سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ امیرالمؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ (غزوہ) خندق میں آفتاب غروب ہونے کے بعد اپنی قیام گاہ سے حاضر ہوئے اور کفار قریش کو برا کہنے لگے اور کہا کہ یا رسول اللہ! میں عصر کی نماز نہ پڑھ سکا یہاں تک کہ آفتاب غروب ہو گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”واللہ میں نے بھی عصر کی نماز (ابھی تک) نہیں پڑھی۔“ پھر ہم (مقام) بطحان کی طرف متوجہ ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے لیے وضو فرمایا اور ہم سب نے (بھی) نماز کے لیے وضو کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز آفتاب غروب ہو جانے کے بعد پڑھی اور اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھی۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی نماز کو بھول جائے تو اسے چاہیے کہ جب یاد آئے، پڑھ لے، اس کا کفارہ یہی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ (سورۃ ”طہٰ“ میں) فرماتا ہے: ”اور میری یاد کے لیے نماز قائم کرو۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دیکھو! لوگ نماز پڑھ چکے اور سو رہے اور تم برابر نماز میں رہے جب تک کہ تم نے نماز کا انتظار کیا۔“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک مرتبہ) عشاء کی نماز اپنی اخیر زندگی میں پڑھی .... آخر تک (گزر چکی ہے دیکھیں کتاب: علم کا بیان۔۔۔ باب: رات کو علم کی باتیں کرنا۔۔۔) اور اس حدیث میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک سو برس کے بعد جو شخص آج زمین کے اوپر ہے کوئی باقی نہ رہے گا۔“ مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سے یہ تھی کہ یہ قرن (دور) گزر جائے گا۔
سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اصحاب صفہ کچھ غریب لوگ تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا تھا: ”جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ تیسرے کو (ان میں سے) لے جائے اور اگر چار کا ہو تو پانچواں یا چھٹا ان میں سے لے جائے۔“ اور امیرالمؤمنین ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تین آدمی لے گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دس لے گئے، عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں تھا اور میرے ماں باپ۔ (راوی حدیث ابوعثمان نے کہا) اور میں نہیں جانتا کہ انھوں نے یہ بھی کہا (یا نہیں) کہ میری بیوی اور ہمارا خادم بھی تھا جو میرے اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر میں مشترک تھا او ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں رات کا کھانا کھا لیا اور تھوڑی دیر وہیں ٹھہر رہے جہاں عشاء کی نماز پڑھی گئی تھی، لوٹ کر پھر تھوڑی دیر ٹھہرے یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آرام فرمایا پھر اس کے بعد جس قدر رات، اللہ نے چاہا، گزار دی (وہیں رہے) پھر اپنے گھر میں آئے تو ان سے ان کی بیوی نے کہا کہ آپ کو آپ کے مہمانوں سے کس نے روک لیا تھا یا یہ کہا کہ آپ کے مہمان سے؟ تو وہ بولے کیا تم نے انھیں کھانا نہیں کھلایا؟ انھوں نے کہا وہ نہیں مانے یہاں تک کہ آپ آ جائیں، کھانا ان کے سامنے پیش کیا گیا تھا مگر انھوں نے انکار کیا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں تو (مارے خوف کے) جا کر چھپ گیا پس ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اے لیئم! اور پھر بہت سخت سست کہا اور مہمانوں سے کہا کہ تم خوب سیر ہو کر کھاؤ۔ اس کے بعد کہا کہ اللہ کی قسم! میں ہرگز نہ کھاؤں گا۔ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ہم جب کوئی لقمہ لیتے تھے تو اس کے نیچے اس سے زیادہ بڑھ جاتا تھا۔ پھر جب سب مہمان آسودہ ہو گئے اور کھانا جس قدر پہلے تھا اس سے زیادہ بچ گیا تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس کی طرف دیکھا تو وہ اسی قدر تھا جیسا کہ پہلے تھا یا اس سے بھی زیادہ تو اپنی بیوی سے کہا کہ اے بنی فراس کی بہن! یہ کیا ماجرا ہے؟ وہ بولیں کہ اپنی آنکھ کی ٹھنڈک کی قسم! یقیناً یہ اس وقت پہلے سے تین گنا زیادہ ہے۔ پھر اس میں سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کھایا اور کہا یہ یعنی ان کی قسم شیطان ہی کی طرف سے تھی بالآخر اس میں سے ایک لقمہ انھوں نے کھا لیا۔ اس کے بعد اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اٹھا لے گئے وہ صبح کو وہیں تھا اور ہمارے اور ایک قوم کے درمیان کچھ عہد تھا، اس کی مدت گزر چکی تھی تو ہم نے بارہ آدمی علیحدہ علیحدہ کر دیے۔ ان میں سے ہر ایک کے ساتھ کچھ آدمی تھے، واللہ اعلم! ہر شخص کے ساتھ کس قدر آدمی تھے، اس کھانے سے سب نے کھا لیا یا ایسا ہی کچھ کہا۔