لقوله تعالى: يايها الذين آمنوا إذا تداينتم بدين إلى اجل مسمى فاكتبوه وليكتب بينكم كاتب بالعدل ولا ياب كاتب ان يكتب كما علمه الله فليكتب وليملل الذي عليه الحق وليتق الله ربه ولا يبخس منه شيئا فإن كان الذي عليه الحق سفيها او ضعيفا او لا يستطيع ان يمل هو فليملل وليه بالعدل واستشهدوا شهيدين من رجالكم فإن لم يكونا رجلين فرجل وامراتان ممن ترضون من الشهداء ان تضل إحداهما فتذكر إحداهما الاخرى ولا ياب الشهداء إذا ما دعوا ولا تساموا ان تكتبوه صغيرا او كبيرا إلى اجله ذلكم اقسط عند الله واقوم للشهادة وادنى الا ترتابوا إلا ان تكون تجارة حاضرة تديرونها بينكم فليس عليكم جناح الا تكتبوها واشهدوا إذا تبايعتم ولا يضار كاتب ولا شهيد وإن تفعلوا فإنه فسوق بكم واتقوا الله ويعلمكم الله والله بكل شيء عليم سورة البقرة آية 282، وقول الله عز وجل: يايها الذين آمنوا كونوا قوامين بالقسط شهداء لله ولو على انفسكم او الوالدين والاقربين إن يكن غنيا او فقيرا فالله اولى بهما فلا تتبعوا الهوى ان تعدلوا وإن تلووا او تعرضوا فإن الله كان بما تعملون خبيرا سورة النساء آية 135.لِقَوْلِهِ تَعَالَى: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ وَلْيَكْتُبْ بَيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ وَلا يَأْبَ كَاتِبٌ أَنْ يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللَّهُ فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ وَلا يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا فَإِنْ كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لا يَسْتَطِيعُ أَنْ يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ فَإِنْ لَمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى وَلا يَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُوا وَلا تَسْأَمُوا أَنْ تَكْتُبُوهُ صَغِيرًا أَوْ كَبِيرًا إِلَى أَجَلِهِ ذَلِكُمْ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَى أَلَّا تَرْتَابُوا إِلا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيرُونَهَا بَيْنَكُمْ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَلَّا تَكْتُبُوهَا وَأَشْهِدُوا إِذَا تَبَايَعْتُمْ وَلا يُضَارَّ كَاتِبٌ وَلا شَهِيدٌ وَإِنْ تَفْعَلُوا فَإِنَّهُ فُسُوقٌ بِكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللَّهُ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ سورة البقرة آية 282، وَقَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالأَقْرَبِينَ إِنْ يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَى بِهِمَا فَلا تَتَّبِعُوا الْهَوَى أَنْ تَعْدِلُوا وَإِنْ تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا سورة النساء آية 135.
کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے (سورۃ البقرہ میں) فرمایا ہے ”اے ایمان والو! جب تم آپس میں ادھار کا معاملہ کسی مدت مقررہ تک کے لیے کرو تو اس کو لکھ لیا کرو اور لازم ہے کہ تمہارے درمیان لکھنے والا ٹھیک صحیح لکھے اور لکھنے سے انکار نہ کرے۔ جیسا کہ اللہ نے اس کو سکھایا ہے۔ پس چاہئے کہ وہ لکھ دے اور چاہئے کہ وہ شخص لکھوائے جس کے ذمے حق واجب ہے اور چاہئے کہ وہ اپنے پروردگار اللہ سے ڈرتا رہے اور اس میں سے کچھ بھی کم نہ کرے۔ پھر اگر وہ جس کے ذمے حق واجب ہے کم عقل ہو یا یہ کہ کمزور ہو اور اس قابل نہ ہو کہ وہ خود لکھوا سکے تو لازم ہے کہ اس کا کارکن ٹھیک ٹھیک لکھوا دے اور اپنے مردوں میں سے دو کو گواہ کر لیا کرو۔ پھر اگر دونوں مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں، ان گواہوں میں سے جنہیں تم پسند کرتے ہو تاکہ ان دو عورتوں میں سے ایک دوسری کو یاد دلا دے اگر کوئی ایک ان دونوں میں سے بھول جائے اور گواہ جب بلائے جائیں تو انکار نہ کریں اور اس (معاملے) کو خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، اس کی میعاد تک لکھنے سے اکتا نہ جاؤ، یہ کتابت اللہ کے نزدیک زیادہ سے زیادہ انصاف سے نزدیک ہے اور گواہی کو درست تر رکھنے والی ہے اور زیادہ لائق اس کے کہ تم شبہ میں نہ پڑو، بجز اس کے کہ کوئی سودا ہاتھوں ہاتھ ہو جسے تم باہم لیتے دیتے ہی رہتے ہو۔ سو تم پر اس میں کوئی الزام نہیں کہ تم اسے نہ لکھو اور جب خرید و فروخت کرتے ہو تب بھی گواہ کر لیا کرو اور کسی کاتب اور گواہ کو نقصان نہ دیا جائے اور اگر ایسا کرو گے تو یہ تمہارے حق میں ایک گناہ ہو گا اور اللہ سے ڈرتے رہو اور اللہ تمہیں سکھاتا ہے اور اللہ ہر چیز کا بہت جاننے والا ہے“۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ”اے ایمان والو! انصاف پر خوب قائم رہنے والے اور اللہ کے لیے گواہی دینے والے بن کر رہو۔ چاہے تمہارے یا (تمہارے) والدین اور عزیزوں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ وہ امیر ہو یا مفلس، اللہ (بہرحال) دونوں سے زیادہ حقدار ہے۔ تو خواہش نفس کی پیروی نہ کرنا کہ (حق سے) ہٹ جاؤ اور اگر تم کجی کرو گے یا پہلو تہی کرو گے، تو جو کچھ تم کر رہے ہو، اللہ اس سے خوب خبردار ہے۔
2. باب: اگر ایک شخص دوسرے کے نیک عادات و عمدہ خصائل بیان کرنے کے لیے اگر صرف یہ کہے کہ ہم تو اس کے متعلق اچھا ہی جانتے ہیں یا یہ کہے کہ میں اس کے متعلق صرف اچھی بات جانتا ہوں۔
(2) Chapter. If a person attests the honourable record of a witness by saying, "I do not know except good about him."
(مرفوع) حدثنا حجاج، حدثنا عبد الله بن عمر النميري، حدثنا يونس، وقال الليث، حدثني يونس، عن ابن شهاب، قال: اخبرني عروة بن الزبير، وابن المسيب، وعلقمة بن وقاص، وعبيد الله بن عبد الله، عن حديث عائشة رضي الله عنها، وبعض حديثهم يصدق بعضا، حين قال لها اهل الإفك ما قالوا، فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم عليا، واسامة حين استلبث الوحي يستامرهما في فراق اهله، فاما اسامة، فقال: اهلك ولا نعلم إلا خيرا، وقالت بريرة: إن رايت عليها امرا اغمصه اكثر من انها جارية حديثة السن تنام عن عجين اهلها فتاتي الداجن فتاكله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من يعذرنا في رجل بلغني اذاه في اهل بيتي، فوالله ما علمت من اهلي إلا خيرا، ولقد ذكروا رجلا ما علمت عليه إلا خيرا".(مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ النُّمَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، وَقَالَ اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، وَابْنُ الْمُسَيَّبِ، وَعَلْقَمَةُ بْنُ وَقَّاصٍ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، وَبَعْضُ حَدِيثِهِمْ يُصَدِّقُ بَعْضًا، حِينَ قَالَ لَهَا أَهْلُ الْإِفْكِ مَا قَالُوا، فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا، وَأُسَامَةَ حِينَ اسْتَلْبَثَ الْوَحْيُ يَسْتَأْمِرُهُمَا فِي فِرَاقِ أَهْلِهِ، فَأَمَّا أُسَامَةُ، فَقَالَ: أَهْلُكَ وَلَا نَعْلَمُ إِلَّا خَيْرًا، وَقَالَتْ بَرِيرَةُ: إِنْ رَأَيْتُ عَلَيْهَا أَمْرًا أَغْمِصُهُ أَكْثَرَ مِنْ أَنَّهَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ تَنَامُ عَنْ عَجِينِ أَهْلِهَا فَتَأْتِي الدَّاجِنُ فَتَأْكُلُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ يَعْذِرُنَا فِي رَجُلٍ بَلَغَنِي أَذَاهُ فِي أَهْلِ بَيْتِي، فَوَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ مِنْ أَهْلِي إِلَّا خَيْرًا، وَلَقَدْ ذَكَرُوا رَجُلًا مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ إِلَّا خَيْرًا".
