سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز تہجد کی بابت پوچھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز شب کی دو دو رکعتیں ہیں پھر جب تم میں سے کسی کو صبح ہو جانے کا خوف ہو تو وہ ایک رکعت پڑھ لے، یہ ایک رکعت جس قدر نماز وہ پڑھ چکا ہے سب کو وتر بنا دے گی۔“
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعتیں پڑھا کرتے تھے یعنی یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد ہوتی تھی۔ اس میں سجدہ اتنا (طویل) کرتے تھے کہ کوئی تم میں سے پچاس آیتیں پڑھ لے قبل اس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر اٹھائیں اور دو رکعتیں نماز فجر سے قبل پڑھا کرتے تھے پھر اپنی دائیں جانب لیٹ رہتے تھے یہاں تک کہ مؤذن نماز (کی اطلاع) کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رات کے ہر حصہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز وتر پڑھی ہے کبھی اول شب میں، کبھی نصف شب اور کبھی آخر شب میں اور آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وتر صبح کے قریب پہنچا۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اے لوگو!) تم رات کے وقت اپنی آخری نماز وتر کو بناؤ۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز میں قنوت پڑھا تھا؟ انہوں نے کہا ہاں، پھر پوچھا گیا کہ کیا رکوع سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قنوت پڑھی تھی؟ انہوں نے کہا رکوع کے بعد کچھ دنوں تک۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ ان سے قنوت کی بابت پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ بیشک قنوت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں پڑھی جاتی تھی۔ پھر پوچھا گیا کہ رکوع سے پہلے یا رکوع کے بعد؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ رکوع سے پہلے۔ کہا گیا کہ فلاں شخص نے آپ سے نقل کر کے یہ خبر دی کہ آپ نے کہا کہ رکوع کے بعد (قنوت پڑھی تھی)۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا وہ جھوٹا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک مہینہ رکوع کے بعد قنوت پڑھی تھی میں خیال کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو جو قاری (قرآن) کہلاتے تھے اور ستر کے قریب تھے (نجد کے) مشرکوں کی طرف بھیجا نہ کہ ان لوگوں کی طرف (جنہوں نے ان کو قتل کیا) اور ان کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان عہد (صلح) تھا (مگر ان لوگوں نے بدعہدی کی اور ان قاریوں کو بے وجہ قتل کر دیا) پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مہینے تک ان کے لیے بددعا کرتے رہے۔ اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینے تک قنوت پڑھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ”رعل“ اور ”ذکوان“ قبیلوں پر بددعا کرتے رہے۔