابت ہے اور میرے نزدیک صحیح بھی یہی ہے، یہ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے فرمایا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Jabir: While I was riding a (slow) and tired camel, the Prophet passed by and beat it and prayed for Allah's Blessings for it. The camel became so fast as it had never been before. The Prophet then said, "Sell it to me for one Uqiyya (of gold)." I said, "No." He again said, "Sell it to me for one Uqiyya (of gold)." I sold it and stipulated that I should ride it to my house. When we reached (Medina) I took that camel to the Prophet and he gave me its price. I returned home but he sent for me (and when I went to him) he said, "I will not take your camel. Take your camel as a gift for you." (Various narrations are mentioned here with slight variations in expressions relating the condition that Jabir had the right to ride the sold camel up to Medina).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 50, Number 879


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
5. بَابُ الشُّرُوطِ فِي الْمُعَامَلَةِ:
5. باب: معاملات میں شرطیں لگانے کا بیان۔
(5) Chapter. Conditions in contracts (of share-cropping etc.).
حدیث نمبر: 2719
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، حدثنا ابو الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: قالت الانصار للنبي صلى الله عليه وسلم" اقسم بيننا وبين إخواننا النخيل، قال: لا، فقال: تكفونا المئونة، ونشرككم في الثمرة، قالوا: سمعنا واطعنا".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَتْ الْأَنْصَارُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" اقْسِمْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ إِخْوَانِنَا النَّخِيلَ، قَالَ: لَا، فَقَالَ: تَكْفُونَا الْمَئُونَةَ، وَنُشْرِكْكُمْ فِي الثَّمَرَةِ، قَالُوا: سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی۔ ان سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انصار رضوان اللہ علیہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے (مؤاخات کے بعد) یہ پیش کش کی کہ ہمارے کھجور کے باغات آپ ہم میں اور ہمارے بھائیوں (مہاجرین) میں تقسیم فرما دیں، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں۔ اس پر انصار نے مہاجرین سے کہا کہ آپ لوگ ہمارے باغوں کے کام کر دیا کریں اور ہمارے ساتھ پھل میں شریک ہو جائیں، مہاجرین نے کہا کہ ہم نے سن لیا اور ہم ایسا ہی کریں گے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Huraira: The Ansar said to the Prophet, "Divide our date-palms between us and our emigrant brothers." The Prophet said, "No." The Ansar said to the emigrants, "You may do the labor (in our gardens) and we will share the fruits with you." The emigrants said, "We hear and obey."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 50, Number 880


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 2720
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا جويرية بن اسماء، عن نافع، عن عبد الله بن عمر رضي الله عنه، قال:" اعطى رسول الله صلى الله عليه وسلم خيبر اليهود ان يعملوها ويزرعوها، ولهم شطر ما يخرج منها".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ بْنُ أَسْمَاءَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" أَعْطَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ الْيَهُودَ أَنْ يَعْمَلُوهَا وَيَزْرَعُوهَا، وَلَهُمْ شَطْرُ مَا يَخْرُجُ مِنْهَا".
ہم سے موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے جویریہ بن اسماء نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی زمین یہودیوں کو اس شرط پر دی تھی کہ اس میں کام کریں اور اسے بوئیں تو آدھی پیداوار انہیں دی جایا کرے گی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Abdullah bin `Umar: Allah's Apostle gave the land of Khaibar to the Jews on the condition that they would work on it and cultivate it and they would get half of its yield.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 50, Number 881


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

1    2    3    4    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.