ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص مر جائے اور اس پر روزوں کی قضاء واجب ہو تو اس کا وارث اس کی طرف سے روزے رکھ لے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! میری والدہ فوت ہو گئی ہے اور ان پر ایک مہینے کے روزے باقی ہیں، کیا میں ان کی طرف سے (ان کے) قضاء (روزے) رکھ لوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، اللہ کا قرض ادا کر دینا سب سے زیادہ استحقاق رکھتا ہے۔“
سیدنا ابن ابی اوفی کی حدیث اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد کہ ”اترو اور میرے لیے ستو گھول دو“ گزر چکا ہے (دیکھئیے پچھلی حدیث باب: سفر میں روزہ رکھنا اور افطار کرنا) اور اس روایت میں (سیدنا ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے): ”جب تم دیکھو کہ اس طرف سے آثار شب نمودار ہو گئے ہیں تو روزہ افطار کر دو۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی سے مشرق کی طرف اشارہ فرمایا۔
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگ ہمیشہ نیکی پر رہیں گے جب تک کہ وہ جلد افطار کرنے میں جلدی کیا کریں گے۔“
سیدہ اسماء بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک دفعہ بادل والے دن میں روزہ افطار کر لیا (کیونکہ وقت کا صحیح اندازہ نہ ہو سکا تھا تو) اس کے بعد آفتاب نکل آیا۔
ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کی صبح کو انصار کی بستیوں میں یہ کہلا بھیجا: ”جس نے بغیر روزہ کے صبح کی ہو وہ اپنے باقی دن میں کچھ کھائے نہ کچھ پیے۔ اور جس شخص نے روزہ کی حالت میں صبح کی ہو وہ روزہ رکھے۔“ ربیع رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اس کے بعد ہم برابر عاشورہ کا روزہ رکھتے اور اپنے بچوں کو بھی رکھواتے اور ان کے لیے روئی کے کھلونے بنا لیا کرتے تھے کہ جب کوئی ان میں سے کھانے کے لیے روتا تو ہم وہی کھلونا اس کو دے دیتے یہاں تک کہ افطار کا وقت آتا۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”(اے لوگو!) مسلسل (بلاسحری و افطاری) روزے نہ رکھو اور جو تم میں سے کوئی ایسا کرنا ہی چاہتا ہے تو وہ سحری تک ایسا کر سکتا ہے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلسل (بلاسحری و افطاری) کے روزوں سے منع فرمایا تو مسلمانوں میں سے ایک شخص نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! آپ تو وصال کرتے ہیں (یعنی طے کے روزے رکھتے ہیں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کون شخص میرے مثل ہے؟ میں رات کو سوتا ہوں تو میرا پروردگار مجھے کھلا دیتا ہے مگر جب وہ لوگ باز نہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ ایک دن وصال کیا (یعنی کچھ نہ کھایا پیا) دوسرے دن بھی وصال کیا (یعنی کچھ نہ کھایا پیا) کئی دن طے کے روزے رکھے، اس کے بعد (عید کا) چاند نکل آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نہ ماننے پر بطور خفگی کے فرمایا: ”اگر ابھی چاند نہ نکلتا تو میں اور زیادہ روزے تم سے رکھواتا۔“ اور ایک دوسری روایت میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اسی قدر عبادت اپنے ذمہ لو جس کی تمہیں طاقت ہو۔“
سیدنا ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سلمان اور سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کے درمیان بھائی چارا کر دیا تھا۔ اس وجہ سے (ایک دن) سلمان، ابوالدرداء (رضی اللہ عنہ) سے ملاقات کو گئے تو انھوں نے ام الدرداء کو بہت خستہ حالت میں پایا اور ان سے کہا کہ تمہارا کیا حال ہے؟ وہ بولیں کہ تمہارے بھائی ابوالدرداء کو اب دنیا کی کچھ ضرورت نہیں رہی۔ اتنے میں ابوالدرداء بھی آ گئے اور انھوں نے سلمان کے لئے کھانا تیار کیا اور (سلمان سے) کہا کہ تم کھاؤ میں تو روزہ دار ہوں سلمان نے جواب دیا کہ میں نہیں کھاؤں گا تاوقتیکہ تم بھی کھاؤ۔ بالآخر ابوالدرداء نے (روزہ توڑ دیا اور سلمان کے ساتھ) کھانا کھایا۔ پھر جب رات ہوئی تو ابوالدرداء نماز پڑھنے کھڑے ہو گئے۔ سلمان نے کہا کہ ابھی سو جاؤ چنانچہ وہ سو گئے پھر تھوڑی دیر کے بعد وہ اٹھنے لگے تو سلمان نے کہا کہ ابھی سو جاؤ۔ پھر جب اخیر رات ہوئی تو سلمان نے کہا کہ اب اٹھو! چنانچہ دونوں نے نماز پڑھی پھر ابوالدرداء سے سلمان نے کہا کہ بیشک تمہارے پروردگار کا بھی تم پر حق ہے، تمہاری جان کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے پس تم ہر صاحب حق کا حق ادا کرو۔ پھر ابوالدرداء نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ تمام (واقعہ) بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سلمان نے سچ کہا۔“(رضوان اللہ علیہ اجمعین)
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نفلی روزے رکھتے تو اس قدر رکھتے تھے کہ ہم خیال کرتے کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ ترک نہ فرمائیں گے اور جب چھوڑتے تو اس قدر چھوڑتے کہ ہم کو خیال ہوتا تھا اب کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ نہ رکھیں گے اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رمضان کے سوا کسی اور مہینہ میں پورے روزے رکھتے نہیں دیکھا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان سے زیادہ اور کسی مہینہ میں روزہ رکھتے نہیں دیکھا۔