سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب تک کہ پھل ان کو فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے اور ان کی کوئی قسم بجز درہم و دینار کے اور کسی شے کے عوض فروخت نہ کی جائے مگر صرف عرایا کہ ان کو پھلوں کے عوض بھی فروخت کیا جانا جائز ہے۔
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں لوگ پھلوں کو (پکنے سے قبل) فروخت کر دیتے تھے پھر جب خریدنے والے ان پھلوں کو توڑتے اور فروخت کرنے والے اپنی قیمت کا تقاضا کرتے تو خریدنے والے کہتے کہ پھل کا گھابہ تو کالا پڑ گیا ہے اور پھل خراب ہو گیا ہے اور دوسری اسی قسم کی خرابیاں بیان کر کے جھگڑا کرتے۔ لہٰذا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس قسم کے مقدمات زیادہ پیش ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان جھگڑوں کی وجہ سے مشورہ کے طور پر ان سے فرمایا: ”یا تو (پھلوں کی) بیع موقوف کر دو، اگر نہیں تو اس وقت تک فروخت نہ کرو جب تک کہ پھل کی صلاحیت ظاہر نہ ہو جائے۔“
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھلوں کو مشقح ہونے سے پہلے فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے پوچھا گیا مشقح کیا ہوتا ہے؟ تو آپ نے جواب دیا: ”یہاں تک کہ وہ سرخ ہو جائیں یا زردہ ہو جائیں اور کھانے کے قابل ہو جائیں۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھلوں کو ”زہو“ ہونے سے پہلے فروخت کرنے سے منع فرمایا: ”پوچھا گیا کہ ”زہو“ کیا ہے فرمایا: ”جب تک کہ وہ سرخ نہ ہو جائیں۔ ”پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بتاؤ! اگر اللہ تعالیٰ پھلوں کو ضائع کر دے تو کوئی شخص تم میں سے اپنے بھائی کا مال کس چیز کے عوض میں لیتا ہے؟“
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو خیبر پر عامل بنایا تو وہ کچھ ”جنیب“(عمدہ قسم کی) کھجوریں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ کیا خیبر کی سب کھجوریں ایسی ہی (عمدہ) ہوتی ہیں؟ اس نے عرض کی نہیں واللہ! یا رسول اللہ! ہم ان کھجوروں کا ایک صاع دوسری کھجوروں کے دو صاع کے عوض میں اور پھر ان کھجوروں کے دو صاع دوسری کھجوروں کے تین صاع کے عوض خریدتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس طرح نہ کیا کرو، تم ان ردی کھجوروں کو درہم کے عوض فروخت کر دو اور پھر درہموں سے عمدہ کھجور خرید لیا کرو۔“
50. بعض لوگوں نے ہر شہر کے معاملات بیوع اور اجارات اور پیمانے اور وزن میں وہاں کے لوگوں کے عرف اور ان کے طریقہ کا نیز ان کی نیتوں کا ان کے مروجہ دستوروں کے موافق اعتبار کیا ہے۔
“ कुछ लोगों ने हर शहर के मामलों में वहां के लोगों के रीति-रिवाजों, बिक्री, वज़न और तरीक़ों के साथ-साथ उनकी नियतों को उनके नियमों के अनुसार माना है ”
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی ماں ہندہ نے یہ عرض کی کہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ ایک بخیل آدمی ہیں لہٰذا کیا مجھ پر گناہ تو نہیں ہو گا اگر میں ان کے مال سے پوشیدہ طور پر کچھ لے لیا کروں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اور تمہارے بیٹے اس قدر لے لیا کرو جو تمہارے لیے قاعدے کے موافق کافی ہو جائے۔“(معروف کی تحدید نہیں کی تاکہ عرف کو عام رکھا جائے اور اس عام تحدید کی بنا پر اس باب کے تحت روایت لائی گئی ہے)۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر غیر منقسم مال میں شفعہ مقرر فرما دیا ہے لیکن اگر حدود واقع ہو جائیں اور راستہ بدل جائے تو پھر شفعہ نہیں ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابراہیم علیہ السلام نے (اپنی بیوی) سارہ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ ہجرت فرمائی تو ایک بستی میں پہنچے جہاں ایک بادشاہ تھا بادشاہوں میں سے یا (یہ فرمایا کی) ایک ظالم تھا ظالموں میں سے، چنانچہ اس سے بیان کیا گیا کہ ابراہیم علیہ السلام ایک نہایت خوبصورت عورت کے ساتھ آئے ہیں۔ پس اس نے ایک آدمی کو بھیجا کہ اے ابراہیم یہ عورت جو تمہارے ہمراہ ہے کون ہے؟ ابراہیم علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: ”میری بہن ہے (اس فرستادہ نے کہا اس عورت کو بادشاہ بلاتا ہے) اس کے بعد ابراہیم نے سارہ علیہ السلام سے فرمایا: ”روئے زمین پر میرے اور تمہارے سوائے کوئی مومن نہیں ہے پھر ابراہیم علیہ السلام نے سارہ کو بادشاہ کے پاس روانہ کر دیا (جب وہ بادشاہ کے پاس پہنچیں) تو بادشاہ ان کی طرف متوجہ ہوا تو وہ وضو کر کے نماز پڑھنے کھڑی ہو گئیں اور کہنے لگیں کہ اے اللہ اگر میں تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان رکھتی ہوں اور اگر میں نے اپنے شوہر کے سوا باقی سب سے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی ہے تو تو مجھ پر اس کافر کو مسلط نہ فرمانا یہ دعا مانگتے ہی وہ کافر ایسا گرا کہ وہ اپنا پاؤں زمین پر رگڑنے لگا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سیدہ سارہ علیہ السلام نے (اس حالت کو دیکھ کر) عرض کی کہ اے اللہ! اگر یہ مر جائے گا تو لوگ کہیں گے اسی نے بادشاہ کو مار ڈالا ہے۔ پھر اس کی وہ حالت جاتی رہی۔ وہ دو بار ان کی طرف متوجہ ہوا مگر وہ اٹھ کر وضو کر کے نماز پڑھنے لگیں اور عرض کی کہ اے اللہ! اگر میں تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان رکھتی ہوں اور میں نے اپنی شرمگاہ کو اپنے شوہر کے علاوہ اور سب سے بچایا ہے تو مجھ پر اس کافر کو مسلط نہ کرنا (اس کے بعد) بادشاہ پر پھر غشی طاری ہو گئی یہاں تک کہ اگر یہ مر جائے گا تو لوگ کہیں گے کہ اسی نے بادشاہ کو قتل کیا ہے۔ پھر دوبارہ اس کی وہ حالت فرو ہوئی پھر دوسری یا تیسری مرتبہ اس نے لوگوں سے کہا کہ تم میرے پاس عورت لائے ہو یا شیطان؟ اس کو تم ابراہیم علیہ السلام کے پاس واپس لے جاؤ اور آجر کو بھی ان کے حوالہ کر دو۔ چنانچہ وہ ابراہیم علیہ السلام کے پاس آ گئیں تو ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کافر کو ذلیل کر دیا اور ایک لونڈی (ہاجرہ علیہ السلام) کو بھی خدمت کے لیے روانہ کر دیا۔“