سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب لونڈی زنا کرے اور اس پر ارتکاب ثابت ہو جائے تو اس کو سزا دینی چاہیے اور صرف ڈانٹنے پر اکتفا نہ کرے۔ اگر وہ پھر زنا کرے تو دوبارہ اس کو سزا دے اور صرف ڈانٹنے پر اکتفا نہ کرے۔ پھر اگر تیسری بار بھی زنا کرے تو اس کو فروخت کر دے اگرچہ بالوں کی ایک رسی کے بدلے ہی سہی۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”غلہ لانے والے قافلے کو راستہ ہی میں جا کر نہ ملو بلکہ ان کو بستی میں آنے دو اور کوئی شہری کسی (بدوی) بیرونی کے لیے بیع نہ کرے۔“ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا اس کو مطلب ہے کہ کوئی شہری کسی بیرونی کے لیے بیع نہ کرے؟ تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بتایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا دلال نہ بنے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص کسی کی بیع پر بیع نہ کرے اور مال کی تم لوگ پیشوائی نہ کیا کرو حتیٰ کہ وہ بازار میں پہنچ جائے (اور وہاں فروخت ہو)۔“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع مزابنہ سے منع فرمایا ہے اور مزابنہ یہ ہے کہ سوکھی ہوئی کھجور کے عوض ناپ کر فروخت کرنا اور تازہ انگور کو خشک انگور کے عوض ناپ کر فروخت کرنا۔
سیدنا مالک بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھیں سو اشرفیوں کی ریزگاری کی ضرورت پڑی تو (وہ کہتے ہیں کہ) مجھے سیدنا طلحہ بن عبیداللہ نے بلوایا اور ہم دونوں نے اس معاملہ پر گفتگو کی حتیٰ کہ وہ راضی ہو گئے اور سونے کی اشرفیاں اپنے ہاتھ میں لے کر الٹنے پلٹنے لگے اور اس کے بعد انھوں نے کہا کہ اتنا انتظار کرو کہ (اے مالک بن اوس) تمہیں اللہ کی قسم! تم طلحہ کو نہ چھوڑنا جب تک کہ ان سے ریزگاری نہ لے لو (کیونکہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سونے کو سونے کے بدلے فروخت کرنا سود ہے مگر اس صورت میں کہ ہاتھوں ہاتھ لین دین ہو .... اور ساری حدیث بیان کی جو کہ پہلے گزر چکی ہے۔
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سونے کی سونے کے عوض فروخت نہ کرو مگر ہم وزن (یعنی جتنا سونا دیا اتنا ہی واپس لیا) اور (اسی طرح) چاندی کو چاندی کے عوض فروخت نہ کرو مگر ہم وزن اور سونے کو چاندی اور چاندی کو سونے کے عوض میں جس طرح چاہو خریدوفروخت کر سکتے ہو۔“
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سونے کو سونے کے بدلے فروخت نہ کرو مگر ہم وزن ایک طرف زیادہ اور دوسری طرف کم نہ ہو اور چاندی کو بھی چاندی کے بدلے فروخت نہ کرو مگر ہم وزن، ایک طرف زیادہ اور دوسری طرف کم نہ ہو اور ایک طرف نقد اور دوسری طرف ادھار تو بھی (سونا، چاندی) فروخت نہ کرو۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اشرفی کو اشرفی کے عوض اور درہم کو درہم کے بدلے (برابر برابر فروخت کرنا جائز ہے) ان سے کہا گیا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما تو اس کے قائل نہیں (یعنی وہ تو کمی بیشی میں فروخت کرنے کے بھی قائل ہیں) تو سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا تھا کہ کیا تم نے اس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے یا کتاب اللہ میں دیکھا ہے؟ تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا کہ میں ان دونوں میں سے کوئی بات نہیں کہتا اور تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مجھ سے زیادہ جانتے ہو۔ البتہ مجھے تو سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ نے یہ خبر دی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”سود تو ادھار ہی میں ہے۔“
سیدنا براء بن عازب اور زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے صرف (یعنی کرنسی کے کاروبار) کے متعلق پوچھا گیا تو ان دونوں میں ہر ایک نے (دوسرے کی نسبت) کہا کہ یہ مجھ سے بہتر ہیں (ان سے دریافت کر لو) اس کے بعد دونوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کو چاندی کے بدلے ادھار فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھلوں کو فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے جب تک کہ ان کے پکنے کی صلاحیت ظاہر نہ ہو جائے اور درخت پر لگی ہوئی کھجور خشک کھجور کے بدلے فروخت نہ کرو۔ پھر کہا کہ مجھے سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد عریہ (درختوں پر لگی کھجوروں) کو تر یا خشک کھجور کے بدلے فروخت کرنے کی اجازت دے دی اور اس کے سوا اور کسی صورت میں اجازت نہیں دی۔ (عریہ کا مفہوم یہ ہے کہ کسی درخت کا پھل کسی فقیر کو صدقہ کر دیا جائے پھر باغ میں اس کے آنے سے تکلیف ہو تو اندازہ کر کے اس درخت کا پھل اس سے خرید لیا جائے)