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن عمر نمیری نے بیان کیا، کہا ہم سے ثوبان نے بیان کیا اور لیث بن سعد نے بیان کیا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، انہیں عروہ، ابن مسیب، علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کے متعلق خبر دی اور ان کی باہم ایک کی بات دوسرے کی بات کی تصدیق کرتی ہے کہ جب ان پر تہمت لگانے والوں نے تہمت لگائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی اور اسامہ رضی اللہ عنہما کو اپنی بیوی (عائشہ رضی اللہ عنہا) کو اپنے سے جدا کرنے کے متعلق مشورہ کرنے کے لیے بلایا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اب تک (اس سلسلے میں) وحی نہیں آئی تھی۔ اسامہ رضی اللہ عنہ نے تو یہ کہا کہ آپ کی زوجہ مطہرہ (عائشہ رضی اللہ عنہا) میں ہم سوائے خیر کے اور کچھ نہیں جانتے۔ اور بریرہ رضی اللہ عنہا (ان کی خادمہ) نے کہا کہ میں کوئی ایسی چیز نہیں جانتی جس سے ان پر عیب لگایا جا سکے۔ اتنی بات ضرور ہے کہ وہ نوعمر لڑکی ہیں کہ آٹا گوندھتی اور پھر جا کے سو رہتی ہے اور بکری آ کر اسے کھا لیتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (تہمت کے جھوٹ ثابت ہونے کے بعد) فرمایا کہ ایسے شخص کی طرف سے کون عذر خواہی کرے گا جو میری بیوی کے بارے میں بھی مجھے اذیت پہنچاتا ہے۔ قسم اللہ کی! میں نے اپنے گھر میں خیر کے سوا اور کچھ نہیں دیکھا اور لوگ ایسے شخص کا نام لیتے ہیں جس کے متعلق بھی مجھے خیر کے سوا اور کچھ معلوم نہیں۔
Narrated `Urwa bin Al-Musaiyab Alqama bin Waqqas and Ubaidullah bin `Abdullah: About the story of `Aisha and their narrations were similar attesting each other, when the liars said what they invented about `Aisha, and the Divine Inspiration was delayed, Allah's Apostle sent for `Ali and Usama to consult them in divorcing his wife (i.e. `Aisha). Usama said, "Keep your wife, as we know nothing about her except good." Buraira said, "I cannot accuse her of any defect except that she is still a young girl who sleeps, neglecting her family's dough which the domestic goats come to eat (i.e. she was too simpleminded to deceive her husband)." Allah's Apostle said, "Who can help me to take revenge over the man who has harmed me by defaming the reputation of my family? By Allah, I have not known about my family-anything except good, and they mentioned (i.e. accused) a man about whom I did not know anything except good."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 48, Number 805
واجازه عمرو بن حريث، قال: وكذلك يفعل بالكاذب الفاجر، وقال الشعبي، وابن سيرين، وعطاء، وقتادة: السمع شهادة، وكان الحسن يقول: لم يشهدوني على شيء وإني سمعت كذا وكذا.وَأَجَازَهُ عَمْرُو بْنُ حُرَيْثٍ، قَالَ: وَكَذَلِكَ يُفْعَلُ بِالْكَاذِبِ الْفَاجِرِ، وَقَالَ الشَّعْبِيُّ، وَابْنُ سِيرِينَ، وَعَطَاءٌ، وَقَتَادَةُ: السَّمْعُ شَهَادَةٌ، وَكَانَ الْحَسَنُ يَقُولُ: لَمْ يُشْهِدُونِي عَلَى شَيْءٍ وَإِنِّي سَمِعْتُ كَذَا وَكَذَا.
