سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری کو چوڑائی میں بٹھا دیتے تھے اور اس کی طرف (منہ کر کے) نماز پڑھتے تھے (عبیداللہ راوی نے نافع راوی سے پوچھا) کہ جب سواریاں چرنے کے لیے چلی جاتیں (تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے؟) وہ بولے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کجاوے کو لے لیتے تھے پھر اس کے پچھلے حصے کی طرف یا (یہ کہا کہ) اس کے آخری حصے کی طرف نماز پڑھ لیتے تھے اور ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی یہی کرتے تھے۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کیا تم لوگوں نے ہمیں کتے اور گدھے کے برابر کر دیا؟ بیشک میں نے اپنے آپ کو چارپائی پر لیٹا ہوا دیکھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے تھے تو چارپارئی کے بیچ میں (کھڑے ہو کر) نماز پڑھتے اور میں اس بات کو برا جانتی تھی کہ (نماز میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رہوں پس میں چارپائی کے پایوں کی طرف نکل جاتی یہاں تک کہ اپنے لحاف سے باہر ہو جاتی۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن کسی چیز کے طرف (منہ کر کے) نماز پڑھ رہے تھے جو ان کو لوگوں سے چھپاتی تھی۔ پس ایک جوان نے جو (قبیلہ) بنی ابی معیط سے تھا، یہ چاہا کہ ان کے آگے سے نکل جائے تو سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے اس کے سینہ میں دھکا دیا، پس اس جوان نے کوئی سبیل نکلنے کی، سوائے ان کے آگے کے نہ دیکھی تو پھر اس نے چاہا کہ نکل جائے، پس ابوسعید رضی اللہ عنہ نے پہلے سے زیادہ سخت اسے دھکا دیا، اس پر اس نے ابوسعید رضی اللہ عنہ کی بےحرمتی کی۔ اس کے بعد وہ مروان کے پاس گیا اور ابوسعید رضی اللہ عنہ سے جو معاملہ ہوا تھا اس کی مروان سے شکایت کی اور اس کی پیچھے (پیچھے) ابوسعید رضی اللہ عنہ (بھی) مروان کے پاس گئے تو مروان نے کہا کہ اے ابوسعید! تمہارا اور تمہارے بھائی کے بیٹے کا کیا معاملہ ہے؟ ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص کسی ایسی چیز کی طرف نماز پڑھ رہا ہو جو اسے لوگوں سے چھپائے پھر کوئی شخص اس کے سامنے سے نکلنا چاہے تو چاہیے کہ اسے ہٹا دے اور اگر وہ نہ مانے تو اس سے لڑے، اس لیے کہ وہ شیطان ہی ہے۔
سیدنا ابوجہیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر نماز پڑھنے والے کے سامنے سے گزرنے والا یہ جان لیتا کہ اس پر کس قدر گناہ ہے، تو بیشک اسے چالیس .... تک کھڑا رہنا بھلا معلوم ہوتا اس بات سے کہ اس کے سامنے سے نکل جائے۔“(ابونضر) راوی حدیث کہتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ چالیس دن کہا یا چالیس مہینے یا چالیس برس۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے ہوتے تھے اور میں عرض کے بل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بستر پر سو رہی ہوتی تھی۔ پس جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وتر پڑھنے کا ارادہ فرماتے تو مجھے جگا دیتے تو میں بھی وتر پڑھ لیتی۔
سیدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اسی حالت میں) ابوالعاص بن ربعیہ بن عبدالشمس کی بیٹی امامہ بنت زینب بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھائے ہوتے تھے۔ پھر جب سجدہ کرتے تو ان کو اتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو ان کو اٹھا لیتے۔ (سیدہ زینب رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی، امامہ نواسی اور ابوالعاص داماد تھے)۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود کی حدیث، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قریش پر بددعا کرنے کے بارے میں، جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش پر اس دن کی تھی جس دن انھوں نے آپ پر اوجھڑی رکھ دی تھی، پہلے گزر چکی ہے (دیکھئیے کتاب: وضو کا بیان۔۔۔ باب: اگر نماز پڑھنے والے کی پیٹھ پر کوئی نجاست یا مردار ڈال دیا جائے تو اس کی نماز فاسد نہ ہو گی) اور اس روایت میں اتنا زیادہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد وہ گھسیٹ کر بدر کے کنویں میں ڈال دیے گئے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کنویں والوں پر لعنت کی گئی ہے۔“