سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ کا اور سوال سے بچنے کا ذکر کر رہے تھے: ”اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے اوپر والا ہاتھ تو دینے والا ہے اور نیچے والا ہاتھ مانگنے والا ہے۔“
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سائل آتا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کا سوال کیا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ”اس کی (داد رسی کے لیے) سفارش کرو تو تمہیں بھی ثواب ملے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کی زبان پر (احکامات میں سے) جو کچھ چاہتا ہے جاری فرماتا ہے۔“
سیدہ اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تھا: ”اے اسماء! خیرات کو مت روکو ورنہ تمہارے رزق (میں سے خیر و برکت) کو بھی روک لیا جائے گا۔ ایک دوسری حدیث میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں کہ ”مال و دولت کو گنو مت ورنہ اللہ بھی تجھے گن گن کر دے گا (یعنی بغیر حساب کے خیرات کرو تو اللہ تعالیٰ بھی بےشمار دے گا)۔“
سیدہ اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہا سے ہی ایک روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنا مال ہتھیلیوں میں مت رکھو ورنہ اللہ بھی اپنی رحمت تم سے روک لے گا اور جہاں تک ہو سکے خیرات کرتی رہو۔“
سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! آپ بتائیے کہ جو کام عبادت کے، میں جاہلیت (کی حالت) میں کرتا تھا مثلا صدقہ کرنا اور (غلام) آزاد کرنا اور صلہ رحمی کرنا تو کیا ان کا بھی کچھ ثواب مجھے ملے گا؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم جتنی نیکیاں کر چکے ہو، ان ہی کے سبب سے تو مسلمان ہوئے جو (یعنی تمہیں ان کا ثواب ملے گا) اور تم ان سب نیکیوں کے ساتھ مسلمان ہوئے ہو۔“
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ مسلمان خزانچی جو امانتدار ہو، (صاحب مال کا) حکم نافذ کرے یا اس کا صاحب جس قدر (صدقہ) دلائے وہ پورا اس کو دیدے جس کا دلایا گیا ہے اور اس سے اس کا دل بھی خوش ہو تو وہ بھی صدقہ دینے والوں میں سے ایک ہو گا۔“
17. اللہ عزوجل کا یہ فرمانا کہ ”جو شخص صدقہ دے گا اور پرہیزگاری کرے گا .... اور (فرشتوں کا یہ دعا کرنا کہ) ”اے اللہ! خرچ کرنے والوں کو اس کا نعم البدل عطا فرما“ کا بیان۔
“ अल्लाह ताला का कहना कि “ जो कोई सदक़ा करेगा और परहेज़गारी करेगा .... “ फरिश्तों कि दुआ कि ऐ अल्लाह, हर ख़र्च करने वाले को उसके ख़र्च करने का बदला देदे ” के बारे में ”
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر صبح کو دو فرشتے (آسمان سے) اترتے ہیں ان میں سے ایک یہ کہتا ہے: ”اے اللہ! ہر خرچ کرنے والے کو اس کے خرچ کرنے کا نعم البدل عنایت فرما۔“ اور دوسرا یہ کہتا ہے: ”اے اللہ! ہر بخل کرنے والے کے مال کو تباہ و برباد فرما دے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بخیل کی اور صدقہ دینے والے کی مثال ان دو آدمیوں کی طرح ہے جو (جسم) پر سینہ سے لے کر گردن تک لوہے کا لباس پہنے ہوں تو سخی جب خرچ کرنا چاہتا ہے تو وہ جبہ کشادہ ہو جاتا ہے یا (یہ فرمایا کہ) اس کے جسم پر ڈھیلا ہو جاتا ہے یہاں تک کہ اس کی انگلیوں کو چھپا لیتا ہے اور بڑھ جاتا ہے اور بخیل جب کچھ خرچ کرنا چاہتا ہے تو اس لباس کا ہر حلقہ اپنی جگہ پر جم جاتا ہے، وہ اس کو کشادہ کرنا چاہتا ہے مگر کشادہ نہیں ہوتا۔“
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر مسلمان پر صدقہ دینا ضروری ہے۔“ تو لوگوں نے عرض کی کہ اے اللہ کے نبی! اگر کسی کو مقدور نہ ہو؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اپنے ہاتھ سے محنت کرے اور خود فائدہ اٹھائے اور صدقہ دے۔“ تو لوگوں نے عرض کی کہ اگر اس کا بھی مقدور نہ ہو؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صاحب حاجت مظلوم کی فریاد رسی کرے۔“ لوگوں نے عرض کی کہ اگر اس کا بھی مقدور نہ ہو؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو وہ اچھی بات پر عمل کرے اور برائی سے باز رہے یہی اس کے لیے صدقہ ہے۔“
ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نسیہ انصاریہ رضی اللہ عنہا (جو کہ حقیقت میں ام عطیہ ہی کا نام ہے) کے پاس ایک صدقہ کی بکری بھیجی گئی تو اس نے اس میں سے کچھ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو بھی دے دیا۔ پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے پاس کچھ ہے؟“ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ کچھ بھی نہیں سوائے اس کے جو صدقہ کی بکری (کے گوشت) میں سے ہے، جسے نسیبہ نے بھیجا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو لاؤ کیونکہ وہ اپنے مقام پر پہنچ چکا (یعنی اب ہمارے لیے وہ صدقہ نہیں ہے)۔“