اور عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ نے اس کو جائز کہا ہے اور فرمایا کہ جھوٹے بے ایمان کے ساتھ ایسی صورت اختیار کی جا سکتی ہے۔ شعبی، ابن سیرین، عطاء اور قتادہ نے کہا کہ جو کوئی کسی سے کوئی بات سنے تو اس پر گواہی دے سکتا ہے گو وہ اس کو گواہ نہ بنائے اور حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا کہ اسے اس طرح کہنا چاہئے کہ اگرچہ ان لوگوں نے مجھے گواہ نہیں بنایا لیکن میں نے اس طرح سے سنا ہے۔
(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال سالم: سمعت عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، يقول:" انطلق رسول الله صلى الله عليه وسلم وابي بن كعب الانصاري يؤمان النخل التي فيها ابن صياد، حتى إذا دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم طفق رسول الله صلى الله عليه وسلم يتقي بجذوع النخل وهو يختل ان يسمع من ابن صياد شيئا قبل ان يراه، وابن صياد مضطجع على فراشه في قطيفة له فيها رمرمة او زمزمة، فرات ام ابن صياد النبي صلى الله عليه وسلم وهو يتقي بجذوع النخل، فقالت لابن صياد: اي صاف هذا محمد، فتناهى ابن صياد؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لو تركته بين".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ سَالِمٌ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ:" انْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ الْأَنْصَارِيُّ يَؤُمَّانِ النَّخْلَ الَّتِي فِيهَا ابْنُ صَيَّادٍ، حَتَّى إِذَا دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَفِقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ وَهُوَ يَخْتِلُ أَنْ يَسْمَعَ مِنْ ابْنِ صَيَّادٍ شَيْئًا قَبْلَ أَنْ يَرَاهُ، وَابْنُ صَيَّادٍ مُضْطَجِعٌ عَلَى فِرَاشِهِ فِي قَطِيفَةٍ لَهُ فِيهَا رَمْرَمَةٌ أَوْ زَمْزَمَةٌ، فَرَأَتْ أُمُّ ابْنِ صَيَّادٍ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ، فَقَالَتْ لِابْنِ صَيَّادٍ: أَيْ صَافِ هَذَا مُحَمَّدٌ، فَتَنَاهَى ابْنُ صَيَّادٍ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ تَرَكَتْهُ بَيَّنَ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی زہری سے کہ سالم نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، آپ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابی بن کعب انصاری رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر کھجور کے اس باغ کی طرف تشریف لے گئے جس میں ابن صیاد تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باغ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم درختوں کی آڑ میں چھپ کر چلنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ ابن صیاد آپ کو دیکھنے نہ پائے اور اس سے پہلے آپ اس کی باتیں سن سکیں۔ ابن صیاد ایک روئیں دار چادر میں زمین پر لیٹا ہوا تھا اور کچھ گنگنا رہا تھا۔ ابن صیاد کی ماں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم درخت کی آڑ لیے چلے آ رہے ہیں تو وہ کہنے لگی اے صاف! یہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آ رہے ہیں۔ ابن صیاد ہوشیار ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اگر اسے اپنے حال پر رہنے دیتی تو بات ظاہر ہو جاتی۔“
Narrated `Abdullah bin `Umar: Allah's Apostle and Ubai bin Ka`b Al-Ansari went to the garden where Ibn Saiyad used to live. When Allah's Apostle entered (the garden), he (i.e. Allah's Apostle ) started hiding himself behind the date108 palms as he wanted to hear secretly the talk of Ibn Saiyad before the latter saw him. Ibn Saiyad wrapped with a soft decorated sheet was lying on his bed murmuring. Ibn Saiyad's mother saw the Prophet hiding behind the stems of the date-palms. She addressed Ibn Saiyad saying, "O Saf, this is Muhammad." Hearing that Ibn Saiyad stopped murmuring (or got cautious), the Prophet said, "If she had left him undisturbed, he would have revealed his reality." (See Hadith No. 290, Vol 4 for details)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 48, Number 806
