سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک مرتبہ) مسجد میں تشریف لے گئے، اسی وقت ایک شخص آیا اور اس نے نماز پڑھی، اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سلام کا) جواب دیا اور فرمایا: ”جا نماز پڑھ کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔“ پس وہ لوٹ گیا اور اس نے نماز پڑھی جیسا کہ اس نے (پہلے) پڑھی تھی، پھر واپس آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جا نماز پڑھ کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔“(اسی طرح) تین مرتبہ (ہوا) تب وہ بولا کہ ”قسم اس کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں اس سے بہتر نماز ادا نہیں کر سکتا، لہٰذا آپ مجھے سکھا دیجئیے۔“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو تکبیر کہو اس کے بعد جو تمہیں قرآن سے یاد ہو اس کو پڑھو، پھر رکوع کرو یہاں تک کہ رکوع میں اطمینان سے رہو پھر سر اٹھاؤ یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہو جاؤ پھر سجدہ کرو یہاں تک کہ سجدے میں اطمینان سے رہو، پھر سر اٹھاؤ یہاں تک کہ اطمینان سے بیٹھ جاؤ اور اپنی پوری نماز میں اسی طرح کرو۔“
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورۃ الفاتحہ اور (کوئی اور) دو سورتیں پڑھتے تھے۔ پہلی رکعت میں لمبی قرآت کرتے تھے اور دوسری میں (اس سے) چھوٹی سورت پڑھتے تھے اور کبھی کبھی کوئی آیت ہمیں سنا دیتے تھے اور عصر کی نماز میں سورۃ الفاتحہ اور کوئی دو سورتیں، پہلی رکعت میں لمبی (سورت پڑھتے تھے) اور دوسری میں اس سے چھوٹی (سورت) اور صبح کی نماز کی پہلی رکعت میں (بھی) بڑی سورت پڑھتے تھے اور دوسری رکعت میں (اس سے) چھوٹی سورت پڑھتے تھے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ(میری والدہ) ام افضل رضی اللہ عنہا نے (ایک مرتبہ نماز میں) مجھے ((والمرسلات عرفاً)) پڑھتے سنا تو کہنے لگیں کہ اے میرے بیٹے! تو نے یہ سورت پڑھ کر مجھے یاد دلا دیا کہ یہی آخری سورت ہے جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو مغرب کی نماز میں پڑھتے تھے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی تو انھوں نے ((اذا السّمآء انشقّت)) پڑھی اور (اس سورت کے اس مقام پر) سجدہ کیا، لہٰذا میں ہمیشہ اس میں سجدہ کرتا رہوں گا یہاں تک کہ ان سے جا ملوں۔
سیدنا براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی سفر میں تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء (کی نماز) میں ((والتّین والزّیتون)) پڑھی۔ اور ایک دوسری روایت میں کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوش آواز یا اچھا پڑھنے والا نہیں سنا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تمام نمازوں میں قرآن پڑھا جاتا ہے پھر جن (نمازوں) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بلند آواز سے پڑھ کر) ہمیں سنایا (ان میں) ہم (بھی) تم کو سناتے ہیں اور جن میں (آہستہ آواز سے پڑھ کر) ہم سے چھپایا (ان میں) ہم (بھی) تم سے چھپاتے ہیں اور اگر سورۃ الفاتحہ سے زیادہ نہ پڑھو تو بھی کافی ہے اور اگر زیادہ پڑھ لو تو بہتر ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ(ایک دن) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند اصحاب کے ہمراہ عکاظ کے بازار کی طرف ارادہ کر کے چلے اور (اس وقت) شیاطین کے اور آسمان کی خبروں کے درمیان حجاب کیا جا چکا تھا اور ان پر شعلے پھینکے جاتے تھے۔ پس شیاطین اپنی قوم کے پاس لوٹ آئے۔ قوم نے کہا تمہیں کیا ہوا ہے؟ (اب کی مرتبہ کوئی چیز نہیں لائے) تو شیاطین نے کہا کہ ہمارے اور آسمانی خبروں کے درمیان رکاوٹ کھڑی کر دی گئی ہے اور اب ہم پر شعلے برسائے جا رہے ہیں۔ قوم نے کہا تمہارے اور آسمانی خبروں کے درمیان کسی ایسی چیز نے حجاب پیدا کر دیا ہے جو ابھی ظاہر ہوئی ہے لہٰذا روئے زمین پر مشرق و مغرب میں سفر کرو اور دیکھو کہ وہ کیا چیز ہے جس نے تمہارے اور آسمانی خبر کے درمیان حجاب ڈال دیا۔ چنانچہ وہ لوگ اس تلاش میں نکلے تو جو لوگ (ان میں سے) تہامہ کی طرف آئے تھے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اس وقت مقام) نخلہ میں تھے، عکاظ کے بازار جانے کا ارادہ رکھتے جا رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اس وقت) اپنے اصحاب کے ہمراہ فجر کی نماز پڑھ رہے تھے جب ان جنوں نے قرآن کو سنا تو اس کو سنتے ہی رہ گئے، کہنے لگے کہ اللہ کی قسم! یہی ہے جس نے تمہارے اور آسمانی خبروں کے درمیان حجاب ڈال دیا۔ پس وہیں سے جب اپنی قوم کے پاس لوٹ کر گئے تو کہنے لگے۔ ”اے ہماری قوم! ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے جو ہدایت کی راہ بتایا ہے پس ہم اس پر ایمان لے آئے اور (اب) ہم ہرگز اپنے پروردگار کا کسی کو شریک نہ بنائیں گے (سورۃ الجن: 72)“ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر (سورۃ الجن کی) یہ آیات نازل فرمائیں ((قل او حی الیّ))(سورۃ الجن: 1) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جنوں کی گفتگو نقل کی گئی۔