ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور میرے پاس دو لڑکیاں تھیں جو بعاث کی لڑائی کا قصہ گا رہی تھیں پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا منہ پھیر لیا۔ پھر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے مجھے ڈانٹا اور کہا کہ شیطانی آلات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس؟ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا: ”انھیں چھوڑ دو۔“ پھر جب ابوبکر رضی اللہ عنہ دوسرے کام میں لگ گئے۔ تو میں نے ان دونوں لڑکیوں کو اشارہ کیا اور وہ چلی گئیں۔ یہ عید کا دن تھا اور حبشی لوگ ڈھالوں اور برچھیوں سے کھیل رہے تھے۔ یا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”کیا تو یہ کھیل دیکھنا چاہتی ہے؟“ میں نے عرض کی جی ہاں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو اپنے پیچھے کھڑا کر لیا۔ میرا رخسار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار کے ساتھ مس کر رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”کھیلو کھیلو اے بنی ارفدہ۔“ یہاں تک کہ جب میں اکتا گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بس؟“ میں نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جائیے۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر کے روز دن چڑھنے دیتے تھے یہاں تک کہ چند کھجوریں کھا لیتے (یعنی نمازعید سے پہلے)۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم طاق کھجوریں کھاتے تھے۔
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ میں فرماتے ہوئے سنا: ”ہم اپنے اس (عید کے) دن سب سے پہلے جو کام کریں گے وہ یہ ہے کہ نماز پڑھیں گے، اس کے بعد واپس آ کر قربانی کریں گے۔ پس جو کوئی ایسا کرے گا وہ ہماری سنت (کی راہ) پر پہنچ جائے گا۔“
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدالاضحی کے دن نماز کے بعد ہمارے سامنے خطبہ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ہماری طرح نماز پڑھے اور ہماری طرح قربانی کرے تو وہ یقیناً (ہمارے) طریقے پر پہنچ گیا اور جس نے نماز سے پہلے قربانی کی تو وہ (قربانی جو) نماز سے پہلے (اس نے کی فضول) ہے اور اس کی قربانی نہیں ہے۔“ پس ابوبردہ بن نیار رضی اللہ عنہ براء رضی اللہ عنہ کے ماموں نے کہا کہ یا رسول اللہ! میں نے اپنی بکری نماز سے پہلے قربان کی ہے اور میں نے یہ سمجھا کہ آج کا دن کھانے اور پینے کا دن ہے اور میں نے چاہا کہ میری بکری سب سے پہلی بکری ہو جو میرے گھر میں ذبح ہو پس میں نے اپنی بکری ذبح کر ڈالی اور قبل اس کے کہ نماز کے لیے آؤں کچھ ناشتہ بھی کر لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری بکری گوشت کی بکری ہے (قربانی کی نہیں ہے)“ تو انہوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہمارے پاس ایک بکری کا بچہ ہے جو مجھے دو بکریوں سے زیادہ پیارا ہے تو کیا وہ مجھے کفایت کر جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں اور تمہارے بعد کسی کو کفایت نہ کرے گا۔“
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر اور عیدالاضحی کے دن عیدگاہ تشریف لے جاتے تھے تو سب سے پہلی چیز جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابتداء فرماتے تھے نماز تھی۔ نماز مکمل ہو جانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے مقابل کھڑے ہو جاتے اور لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے رہتے پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں پند و نصائح فرماتے اور احکام دیتے۔ بعدازاں اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے کہ کوئی لشکر روانہ کریں تو اس کو تیار کرتے یا دیگر کسی کام کا حکم کرنا چاہتے تو حکم فرماتے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس ہو جاتے۔ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آئندہ لوگ اسی (دستور) پر رہے یہاں تک کہ میں مروان کے ساتھ عیدالاضحی یا عیدالفطر میں نکلا اور وہ اس وقت مدینہ کا حاکم تھا، پس جب ہم عیدگاہ پہنچے تو ایک منبر وہاں رکھا ہوا تھا جس کو کثیر بن صلت نے تیار کیا تھا اور یکایک مروان کے یہ چاہتے ہی کہ نماز پڑھنے سے پہلے اس پر چڑھے میں نے اس کا کپڑا پکڑ لیا۔ اس نے مجھ سے چھڑا لیا اور چڑھ گیا۔ نماز سے پہلے خطبہ دیا اور میں نے اس سے کہا کہ اللہ کی قسم! تم لوگوں نے (سنت نبوی کو) بدل دیا۔ اس پر اس نے جواب دیا کہ اے ابوسعید! وہ بات جاتی رہی جو تم جانتے ہو۔ میں نے کہا کہ جو کچھ میں جانتا ہوں اللہ کی قسم! وہ اس سے بہتر ہے جو میں نہیں جانتا۔ تب اس نے کہا کہ لوگ ہمارے لیے نماز کے بعد بیٹھے نہ تھے اس لیے میں نے خطبہ کو نماز سے پہلے کر دیا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں) عیدالفطر اور عیدالاضحی کے دن نماز (عید) کی اذان نہ کہی جاتی تھی۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے عید کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ، عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ پڑھی۔ یہ سب لوگ خطبہ سے پہلے نماز پڑھتے تھے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور کسی بھی دن میں عبادت کرنا ان دس دنوں میں عبادت کرنے سے افضل نہیں ہے۔“ صحابہ نے عرض کی کہ جہاد بھی نہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! جہاد بھی نہیں مگر وہ شخص جو جہاد میں اپنی جان اور مال پیش کرتا ہوا نکلا پھر کسی چیز کو لے کر نہ لوٹا۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے تلبیہ کی بابت پوچھا گیا کہ تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کس طرح کیا کرتے تھے؟ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تلبیہ کہنے والا تلبیہ کہہ لیتا تھا اسے منع نہ کیا جاتا اور تکبیر کہنے والا تکیبر کہہ لیتا تھا تو اسے بھی منع نہ کیا جاتا تھا۔