سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مسیل میں جو ہرشی (پہاڑ) کے قریب ہے راستہ کے داہنی جانب درختوں کے پاس اترے مسیل، ہرشی (پہاڑ) کے کنارے سے ملا ہوا ہے، اس کے اور راستہ کے درمیان قریباً ایک تیر کی مار کا فاصلہ ہے اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس درخت کے پاس نماز پڑھتے تھے، جو سب درختوں سے زیادہ راستہ کے قریب تھا اور ان سے سب سے زیادہ لمبا تھا۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مسیل پر (بھی) اترے تھے جو (مقام) مرالظہران کے اخیر میں مدینہ کی طرف ہے جبکہ کوئی شخص صفرادات (کے پہاڑوں) سے اترے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مسیل کے گھیراؤ میں راستہ کی بائیں جانب، جب کہ تو مکہ کی طرف جا رہا ہو، نزول فرماتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اترنے کی جگہ اور راستہ کے درمیان صرف ایک پتھر کی مار کا فاصلہ ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (مقام) ذی طویٰ میں اترتے تھے اور رات کو وہیں رہتے تھے یہاں تک کہ صبح ہو جاتی اور صبح کی نماز پڑھتے (یہ اس وقت) جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ تشریف لاتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز پڑھنے کی جگہ ایک سخت ٹیلہ پر ہے نہ کہ اس مسجد میں، جو وہاں بنائی گئی ہے بلکہ اس سے نیچے اسی سخت ٹیلہ پر ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پہاڑ کے دو کونوں کے سامنے آئے وہ کونا کہ جو اس پہاڑ اور بڑے پہاڑ کے درمیان کعبہ کی طرف ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسجد کو جو وہاں بنائی گئی ہے، اس مسجد کی بائیں جانب چھوڑ دیا جو ٹیلہ کی طرف ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز پڑھنے کی جگہ اس سے نیچے سیاہ ٹیلہ کی اوپر ہے، ٹیلے سے دس گز یا اس کے قریب چھوڑ کر۔ پھر پہاڑ کے ان دونوں کونوں کی طرف جو تمہارے اور کعبہ کے درمیان ہیں منہ کر کے نماز پڑھو۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب عید کے دن (نماز پڑھانے) نکلتے تو حکم دیتے کہ حربہ (چھوٹا نیزہ) آپ کے سامنے گاڑ دیا جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف (منہ کر کے) نماز پڑھاتے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہوتے اور سفر میں (بھی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہی کیا کرتے تھے، اسی جگہ سے امراء نے اسے اختیار کر لیا ہے۔ (یعنی برچھی اپنے پاس رکھنے کو اختیار کر لیا)۔
سیدنا ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بطحاء میں لوگوں کو نماز پڑھائی۔ ظہر کی دو رکعت اور عصر کی دو رکعت، اس حالت میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک نیزہ گڑا ہوا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے عورتیں اور گدھے گزر رہے تھے۔
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز پڑھنے کی جگہ اور دیوار کے درمیان ایک بکری کے گزر جانے کے بقدر فاصلہ ہوتا تھا۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب قضائے حاجت کے لیے باہر تشریف لے جاتے تو میں اور ایک لڑکا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے جاتے، ہمارے پاس ایک عکازہ (گانسی دار لکڑی) یا لاٹھی یا نیزہ ہوتا تھا اور ہمارے ساتھ ایک پانی کی چھاگل ہوتی تھی۔ پس جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حاجت سے فارغ ہوتے تو وہ چھاگل ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیتے۔
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ (مسجدنبوی) میں اس ستون کے پاس نماز پڑھا کرتے تھے جو مصحف کے قریب تھا تو (ان سے) پوچھا گیا کہ اے ابومسلم! میں (یزید بن ابی عبیدہ) تمہیں دیکھتا ہوں کہ تم اس ستون کے پاس نماز پڑھنے کی کوشش کیا کرتے ہو؟ تو انھوں نے کہا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے پاس نماز پڑھنے کی کوشش فرماتے دیکھا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کعبہ میں داخل ہونے کی حدیث بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ میں داخل ہوئے۔ میں نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا (جب وہ باہر آ گئے) کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (کعبہ کے اندر) کیا کیا؟ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ستون کو اپنی بائیں جانب کر لیا اور ایک ستون کو اپنی داہنی جانب اور تین ستونوں کو پیچھے کر لیا اور نماز پڑھی اور اس وقت کعبہ چھ ستونوں پر (بنا ہوا) تھا۔ ایک دوسری روایت میں ہے (امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں) کہ دو ستونوں کو اپنی داہنی جانب کر لیا۔