سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مالدار کا ادائے حق (یعنی قرض وغیرہ) میں دیر کرنا ظلم ہے اور جس شخص کو پیچھے لگا دیا جائے کسی مالدار کے (یعنی قرض اس کی طرف منتقل کر دیا جائے) تو اسے چاہیے وہ اسے قبول کر لے یعنی پیچھے لگ جائے۔“
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ(ایک دن) ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک جنازہ لایا گیا لوگوں نے عرض کی کہ آپ اس کی نماز جنازہ پڑھا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا اس پر کچھ قرض ہے؟“ لوگوں نے عرض کی کہ نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا اس نے کچھ مال چھوڑا ہے؟“ لوگوں نے عرض کی کہ نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھا دی۔ اس کے بعد ایک دوسرا جنازہ لایا گیا۔ لوگوں نے عرض کی یا رسول اللہ! اس کی بھی نماز جنازہ پڑھا دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا اس پر کچھ قرض ہے؟“ عرض کی گئی کہ ہاں تین اشرفیاں ہیں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز پڑھا دی۔ پھر تیسرا جنازہ لیا گیا اور لوگوں نے عرض کی کہ اس کی بھی نماز جنازہ پڑھا دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا اس نے کچھ مال چھوڑا ہے؟“ لوگوں نے کہا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا اس پر کچھ قرض ہے؟“ لوگوں نے عرض کی کہ ہاں! تین اشرفیاں قرض ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ اپنے دوست کی نماز جنازہ پڑھ لو (میں نہیں پڑھوں گا)۔“ تو سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز پڑھا دیجئیے اس کا قرض میں ادا کروں گا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھا دی۔