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا سفيان، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة رضي الله عنها،" جاءت امراة رفاعة القرظي النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: كنت عند رفاعة فطلقني، فابت طلاقي، فتزوجت عبد الرحمن بن الزبير إنما معه مثل هدبة الثوب، فقال: اتريدين ان ترجعي إلى رفاعة لا حتى تذوقي عسيلته ويذوق عسيلتك، وابو بكر جالس عنده، وخالد بن سعيد بن العاص بالباب ينتظر ان يؤذن له، فقال يا ابا بكر: الا تسمع إلى هذه ما تجهر به عند النبي صلى الله عليه وسلم".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،" جَاءَتْ امْرَأَةُ رِفاعَةَ الْقُرَظِيِّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: كُنْتُ عِنْدَ رِفَاعَةَ فَطَلَّقَنِي، فَأَبَتَّ طَلَاقِي، فَتَزَوَّجْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِيرِ إِنَّمَا مَعَهُ مِثْلُ هُدْبَةِ الثَّوْبِ، فَقَالَ: أَتُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ لَا حَتَّى تَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ وَيَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ، وَأَبُو بَكْرٍ جَالِسٌ عِنْدَهُ، وَخَالِدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ بِالْبَابِ يَنْتَظِرُ أَنْ يُؤْذَنَ لَهُ، فَقَالَ يَا أَبَا بَكْرٍ: أَلَا تَسْمَعُ إِلَى هَذِهِ مَا تَجْهَرُ بِهِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا زہری سے اور ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رفاعہ قرظی رضی اللہ عنہ کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میں رفاعہ کی نکاح میں تھی۔ پھر مجھے انہوں نے طلاق دے دی اور قطعی طلاق دے دی۔ پھر میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر رضی اللہ عنہ سے شادی کر لی۔ لیکن ان کے پاس تو (شرمگاہ) اس کپڑے کی گانٹھ کی طرح ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا ”کیا تو رفاعہ کے پاس دوبارہ جانا چاہتی ہے لیکن تو اس وقت تک ان سے اب شادی نہیں کر سکتی جب تک تو عبدالرحمٰن بن زبیر کا مزا نہ چکھ لے اور وہ تمہارا مزا نہ چکھ لیں۔“ اس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ خدمت نبوی میں موجود تھے اور خالد بن سعید بن عاص رضی اللہ عنہ دروازے پر اپنے لیے (اندر آنے کی) اجازت کا انتظار کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا، ابوبکر! کیا اس عورت کو نہیں دیکھتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کس طرح کی باتیں زور زور سے کہہ رہی ہے۔
Narrated Aisha: The wife of Rifa`a Al-Qurazi came to the Prophet and said, "I was Rifa`a's wife, but he divorced me and it was a final irrevocable divorce. Then I married `Abdur-Rahman bin Az-Zubair but he is impotent." The Prophet asked her 'Do you want to remarry Rifa`a? You cannot unless you had a complete sexual relation with your present husband." Abu Bakr was sitting with Allah's Apostle and Khalid bin Sa`id bin Al-`As was at the door waiting to be admitted. He said, "O Abu Bakr! Do you hear what this (woman) is revealing frankly before the Prophet ?"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 48, Number 807
4. باب: جب ایک یا کئی گواہ کسی معاملے کے اثبات میں گواہی دیں اور دوسرے لوگ یہ کہہ دیں کہ ہمیں اس سلسلے میں کچھ معلوم نہیں تو فیصلہ اسی کے قول کے مطابق ہو گا جس نے اثبات میں گواہی دی ہے۔
(4) Chapter. When a witness or witnesses give an evidence.
قال الحميدي: هذا كما اخبر بلال، ان النبي صلى الله عليه وسلم صلى في الكعبة، وقال الفضل: لم يصل، فاخذ الناس بشهادة بلال، كذلك إن شهد شاهدان ان لفلان على فلان الف درهم، وشهد آخران بالف وخمس مائة يقضى بالزيادة.قَالَ الْحُمَيْدِيُّ: هَذَا كَمَا أَخْبَرَ بِلَالٌ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِي الْكَعْبَةِ، وَقَالَ الْفَضْلُ: لَمْ يُصَلِّ، فَأَخَذَ النَّاسُ بِشَهَادَةِ بِلَالٍ، كَذَلِكَ إِنْ شَهِدَ شَاهِدَانِ أَنَّ لِفُلَانٍ عَلَى فُلَانٍ أَلْفَ دِرْهَمٍ، وَشَهِدَ آخَرَانِ بِأَلْفٍ وَخَمْسِ مِائَةٍ يُقْضَى بِالزِّيَادَةِ.
