سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کے گھر آئے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو گھر میں نہ پایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے چچا کے بیٹے کہاں ہیں؟“ وہ بولیں کہ میرے اور ان کے درمیان کچھ (تنازعہ) ہو گیا تو وہ مجھ پر غضبناک ہو کر چلے گئے اور میرے ہاں نہیں سوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا: ”دیکھو وہ کہاں ہیں؟ وہ (دیکھ کر) آیا اور اس نے کہا کہ وہ مسجد میں سو رہے ہیں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مسجد میں) تشریف لے گئے اور وہ لیٹے ہوئے تھے، ان کی چادر ان کے پہلو سے گر گئی تھی اور ان کے (جسم پر) مٹی لگ گئی تھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان (کے جسم) سے مٹی جھاڑتے اور یہ فرماتے تھے: ”اے ابوتراب! اٹھو۔ اے ابوتراب! اٹھو۔“
سیدنا ابوقتادہ السلمیی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو اسے چاہیے کہ بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھ لے۔“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسجد کچی اینٹوں سے (تعمیر کی ہوئی تھی) اور اس کی چھت کھجور کی شاخوں کی تھی اور اس کے ستون کھجور کی لکڑی کے تھے تو امیرالمؤمنین سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس میں کچھ زیادتی نہیں کی اور امیرالمؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس میں زیادتی کر دی اور اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کی عمارت کے موافق کچی اینٹوں اور کھجور کی شاخوں سے بنایا اور اس کے ستون پھر لکڑی کے لگائے۔ اس کے بعد امیرالمؤمنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کو بدل دیا اور اس میں بہت سی زیادتی کر دی اور اس کی دیوار منقش پتھروں اور گچ کی بنائی اور اس کی چھت ساگواں (ایک قسم کی لکڑی) سے بنائی۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ (ایک دن) حدیث بیان کرنے لگے یہاں تک کہ مسجد (مسجدنبوی) کی تعمیر کے بیان پر آئے تو کہنے لگے کہ ہم ایک ایک اینٹ اٹھاتے تھے اور سیدنا عمار رضی اللہ عنہ دو دو اینٹیں اٹھاتے تھے تو انھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان (کے جسم) سے مٹی جھاڑنے لگے اور یہ فرماتے جاتے تھے کہ: ”وائے عمار کی مصیبت! انھیں ایک باغی گروہ شہید کرے گا، یہ ان کو جنت کی طرف بلاتے ہوں گے اور وہ ان کو دوزخ کی طرف بلاتے ہوں گے۔“ ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عمار کہا کرتے تھے کہ ”میں فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔“
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب لوگ ان کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے، جس وقت کہ انھوں (عثمان) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد بنائی، انھوں نے کہا کہ تم نے (میرے بارے میں) بہت کچھ کہا حالانکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جو شخص مسجد بنائے اور اللہ کی رضامندی چاہتا ہو۔ اللہ اس کے لیے اسی کے برابر جنت میں مکان بنا دیتا ہے۔“
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص مسجد میں سے گزرا اور اس کے ہمراہ کچھ تیر تھے تو اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کی پیکان (جس سے آدمی زخمی ہو سکتا ہے) پکڑ لو۔“
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ہماری مسجدوں یا بازاروں میں سے کسی تیر کے ساتھ گزرے تو اسے چاہیے کہ اس کی پیکانوں کو پکڑے کہیں ایسا نہ ہو کہ اپنے ہاتھ سے کسی مسلمان بھائی کو زخمی کر دے۔“
سیدنا حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے گواہی طلب کی کہ میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں (بتاؤ) کیا تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (مجھ سے) فرماتے تھے: ”اے حسان! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے (مشرکوں کو) جواب دو، اے اللہ! حسان کی روح القدس کے ذریعے تائید فرما۔“ تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بولے کہ ہاں (میں نے سنا تھا)۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دن اپنے حجرہ کے دروازہ پر دیکھا اور حبش کے لوگ مسجد میں کھیل رہے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنی چادر سے چھپا رہے تھے اور میں ان کے کھیل کو دیکھ رہی تھی۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ وہ (حبشی) اپنی تلواروں سے کھیلتے تھے۔
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے مسجد میں ابن ابی حدرد سے اس قرض کا تقاضا کیا جو ان پر تھا۔ پس دونوں کی آوازیں بلند ہو گئیں یہاں تک کہ انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے یہاں تک کہ اپنے حجرہ کا پردہ الٹ دیا اور آواز دی: ”اے کعب! انھوں نے عرض کی لبیک یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے اس قرض سے کچھ کم کر دو اور اس کی طرف اشارہ کیا یعنی نصف (کم کر دو)۔“ کعب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! میں نے کم کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ابن ابی حدرد سے) فرمایا: ”اٹھ اور اسے ادا کر دے۔“