حمیدی نے کہا کہ یہ ایسا ہے جیسے بلال رضی اللہ عنہ نے خبر دی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ میں نماز پڑھی ہے اور فضل رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (کعبہ کے اندر) نماز نہیں پڑھی۔ تو تمام لوگوں نے بلال رضی اللہ عنہ کی گواہی کو تسلیم کر لیا۔ اسی طرح اگر دو گواہوں نے اس کی گواہی دی کہ فلاں شخص کے فلاں پر ایک ہزار درہم ہیں اور دوسرے دو گواہوں نے گواہی دی کے ڈیڑھ ہزار درہم ہیں تو فیصلہ زیادہ کی گواہی دینے والوں کے قول کے مطابق ہو گا۔
(مرفوع) حدثنا حبان، اخبرنا عبد الله، اخبرنا عمر بن سعيد بن ابي حسين، قال: اخبرني عبد الله بن ابي مليكة، عن عقبة بن الحارث، انه تزوج ابنة لابي إهاب بن عزيز، فاتته امراة، فقالت: قد ارضعت عقبة والتي تزوج، فقال لها عقبة: ما اعلم انك ارضعتني ولا اخبرتني، فارسل إلى آل ابي إهاب يسالهم، فقالوا: ما علمنا ارضعت صاحبتنا، فركب إلى النبي صلى الله عليه وسلم بالمدينة فساله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كيف وقد قيل ففارقها ونكحت زوجا غيره".(مرفوع) حَدَّثَنَا حِبَّانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ، أَنَّهُ تَزَوَّجَ ابْنَةً لِأَبِي إِهَابِ بْنِ عَزِيزٍ، فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ، فَقَالَتْ: قَدْ أَرْضَعْتُ عُقْبَةَ وَالَّتِي تَزَوَّجَ، فَقَالَ لَهَا عُقْبَةُ: مَا أَعْلَمُ أَنَّكِ أَرْضَعْتِنِي وَلَا أَخْبَرْتِنِي، فَأَرْسَلَ إِلَى آلِ أَبِي إِهَابٍ يَسْأَلُهُمْ، فَقَالُوا: مَا عَلِمْنَا أَرْضَعَتْ صَاحِبَتَنَا، فَرَكِبَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَيْفَ وَقَدْ قِيلَ فَفَارَقَهَا وَنَكَحَتْ زَوْجًا غَيْرَهُ".
ہم سے حبان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو عمر بن سعید بن ابی حسین نے خبر دی، کہا کہ مجھے عبداللہ بن ابی ملیکہ نے خبر دی اور انہیں عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے کہ انہوں نے ابواہاب بن عزیز کی لڑکی سے شادی کی تھی۔ ایک خاتون آئیں اور کہنے لگیں کہ عقبہ کو بھی میں نے دودھ پلایا ہے اور اسے بھی جس سے اس نے شادی کی ہے۔ عقبہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے تو معلوم نہیں کہ آپ نے مجھے دودھ پلایا ہے اور آپ نے مجھے پہلے اس سلسلے میں کچھ بتایا بھی نہیں تھا۔ پھر انہوں نے آل ابواہاب کے یہاں آدمی بھیجا کہ ان سے اس کے متعلق پوچھے۔ انہوں نے بھی یہی جواب دیا کہ ہمیں معلوم نہیں کہ انہوں نے دودھ پلایا ہے۔ عقبہ رضی اللہ عنہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اب کیا ہو سکتا ہے جب کہ کہا جا چکا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں میں جدائی کرا دی اور اس کا نکاح دوسرے شخص سے کرا دیا۔
Narrated `Abdullah bin Abu Mulaika from `Uqba bin Al-Harith: `Uqba married the daughter of Abu Ihab bin `Aziz, and then a woman came and said, "I suckled `Uqba and his wife." `Uqba said to her, "I do not know that you have suckled me, and you did not inform me." He then sent someone to the house of Abu Ihab to inquire about that but they did not know that she had suckled their daughter. Then `Uqba went to the Prophet in Medina and asked him about it. The Prophet said to him, "How (can you keep your wife) after it has been said (that both of you were suckled by the same woman)?" So, he divorced her and she was married to another (husband).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 48, Number 808
وقول الله تعالى: واشهدوا ذوي عدل منكم سورة الطلاق آية 2 و ممن ترضون من الشهداء سورة البقرة آية 282.وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ سورة الطلاق آية 2 و مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ سورة البقرة آية 282.
اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ الطلاق میں) فرمایا «وأشهدوا ذوى عدل منكم»”اپنے میں سے دو عادل آدمیوں کو گواہ بنا لو۔“ اور (اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ میں فرمایا) «ممن ترضون من الشهداء»”گواہوں میں سے جنہیں تم پسند کرو۔“
(مرفوع) حدثنا الحكم بن نافع، اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: حدثني حميد بن عبد الرحمن بن عوف، ان عبد الله بن عتبة، قال:سمعت عمر بن الخطاب رضي الله عنه، يقول:" إن اناسا كانوا يؤخذون بالوحي في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وإن الوحي قد انقطع، وإنما ناخذكم الآن بما ظهر لنا من اعمالكم، فمن اظهر لنا خيرا امناه وقربناه وليس إلينا من سريرته شيء الله يحاسبه في سريرته، ومن اظهر لنا سوءا لم نامنه ولم نصدقه، وإن قال إن سريرته حسنة".(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُتْبَةَ، قَالَ:سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ:" إِنَّ أُنَاسًا كَانُوا يُؤْخَذُونَ بِالْوَحْيِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّ الْوَحْيَ قَدِ انْقَطَعَ، وَإِنَّمَا نَأْخُذُكُمُ الْآنَ بِمَا ظَهَرَ لَنَا مِنْ أَعْمَالِكُمْ، فَمَنْ أَظْهَرَ لَنَا خَيْرًا أَمِنَّاهُ وَقَرَّبْنَاهُ وَلَيْسَ إِلَيْنَا مِنْ سَرِيرَتِهِ شَيْءٌ اللَّهُ يُحَاسِبُهُ فِي سَرِيرَتِهِ، وَمَنْ أَظْهَرَ لَنَا سُوءًا لَمْ نَأْمَنْهُ وَلَمْ نُصَدِّقْهُ، وَإِنْ قَالَ إِنَّ سَرِيرَتَهُ حَسَنَةٌ".
ہم سے حکم بن نافع نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی زہری سے، کہا کہ مجھ سے حمید بن عبدالرحمٰن بن عوف نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عتبہ نے اور انہوں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سنا۔ آپ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگوں کا وحی کے ذریعہ مواخذہ ہو جاتا تھا۔ لیکن اب وحی کا سلسلہ ختم ہو گیا اور ہم صرف انہیں امور میں مواخذہ کریں گے جو تمہارے عمل سے ہمارے سامنے ظاہر ہوں گے۔ اس لیے جو کوئی ظاہر میں ہمارے سامنے خیر کرے گا، ہم اسے امن دیں گے اور اپنے قریب رکھیں گے۔ اس کے باطن سے ہمیں کوئی سروکار نہ ہو گا۔ اس کا حساب تو اللہ تعالیٰ کرے گا اور جو کوئی ہمارے سامنے ظاہر میں برائی کرے گا تو ہم بھی اسے امن نہیں دیں گے اور نہ ہم اس کی تصدیق کریں گے خواہ وہ یہی کہتا رہے کہ اس کا باطن اچھا ہے۔
Narrated `Umar bin Al-Khattab: People were (sometimes) judged by the revealing of a Divine Inspiration during the lifetime of Allah's Apostle but now there is no longer any more (new revelation). Now we judge you by the deeds you practice publicly, so we will trust and favor the one who does good deeds in front of us, and we will not call him to account about what he is really doing in secret, for Allah will judge him for that; but we will not trust or believe the one who presents to us with an evil deed even if he claims that his intentions were good.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 48, Number 809